کروڑوں مالیتی سونا فلمی انداز میں اسمگل کرنیوالی ڈائریکٹر جنرل پولیس کی بیٹی اداکارہ گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
دبئی (نیوزڈیسک)فلمی انداز میں دبئی سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا بھارت اسمگل کرنیوالی 31 سالہ بھارتی اداکارہ رانیا راؤ کو گرفتار کرلیا گیا۔بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق رانیا راؤ کو چار مارچ کو بنگلورو ایئرپورٹ سے ساڑھے 14 کلو سونا جو کہ بھارتی 13 کروڑ روپے کا بنتا ہے، اسمگل کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اداکارہ نے فلمی انداز میں کپڑوں اور جسم کے ساتھ سونے کے بسکٹس کو اس طرح چپکایا ہوا تھا کہ اسے تلاش کرنا مشکل تھا، تاہم ایئرپورٹ پر حکام نے انہیں بڑی ہوشیاری سے پکڑ لیا۔
دوسری جانب ’نیوز 18‘ نے اپنی ایک اور خبر میں بتایا کہ رانیا راؤ ریاست کرناٹک کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) رام چندر راؤ کی بیٹی ہیں، جنہوں نے مذکورہ واقعے کے بعد بیٹی سے اظہار لا تعلقی کردیا ہے۔
اداکارہ کے والد کا کہنا تھا کہ رانیا راؤ نے چار ماہ قبل بنگلورو کے ایک کاروباری شخص سے شادی کرلی تھی، اس کے بعد ان کا ملنا جلنا کم ہوچکا ہے اور انہیں بیٹی اور ان کے شوہر کے کاروبار سے متعلق کوئی معلومات نہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ اگر ان کی سوتیلی بیٹی غلط کام میں ملوث پائی گئیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔
رانیا راؤ نے 2014 میں کنڑ زبان کی فلموں سے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور بعد ازاں انہوں نے تامل فلموں میں بھی کام کیا اور ان کا شمار جنوبی بھارتی فلم انڈسٹری کی ابھرتی اداکاراؤں میں ہوتا ہے۔رانیا راؤ نے چند بڑے بجٹ کی فلموں اور مقبول ہیروز کے ساتھ بھی مرکزی کردار ادا کیے، تاہم کچھ عرصے سے وہ فلم انڈسٹری سے دور تھیں اور چند ماہ قبل انہوں نے شادی کرلی تھی۔
رانیا راؤ کے تواتر سے دبئی اور بھارت کے دوروں کے بعد حکام کو ان پر شک ہوا اور ان کی کڑی نگرانی کرکے انہیں سونا اسمگل کرنے کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔علاوہ ازیں انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق رانیا راؤ کو آج بنگلورو کی اکنامک اوفینس کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں انہوں نے اپنی ضمانت کے لیے پٹیشن دائر کی تھی۔
دوران سماعت ڈائریکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس (ڈی آر آئی) نے عدالت سے درخواست کی کہ رانیا راؤ سے مزید تفتیش کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کس طرح سیکیورٹی کے تمام پروٹوکول توڑے اور کیسے اتنی بھاری مقدار کا سونا اسمگل کیا۔
ڈی آر آئی نے عدالت کے روبرو انکشاف کیا کہ اداکارہ نے رواں سال کے دوران دبئی کے 27 دورے کیے ہیں جس کی وجہ سے ان پر خطیر مالیت کے سونے کی اسمگلنگ کے شبے کو تقویت پہنچتی ہے۔بعد ازاں عدالت نے اداکارہ کی ضمانت کی پٹیشن پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کہ کل (جمعہ کو) سنایا جائے گا۔
کیا صدر ٹرمپ عمران خان کو رہا کروائیں گے؟ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے سوال نظر انداز کردیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رانیا راو انہوں نے اور ان
پڑھیں:
پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے صرف فلم سٹی کافی نہیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فلم انڈسٹری کی صورت حال پر قریب سے نظر رکھنے والے صحافی طاہر سرور میر نے صوبہ پنجاب میں ایک فلم سٹی بنانے کے اعلان کا خیر مقدم تو کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر جملہ سہولیات کی فراہمی کے باوجود مواد کی تخلیق میں آزادی کو یقینی نہ بنایا گیا، تو ملکی فلمی صنعت کی بحالی کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔
لاہور میں نیشل کالج آف آرٹس کی اسما نامی ایک سابقہ طالبہ نے، جو ایک نوجوان فلم میکر بھی ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لوگ سینما گھروں میں اس لیے جاتے ہیں کہ وہ حقیقی دنیا سے کچھ دیر کے لیے دور ہو کر دلچسپ اور تفریحی فلمیں دیکھ سکیں۔
اسما کا کہنا تھا کہ اگر سینما گھروں میں بھی شائقین نے پراپیگنڈا ہی دیکھنا اور سننا ہے، تو پھر ایسی فلمیں دیکھنے کے لیے ٹکٹیں کون خریدے گا؟ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں کئی فلمیں معمولی غلط فہمیوں کی وجہ سے بھی طویل عرصے تک ریلیز نہ ہو سکیں، ''تو یہ ایسے معاملات ہیں، جن پر حکومت کو توجہ دینا چاہیے۔
(جاری ہے)
‘‘ عوام کو فلموں سے دور کن عوامل نے کیا؟طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سابق فوجی حکمران ضیا الحق کے دور میں بھارتی اداکار شتروگھن سنہا ان کے گھر آتے جاتے رہے لیکن پاکستان میں فلم انڈسٹری پابندیوں ہی کا شکار رہی۔ اس کے علاوہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو پابندیوں کے علاوہ دہشت گردی کا بھی سامنا کرنا پڑا، سینما گھروں میں بم دھماکے ہوتے رہے اور رہی سہی کسر ان کم تعلیم یافتہ لوگوں نے پوری کر دی، جو پاکستانی فلمی صنعت کا حصہ بن گئے تھے، ''ان عوامل کے باعث تخلیقی شخصیات اور عام شائقین فلموں سے دور ہوتے چلے گئے۔
‘‘آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بیشتر روایتی سینما گھر اب شادی ہالوں، ورکشاپوں،پارکنگ ایریاز اور شو رومز میں بدل چکے ہیں۔ لاہور کے معروف گلستان سینما میں موجود اکرم نامی ایک شخص نے بتایا کہ پچھلے کئی ہفتوں سے یہ سینما بند ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ سینما دوبارہ کب کھلے گا۔ اسی طرح نغمہ سینما کے باہر موجود نثار نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہاں سینما مستقل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
کئی ماہرین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی جیسے منصوبے کو اگر افسر شاہی کے سپرد کر دیا گیا، یا اگر اسے اقربا پروری اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، تو یہ صرف وسائل کے ضیاع کا باعث بنے گا۔
فلموں سے متعلق عمومی سوچ کی تبدیلی کی ضرورتاداکارہ جیا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آرٹ، کلچر اور فلموں کے بارے میں ملکی اشرافیہ کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور مقابلتاﹰ زیادہ بہتر طرز عمل اپنانا ہو گا۔
انہوں نے کہا، ''ہم نے اپنے سکولوں میں طلبا کو ڈرامہ، میوزک، ڈانس اور تھیٹر کی تربیت حاصل کرتے دیکھا تھا۔ اسی طرح آج بھی آرٹ کو اسکولوں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے، تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں سامنے آ سکیں۔‘‘ ان کے بقول آرٹ اور کلچر سے متعلق ملکی پالیسیوں کا دیرپا ہونا بھی ناگزیر ہے۔
کن فلمی میلہ: ٹرانس جینڈر سے متعلق پاکستانی فلم انعام کی حقدار
طاہر سرور میر سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی ریاست اور معاشرے کی ترجیح ہے ہی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں فلم کو بھی ابلاغ عامہ کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، تاہم پاکستان میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو کمتر اور برا سمجھا جاتا ہے۔طاہر سرور میر کے بقول، ''پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے اس سیکٹر کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ اسے عزت دینا ہو گی۔ اس شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ دوسری طرف پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو بھی ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانا ہو گا۔
‘‘ ماضی میں فلمی شعبے سے متعلق کیے گئے اعلاناتصحافت کے سینئر استاد، پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی فلمی صنعت کی بحالی کے کئی اعلانات ماضی میں بھی کیے گئے، لیکن ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، ''اہم ترین بات تربیت یافتہ افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔‘‘ ان کے بقول یونیورسٹیوں میں فلم اسٹڈیز پڑھانے والے خود فلم کی عملی تربیت سے عاری ہیں اور اسی لیے ان سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی کچھ نہیں آتا۔
‘‘لالی وڈ کا زوال: کراچی پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز کیسے بنا؟
پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر کے بقول پاکستانی معاشرے میں یہ غلط تاثر عام ہے کہ لوگ پیدائشی اداکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق فلم سازی ایک سنجیدہ کام ہے، جس کے لیے اداکاروں، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز سب کو اچھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، ''پہلے لوگ اداکار بننے کی آرزو کرتے تھے۔
اب ہر کوئی پہلے ہی دن سے سپر سٹار بن جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ معیار کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔‘‘ڈرامہ نگار اور اداکار افتخار احمد عثمانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی کے قیام کا اعلان ایک اچھا اقدام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فلمی صنعت ''بےجا سرکاری پابندیوں میں جکڑی ہوئی نہیں ہونا چاہیے۔
‘‘ وفاقی وزارت کے پاس سو سے زائد فلموں کی تجاویزافتخار احمد عثمانی کے مطابق، ''اب تک میں نے خود جتنے بھی ڈرامے لکھے ہیں، ان میں ایک ڈرامہ نگار کے طور پر میرے اپنے اندر بھی ایک سنسرشپ تھی، کہ فلاں بات نہیں لکھنا چاہیے کیوں کہ وہ معاشرے کے لیے بہتر نہیں۔ آج بھی میں جو ویڈیوز بناتا ہوں، ان میں میری کوشش ہوتی ہے کہ اچھے اور مہذب الفاظ کا چناؤ کروں۔
یا پھر اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کر کے زیب داستاں کے لیے اسے اس قابل بنا دوں کہ اس ویڈیو کہانی کو بچے، بچیاں، بزرگ، سبھی دیکھ سکیں اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ بھی سکیں۔‘‘پاکستانی فلمی صنعت: زوال کی گرد سے عروج کے چڑھتے سورج تک
پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات میں فلم کے شعبے کے سربراہ جاوید میاں داد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت کے پاس 107 فلموں کی تجاویز آئی ہوئی ہیں اور حکومت اگلے چند ہفتوں میں ان میں سے 50 کے قریب فلموں کی تجاویز منظور کر کے انہیں فلمیں بنانے کے لیے گرانٹ دے گی جو کہ زیادہ سے زیادہ پانچ کروڑ تک ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے صوبے میں پہلے فلم سٹی، فلم اسٹوڈیو، پوسٹ پروڈکشن لیب اور فلم اسکول کے قیام کی منظوری دے دی۔ ساتھ ہی فلموں کی تیاری کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
ادارت: مقبول ملک