پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی WhatsAppFacebookTwitter 0 7 March, 2025 سب نیوز
تحریر سدرہ انیس
جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں ایک بد نام زمانہ مہم چلی جس کا نام خاندانی منصوبہ بندی تھا۔ جس کا سلوگن تھا بچے دو ہی اچھے پھر جب ہمارے دور میں اس سے متعلق کوئی ٹیلی ویژن پر اشتہار چلتا تھا تو کافی معیوب سمجھا جاتا تھا اور اِسے مغربی سازش مانا جاتا۔ بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آیا کہ بچے دو ہی اچھے سے کیا مراد ہے۔ حالیہ مہنگائی کے دور میں پاکستان میں بہت ذیادہ تعداد میں ایسے لوگ بھی ہے جو دو بچوں کا بھی خرچ بامشکل پورا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں 2.
حالیہ مارچ 2025 کے سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی دنیا کی آبادی کا 3.1 فیصد ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہر 33 میں سے ایک شخص پاکستانی ہے۔ مارچ 2025 تک پاکستان کی آبادی 253,900,224 ہے۔ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ پاکستان میں آبادی کی کثافت 331 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان میں اوسط عمر 20.6 سال ہے۔
تقریباً 97% پاکستانی مسلمان ہیں، اور 90% آبادی سنی اسلام کی پیروی کرتی ہے۔ اور اگلے تیس سال میں پاکستان دنیا کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا سب سے بڑا ملک ہو گا۔پاکستان میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے جن مسائلِ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان مسائل میں وسائل کی کمی، سماجی بدامنی، اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات شامل ہیں۔ دنیا کے ممالک میں پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش والا مُلک ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے ایک آرٹیکل کے مطابق پاکستان میں شرح پیدائش 2.5% ہے اور یہ ہمارے لیے ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی سب سے بڑی وجہ خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل ادویات کا کم استعمال ہے اس کی بڑی وجہ مذہبی عقائد ہیں بعض مذہبی اسکالرز مانع حمل اور بچوں کی منصوبہ بندی کے بارے میں ایک محدود نظریہ رکھتے ہیں۔ چونکہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں ایک اچھی خاصی کثیر تعداد ان عقائد کو مانتی ہیں۔
اِس لیے وہ خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل کو اسلامی تعلیمات کے خلاف سمجھتے ہیں۔پاکستانی خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے آگاہ ہیں،لیکن مانع حمل کی ادویات کے کم استعمال میں سماجی، ثقافتی، مذہبی، اور اقتصادی رکاوٹوں سمیت متعدد عوامل شامل ہیں۔شوہر کی مخالفت اور مشترکہ خاندانی نظام کی مداخلت عام رکاوٹیں ہیں۔ مذہبی پابندیاں اور مانع حمل ادویات کی قیمت FP طریقوں کے بارے میں آگاہی کی کمی اور استمعال کے بعد جسمانی صحت کو متاثر کرنے کا خوف شامل ہے۔ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہم نے اِس بڑھتی ہوئی آبادی پر کوئی اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں ہمیں پریشانی سے دوچار ہونا پڑےگا ۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے ہمیں چاہیے کہ بیٹے کی پیدائش کے لئے مزید بچے پیدا کرنا اور بیٹیوں میں تفریق کے تصور کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کو گھر کی دہلیز پر مانع حمل خدمات کی مشاورت کو فروغ دینے کے لیے گروپس کو منظم کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ملک کے معاشی استحکام اور اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے اپنی شرح نمو کو کنٹرول کریں اور ایک ٹیم کے طور پر کام کریں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج کے اِس جدید دور میں بھی ہم اس بات سے آگاہ نہیں کہ وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لیے مسائل کا سبب ہے جس سے ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد نہیں رکھ سکتے ۔بڑھتی ہوئی آبادی اور ہمارے غیر زمہ دارانہ رویہ کو دیکھ کر مجھے حاطب صدیقی کی نظم یاد آتی ہے۔ جو ہمارے آجکل کے حالات پر سہی بیٹھتی ہے۔
کبوتر بولا غٹرغوں۔ یا اللہ میں کیا کروں
دو افراد کے کنبے کو۔ آخر میں کیسے پالوں
کیا لاؤں خود کھانے کو۔ کیا اُن کے منہ میں ڈالوں
کس کس سے فریاد کروں کس کس سے دانہ مانگوں
روتا کُرتا رہتا ہوں غوں غوں غوں غٹرغوں
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بڑھتی ہوئی آبادی اور پاکستان میں پاکستان کی کی کمی
پڑھیں:
ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، شیخ وقاص اکرم
اسلام آباد:رہنما پاکستان تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ بات شروع کرنے سے قبل میں ایک چیز کلیریٹی سے کہہ دوں کہ فی الوقت جب ہم بات کر رہے ہیں، ہمارے بیک ڈور یا سامنے کسی قسم کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں جو اپنی ذاتی حیثیت میں کوششیں کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ان کو بھی خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میری رہائی کے حوالے سے میں نے کسی کو بھی آتھرائز نہیں کیا کہ وہ کوئی مذاکرات کریں، وہ بات وہاں فائنل ہو گئی ہے، اگر کوئی کلیم بھی کرتا ہے کہ مجھے خان نے آتھرائز کیا ہے تو خان صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ میں نے کسی کو آتھرائز نہیں کی۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خان صاحب نے ایک اور بات بڑی واضح کر دی ہے ساتھ ہی کہ ہم بطور پولیٹکل پارٹی مذاکرات کے بالکل خلاف نہیں ہیں مگر مذاکرات کس لیے؟نمبر ون قوم کیلیے، نمبر ٹو آئین کی بالادستی اور نمبر تین قانون کی حکمرانی کیلیے، ہیومن رائٹس کے لیے، جمہوریت کیلیے۔
رہنما پاکستان پیپلزپارٹی قمر زمان کائرہ نے کہا ہر معاملے کے لیے جمہوری نظام کے اندر آئینی ڈھانچہ دیا ہوا ہے،آئینی ڈھانچے میں اس کے لیے مناسب فورمز موجود ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمیں بجائے اس کے کہ میڈیا کے اوپر ڈسکشن ہو، جلسے جلوس ہوں، ہمیں یا تو ایوان میں بات کرنی چاہیے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ پہلے جو مناسب فورم ہے، یعنی کونسل آف کامن انٹرسٹ جس کے بارے میں پیپلزپارٹی نے من حیث الجماعت اور سندھ حکومت من حیث الحکومت ایک مشترک فریق۔
ایک سوال پران کا کہنا تھا کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ اس پر اس سے پہلے میٹنگز ہوئیں، میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ تلخی بڑھ گئی ہے اور یہ تلخی اچھی نہیں ہے۔
ماہر پاک افغان امور طاہر خان نے کہاکہ میری نظر میں اس کا انحصار ہوگا آئندہ دنوں میں پاکستان کا جو ایک بنیادی مسئلہ ہے افغانستان کی حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی کا پاکستانی شدت پسند گروپوں کا، اگر پاکستان میں سیکیورٹی کے معاملات پہ کچھ بہتری آتی ہے تو پھر آپ کے سوال کا جوا ب میں دوں گا کہ ہاں لیکن اگر نہیں آتی اور حالات یوں ہی رہیں تو پھر شاید وہ جو ایک ماضی میں پاکستان وہاں پر وہ یہی خدشات کا اظہار کرتا رہا اور وہ خدشات بڑھتے، بڑھتے تلخیوں پر معاملہ آ جاتا ہے تو اس کیلیے ابھی انتظار کرنا پڑے گا لیکن جس طرح آپ نے کہا بالکل دورہ اہم تھا اور آپ کویاد ہو گا جب اکتوبر 2021 میں پی ٹی آئی حکومت میں جب شاہ محمود قریشی گئے تھے یہ اس کے بعد ایک وزیرخارجہ کا دورہ ہے۔