صدر ٹرمپ کا یو ٹرن، کینیڈا اور میکسیکو پر عائد کردہ ٹیرف ایک دن بعد ہی مؤخر کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو پر عائد ٹیرف کو ختم کرتے ہوئے درآمدی محصولات سے مستثنیٰ مال کی فہرست کو نمایاں طور پر بڑھانے کے احکام پر دستخط کر دیے ہیں۔
یہ دوسرا موقع ہے جب ٹرمپ نے دو دنوں میں امریکا کے دو بڑے تجارتی شراکت داروں سے درآمدات پر عائد محصولات میں کمی کی ہے، گزشتہ روز ان اقدامات نے کاروباری حلقوں میں بے یقینی پیدا کی اور مالی منڈیوں کو پریشان کیا۔
صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک پر عائد ٹیرف کو 2 اپریل تک مؤخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ 2 اپریل امریکی تاریخ کا اہم ترین دن ہو گا۔
بدھ کے روز ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ کار ساز کمپنیوں کو 25 فیصد کی درآمدی ٹیکس سے عارضی طور پر مستثنیٰ کریں گے، یہ اقدام صرف ایک دن بعد کیا گیا جب ان ٹیکسوں کا نفاذ شروع ہوا۔
میکسیکو کی صدر کلاؤڈیا شیئنباؤم نے اس فیصلے پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، جبکہ کینیڈا کے وزیر خزانہ نے کہا کہ کینیڈا اس کے جواب میں امریکا کی مصنوعات پر متوقع دوسرے مرحلے کی جوابی محصولات کو مؤخر کرے گا۔
ٹروڈو نے صحافیوں کو بتایا کہ دو اتحادیوں کے درمیان تجارتی جنگ کا امکان مستقبل قریب میں برقرار رہنے کا امکان ہے، حالانکہ کچھ ہدفی رعایتیں دی گئی ہیں۔ ہمارا مقصد تمام محصولات کو ختم کرنا ہے۔
کینیڈا نے پہلے ہی 21 ارب امریکی ڈالر مالیت کے امریکی سامان پر جوابی محصولات عائد کر دی ہیں۔
تجارتی جنگ کے دباؤ نے عالمی منڈیوں میں ہلچل مچادی ہے اور اقتصادی عدم استحکام کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
گزشتہ روز دوپہر میں امریکی اسٹاک مارکیٹس میں کمی آئی اور ایس اینڈ پی 500، جو 500 بڑی امریکی کمپنیوں کو ٹریک کرتا ہے، نے تقریبا 1.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک مجوزہ ایگزیکٹو آرڈر کے مسودے کے مطابق، محکمہ خارجہ (State Department) میں نمایاں کمی اور از سرِ نو تشکیل کی تجویز دی گئی ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، اس 16 صفحات پر مشتمل مسودے کی کاپی امریکی سفارتکاروں میں گردش کر رہی ہے۔
اگر یہ تبدیلیاں نافذ کر دی گئیں تو 1789 میں قیام کے بعد سے محکمہ خارجہ کی یہ سب سے بڑی تنظیمِ نو ہوگی۔ حکام کے مطابق، یہ مسودہ دنیا بھر کے سفارتکاروں کو بھیجا گیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز ایک پوسٹ میں ان اطلاعات کو ’جھوٹی خبر‘ قرار دیا۔
مجوزہ حکمنامے کے تحت درجنوں شعبے اور محکمے ختم کر دیے جائیں گے، جن میں ماحولیاتی تبدیلی، پناہ گزینوں، جمہوریت، افریقی امور اور اقوامِ متحدہ سے رابطے کے لیے کام کرنے والا ’بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سفارتی سرگرمیوں میں بھی نمایاں کٹوتی کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
یہ تجاویز ٹرمپ انتظامیہ کی اُس پالیسی کا تسلسل ہیں جس کے تحت امریکا کے کثیرالملکی عالمی نظام میں کردار کو کمزور کیا جا رہا ہے، وہ نظام جس کی تعمیر میں امریکا نے خود کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
تبدیلیوں کے تحت، محکمہ خارجہ کو 4 علاقائی بیوروز میں تقسیم کیا جائے گا، جو انڈو پیسیفک، لاطینی امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیا پر مشتمل ہوں گے۔ افریقہ کے صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع کئی غیر ضروری سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کی تجاویز بھی شامل ہے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق یہ تبدیلیاں یکم اکتوبر تک نافذ کی جائیں گی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق مسودے کی پہلی بار خبر سامنے آئی لیکن امریکی سفارتخانے نیروبی کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حکمنامے کے تمام نکات پر دستخط کریں گے یا نہیں۔ افریقہ میں موجود ایک سینئر اہلکار کے مطابق، محکمہ خارجہ میں اصلاحات سے متعلق جو معلومات گردش کر رہی ہیں وہ ممکنہ طور پر اس مسودے میں تجویز کردہ حد تک وسیع نہیں ہوں گی۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
اسی دوران، محکمہ خارجہ کے ملازمین نے ریڈٹ کے ایک فورم پر اس حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ مجھے شک ہے کہ یہ مسودہ دراصل ایک چال ہے تاکہ جب اس سے کم سخت اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو ہم خوشی خوشی انہیں قبول کرلیں۔
افریقہ اور کینیڈا کے امور میں تبدیلیاںحکمنامے کے تحت بیورو آف افریقن افیئرز، کلائمٹ کے لیے خصوصی ایلچی، بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز، اور آفس آف گلوبل ویمنز ایشوز سمیت متعدد اہم شعبے ختم کر دیے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق، کینیڈا سے سفارتی تعلقات کی نگرانی ایک محدود ٹیم کرے گی جو ’نارتھ امریکن افیئرز آفس ‘ (NAAO) کے تحت کام کرے گی اور اوٹاوا میں امریکی سفارتخانے کا حجم نمایاں طور پر کم کیا جائے گا۔
مزید برآں، سفارتی عملے کو علاقائی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گا، اور انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی علاقے میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ جو سفارتکار اس نظام کا حصہ نہیں بننا چاہیں گے، ان کے لیے 30 ستمبر تک رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا موقع دیا جائے گا۔ نیا فارن سروس امتحان بھی متعارف کرایا جائے گا جس میں امیدواروں کی صدارتی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی مزید 3 ماہ کے لیے بڑھا دی
اس کے علاوہ، دنیا بھر کے ہونہار طلبہ کے لیے معروف فلبرائٹ اسکالرشپ پروگرام کو محدود کرکے صرف قومی سلامتی سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگراموں تک محدود کر دیا جائے گا، جہاں مینڈرین چینی، روسی، فارسی اور عربی جیسی زبانوں میں مہارت رکھنے والے کورسز کو ترجیح دی جائے گی۔ ہاورڈ یونیورسٹی (واشنگٹن) سے منسلک فیلوشپس بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن (DEI) پالیسیوں کی واپسی کی علامت ہے۔
نئے منصوبے کے تحت ’بیورو آف ہیومینیٹیرین افیئرز‘ ان تمام اہم فرائض کو سنبھالے گا جو ماضی میں یو ایس ایڈ (USAID) ادا کرتا تھا، جسے حالیہ مہینوں میں بند کرکے محکمہ خارجہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام عہدوں اور ذمہ داریوں کے لیے صدرِ امریکا کی تحریری منظوری لازم ہوگی۔
محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ادارے میں قریباً 13 ہزار فارن سروس آفیسرز، 11 ہزار سول سروس ملازمین، اور دنیا بھر میں 270 سے زائد سفارتی مشنز پر 45 ہزار مقامی عملہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی محکمہ خارجہ بلومبرگ نیو یارک ٹائمز