’امریکا فرسٹ‘ بمقابلہ ’سب سے پہلے پاکستان‘
اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کو اپنے قومی مفادات سامنے رکھنے چاہییں، ایسا کرتے ہوئے اسے اپنے ہمسایوں میں سے کسی (جیسے افغانستان میں ملا عمر کی طالبان حکومت )کو اگر قربان کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سابق جہادی تنظیموں کے حوالے سے بھی مشرف حکومت نے یوٹرن لی ، جس پر ان میں خاصی توڑ پھوڑ بھی ہوئی اور بعض سپلنٹر گروپس الگ ہو کر بیت اللہ مسعود کے ساتھ جا ملے، انہوں نے خاصے مسائل بھی پیدا کیے اور ہمارا جانی نقصان بھی خاصا ہوا۔ اگرچہ بعد میں اندازہ ہوا کہ جنرل مشرف حکومت نے ان جہادی تنظیموں کو لوپروفائل میں جانے اور اپنی سرگرمیاں روکنے کا کہا تھا، انہیں کچلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ تاہم شدت پسند اور بے لچک ذہن کو یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں۔
خیر یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ تب جنرل مشرف کی اس ’سب سے پہلے پاکستان‘ کی پالیسی پر بہت تنقید بھی ہوئی، مگر بہرحال یہ ایک منطقی کوشش تھی۔ تب کے معروضی حالات میں شاید اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ممکن ہے کوئی سول لیڈر حکمران ہوتا تو وہ شاید اسے کچھ مزید سلیقے سے کر لیتا اور اس کے لیے عوامی بیانیہ بھی ترتیب دیتا، مگر پرویز مشرف حکومت نے جو سمجھ آیا، وہ کر ڈالا۔ آج وہ سب تاریخ بن چکا ہے، ہمارے لیے اس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا زیادہ آسان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا بنگلہ دیش کی ’تحریک انصاف‘ کامیاب ہو پائے گی؟
پاکستان جیسے کمزور، معاشی طور پر غیر مستحکم اور ہمہ وقت جیو پولیٹیکل سیچوئشن میں گھرے ملک کے لیے اپنے سروائیول کے لیے مسلسل سوچنا اور کوئی نہ کوئی حکمت عملی بنائے رکھنا پڑتی ہے۔ وقت نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ سب انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں رکھنے چاہییں ۔
ہمیں مغرب کے ساتھ بنا کر رکھنا ہے، جبکہ چین کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں۔ ہمیں سعودی عرب اور امارات وغیرہ سے قریبی تعلق استوار کرنا ہے، جبکہ ایران کے خلاف کسی مہم جوئی کا حصہ بھی نہیں بننا۔ اسی طرح کی بعض اور چیزیں بھی ہیں۔
ہمارے حکمرانوں سے ماضی میں بہت سی غلطیاں ہوئیں، مگر ہم نے ان نزاکتوں کو کسی نہ کسی طور نبھائے رکھا۔ سپر پاورز کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے کبھی ڈبل اور ٹرپل گیم تک کھیلنا پڑی۔ ہمارے ہمسائے ہم سے ناخوش رہے تب بھی ہم نے کسی نہ کسی طرح معاملات ان کے ساتھ چلائے۔
ہماری بعض خارجہ پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، مگر ناقدین سے اگر حل پوچھا جائے تو جواب ان کے پاس بھی نہیں۔ ہمارے ہاں لیفٹ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ لیاقت علی خان نے پاکستان کے ابتدائی برسوں میں دورہ سوویت یونین کی دعوت مسترد کر کے امریکا کا دورہ کیا ، یہ غلطی تھی، ہمیں سوویت یونین کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ وقت نے ایسے دانشوروں کو غلط ہی ثابت کیا۔ وہ سوویت یونین آخر غروب ہی ہوگیا اور اس کے قریبی اتحادی خوار ہوئے۔
ویسے تو سوویت یونین کی جانب سے دورہ کی دعوت والی بھی محض کہانی ہی نکلی۔ اس دور میں روس میں متعین پاکستانی سفارت کار ایسے کسی بھی دعوے کی تائید نہیں کرتے۔ آخری تجزیے میں یہ محض ایک من گھڑت تھیوری ہی نکلی جسے ہمارے لیفٹسٹوں نے گھڑا تھا۔
بات تاریخ کی طرف نکل گئی، آج کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ’امریکا فرسٹ‘ کی جو تھیوری دی ہے اور جس جارحانہ انداز میں وہ اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں، اسے دنیا بھر میں بڑی توجہ، تشویش اور غور کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ ہر ملک یہ سوچ رہا ہے کہ کس طرح خود کو ٹرمپ کے غضب سے بچائے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے بڑے یورپی ممالک بھی واضح طور پر پریشان نظر آ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:خرابی کی جڑ آخر کہاں ہے؟
2-3 ہفتے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا پہنچے۔ بھارتی اپنے وزیراعظم کی فہم و فراست اور چوڑی چھاتی کے بڑے گیت گاتے ہیں، انڈین میڈیا اور وہاں کی انٹیلی جنشیا خود کو عظیم بھارت اور نہ جانے کیا کیا کچھ قرار دیتی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے مودی جس طرح سجدہ ریز ہوئے ، گھگھیاتے ہوئے وہ ٹرمپ کی خوشامد بلکہ چاپلوسی کرتے رہے۔ ٹرمپ کے سلوگنز کی گھٹیا سی نقل کر کے اپنے انڈین سلوگنز کے ساتھ مطابقت بنانے کی عامیانہ کوششیں کرتے نظر آئے، وہ خاصا عبرت انگیز نظارہ تھا۔
واضح طور پر مودی کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے اور ان کی سر توڑ کوشش تھی کہ کسی طرح صدر ٹرمپ کی خوشنودی حاصل کی جائے۔ وہ امریکا جانے سے پہلے امریکی مصنوعات پر ٹیرف کو نصف سے بھی کم کر گئے، اب شاید مزید کم کر دیں گے۔ بھارتی فوج امریکی اسلحے اور امریکی جنگی ٹیکنالوجی سے بالکل بے بہرہ ہے، روسی عسکری ٹیکنالوجی کا انہیں پرانا تجربہ اور گہری شناسائی ہے۔ اس کے باوجود مودی صرف امریکا کو خوش کرنے کے لیے امریکی فائٹر طیارے اور دیگر سازوسامان خریدنے کے لیے تیار ہوئے تاکہ باہمی تجارتی خسارہ کم ہوسکے۔ بھارتی نام نہاد غرور اور طنطنہ یوں وائٹ ہاؤس میں امریکی حکام کے پیروں میں رُلتے دیکھنا شاید بہت سوں کے لیے حیران کن رہا ہو۔ یہ مگر سفاک زمینی حقائق اور بے رحم سچائیوں کو ظاہر کر رہا تھا۔
اس پس منظر میں میرے جیسےعام اخبار نویس جن کے پاس ان سائیڈ انفارمیشن تو نہیں، البتہ انٹرنیشنل افیئرز سے دلچسپی اور اسے سمجھنے کی اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ تشویش تھی کہ صدر ٹرمپ جب یوکرائن جنگ کے معاملے کو نمٹا لیں گے تو وہ دیگر ایشوز کی طرف توجہ کریں گے، تب ان کی نظر کرم کہیں پاکستان پر نہ پڑ جائے۔ پاکستان تو اپنی ٹیکسائل ایکسپورٹس پر امریکی ٹیرف کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا، کجا یہ کہ امریکی صدر کے اشارہ ابرو پر کام کرنے والی آئی ایم ایف اپنا پروگرام روک کر قرضہ دینے سے انکار کر دے یا امریکا پاکستان پر پابندیوں کا سوچے۔
ایسے میں صدر ٹرمپ کے کانگریس سے اپنے طویل خطاب میں اچانک پاکستان کا شکریہ ادا کرنے اور تعریف کرنے کا امر ہمارے لیے نہایت خوشگوار حیرت لے آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی حکام اور سیکیورٹی اداروں نے بڑی سرعت کے ساتھ کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کے ماسٹر برین کو پکڑا اور پھر اسے امریکیوں کے حوالے کر کے صدر ٹرمپ کو امریکی عوام کے سامنے ایک اور پوائنٹ اسکور کرنے کا موقع دیا۔ یہ ایک شاندار اسٹروک اور بڑی اسمارٹ موو تھی۔
یہ بھی پڑھیں:احمد جاوید کا متنازع انٹرویو اور اس کا تجزیہ
پاکستان نے بائیڈن انتظامیہ کے نہایت مایوس کن سردمہری والے 4 برسوں کے بعد نومنتخب نئے اور امریکی تاریخ کے شاید طاقتور ترین صدر کے ساتھ ایک اچھا تعلق استوار کرنے کی ابتدا کر دی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔ ویل ڈن ۔
مجھے شدید حیرت ہوئی جب سوشل میڈیا پر بعض حلقے یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ مبینہ داعش کمانڈر شریف اللہ شدت پسند تنظیم کے نچلے درجے کا کارکن ہے اور پاکستان نے امریکیوں کو دھوکا دیا وغیرہ۔ یارو تنقید کی کوئی تُک اور بنیاد تو ہونی چاہیے۔ میرے جیسے تو اس میں بھی خوش ہوں گے کہ کسی نچلے درجے کے دہشتگرد کو ہائی پروفائل بنا کر امریکیوں کو تھما دیا جائے۔ اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ اس کیس میں مگر صورتحال مختلف ہے۔ اطلاعات کے مطابق خود امریکٓی خفیہ ادارے نے شریف اللہ کی خبر دی اور وہ اسے اہم گرفتاری قرار دے رہے ہیں۔ تو جو کام ہمارے دشمنوں کے کرنے کا ہے، وہ کیڑے ہم خود کیوں نکال رہے ہیں ؟
ممکن ہے ہمارے بعض سیاسی حلقوں کوصدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی حکومت کی تعریف سے مایوسی ہوئی ہو۔ جنہیں یہ امید تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستانی حکومت پر زیادہ جمہوری رویہ اپنانے اور سیاسی قیدیوں کے ساتھ منصفانہ ٹرائل سمیت دیگر اقدامات کرنے پر زور دے گی، انہیں ایک فوری دھچکا تو لگا ہے۔ تاہم ہمارے خیال میں ریاست کے مفادات اور ملک کی بہتری کے معاملات سیاسی پسند و ناپسند سے بالاتر ہونے چاہییں۔
آنے والے دنوں میں پاک امریکا تعاون کم از کم ایک حوالے سے مزید بڑھے گا۔ صدر ٹرمپ افغان طالبان حکومت پر امریکی اسلحہ واپس کرنے کے لیے دباؤ بڑھائیں گے، ممکن ہے وہ بگرام بیس حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کریں، ظاہر ہے اسے ماننا طالبان حکومت کے لیے ممکن نہیں۔ افغان حکومت کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور انہیں پاکستان سے کسی قسم کی کوئی سپورٹ نہیں مل سکتی ۔
یہ بھی پڑھیں:کیا صدر ٹرمپ امریکا کو تنہا اور کمزور بنا رہے ہیں؟
افغان طالبان حکومت جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے ساتھ ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہی ہے، اس کے بعد انہیں پاکستان سے کسی قسم کے نرم تاثر کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر امریکا نے افغانستان پر دباؤ بڑھایا تو پاکستان اور امریکا اس بارے میں ایک ہی پیج پر ہوں گے۔ افغان حکومت کی مدد بند ہوگئی تو ان کے لیے مالی مشکلات بڑھیں گی، ہزاروں سرکاری ملازمیں بیروزگار ہو جائیں گے، افغان کرنسی بھی نیچے گرے گی۔ بدقسمتی سے اس سب کچھ کی ذمہ دار افغان حکومت خود ہی ہوگی۔
صاحبو، پاکستان نے پہلے راؤنڈ میں اسمارٹ کھیل کا مظاہرہ کیا ہے، ایک اچھا پوائنٹ اسکور کر لیا۔ کچھ مہلت اور وقت ہمیں میسر آ گیا۔ اس دوران اپنی اکانومی خاص کر ایکسپورٹس پر فوکس کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ صدر ٹرمپ کا اہم ترین اور حتمی ہدف چین ہے۔ جب امریکا چین پر کئی اطراف سے حملہ آور ہوگا تو پاکستان پر بھی شدید دباؤ آئے گا۔ پاکستان چین کے خلاف جانا افورڈ نہیں کر سکتا ، نہ وہ امریکا کی کھلی مخالفت مول لینا چاہے گا۔ وہ وقت جب آئے گا، تب بہت ہی سلیقے اور سمجھداری سے ہینڈلنگ کرنا ہوگی، تاہم اس کے لیے ابھی کچھ وقت حاصل کر لیا گیا ہے۔
’سب سے پہلے پاکستان‘ کی غیر اعلانیہ سوچ اور پالیسی کارگر ثابت ہوئی۔ ’امریکا فرسٹ‘ کی ٹرمپ ڈاکٹرائن کے ساتھ ایک لنک تو بنا لیا گیا ہے۔ بیسٹ آف وشز فار آل۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
امریکا فرسٹ انڈیا پاکستان چین ڈونلڈٹرمپ سب سے پہلے پاکستان سوشل میڈیا مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا فرسٹ انڈیا پاکستان چین ڈونلڈٹرمپ سب سے پہلے پاکستان سوشل میڈیا سب سے پہلے پاکستان طالبان حکومت امریکا فرسٹ رہے ہیں ٹرمپ کے کرنے کا کے ساتھ اور اس کے لیے
پڑھیں:
عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔
روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔
یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔
اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔
اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔
اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔
ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟
دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔