راولپنڈی سازش کیس کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری نہیں اسپیشل ٹریبونل میں ٹرائل ہوا
سپریم کورٹ کے 2015ء کے فیصلے میں ملٹری کورٹس کا راستہ ختم کردیا گیا، دلائل

سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ مارشل لا کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے ۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیس کی سماعت کی، جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری معروضات میں بتایا گیا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے ۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جاچکا ہے۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جاسکتا۔بعد ازاں لاہور بار ایسوسی ایشن اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے ۔ مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔وکیل حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952میں آیا۔ جب آرمی ایکٹ آیا اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا۔ پاکستان میں پہلا آئین 1956میں آیا۔ پہلے آئین میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے۔ آرمی ایکٹ 1952 میں پہلی ترمیم 1967 میں ہوئی۔تاشقند معاہدے کے بعد لاہور میں ایک سیاسی میٹنگ ہوئی۔ سازش پر پہلا مقدمہ 1951میں راولپنڈی سازش پر بنا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔حامد خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ملزمان پر کیس چلانے کے لیے راولپنڈی سازش اسپیشل ٹرائل ایکٹ 1951متعارف کرایا گیا۔ راولپنڈی سازش کا مقصد ملک میں کمیونسٹ نظام نافذ کرنا تھا۔ ملزمان میں جنرل اکبر خان سمیت سویلین افراد شامل تھے ۔ راولپنڈی سازش کا ملٹری ٹرائل نہیں بلکہ اسپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا 1951میں آرمی ایکٹ موجود تھا، جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پاکستان میں 1911کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا اسپیشل ٹریبونل صرف پنڈی سازش ٹرائل کے لیے بنایا گیا، جس پر وکیل حامد خان نے بتایا کہ نکتہ یہ ہے کہ راولپنڈی سازش میں اعلیٰ سویلین و غیرسویلین افراد شامل تھے ۔ راولپنڈی سازش کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری نہیں اسپیشل ٹریبونل میں ٹرائل ہوا۔وکیل نے دلائل میں مزید بتایا کہ ملٹری کورٹ پہلی بار 1953میں تشکیل دی گئی۔ لاہور میں 1953میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو شہر کی حد تک مارشل لگایا گیا۔ ہنگاموں کے ملزمان کے ٹرائل کے لیے ملٹری کورٹس بنیں۔ مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مودودی جیسے لوگوں پر کیسز چلے ۔ اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ بعد میں انہیں معافیاں بھی مل گئی تھیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ان ساری باتوں کا ملٹری ٹرائل کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔ ملک میں کب مارشل لا لگا، اس کا ملٹری کورٹ کیس سے کیا لنک ہے ؟ آئین میں مارشل لا کی کوئی اجازت نہیں۔وکیل حامد خان نے بتایا کہ مارشل لا کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیا جاتا ہے ۔ سپریم کورٹ فیصلے سے مارشل لا کا راستہ بند ہوا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں مارشل لا کا کوئی ذکر نہیں۔ مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ حامد خان آپ دلائل میں مزید کتنا وقت لیں گے ؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں آج اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کے دلائل مکمل کرنے کو سراہا جائے گا۔بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ مارشل لا کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے ۔وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹس کے لیے آئین میں 21 ویں ترمیم کی گئی۔ ملٹری کورٹس کو 2 سال کے لیے بنایا گیا۔ لیاقت حسین کیس میں ملٹری کورٹس کا تصور ختم کردیا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں ملٹری کورٹس فیصلوں پر اعلیٰ عدالتی نظر ثانی کا اختیار دیا گیا۔حامد خان نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں 2 سال کی شرط نہ ہوتی تو ترمیم کالعدم قرار پاتی۔ 21ویں ترمیم میں عبوری ملٹری کورٹس بنائی گئیں۔ 21ویں ترمیم میں جنگی حالات کے الفاظ کا استعمال ہوا۔ سپریم کورٹ کے 2009ء کے فیصلے نے مارشل لا کا راستہ بند کردیا۔ سپریم کورٹ کے 2015ء کے فیصلے میں ملٹری کورٹس کا راستہ ختم کردیا گیا۔ میں ان دونوں کیسز میں مرکزی وکیل تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر ملٹری کورٹس کے لیے آئینی ترمیم آجائے تو آپ کا مؤقف کیا ہوگا؟، جس پر حامد خان نے کہا کہ ہمیں تو 2 سال کے لیے عبوری ملٹری کورٹس تسلیم نہیں تھیں۔ ملٹری کورٹس جوڈیشل باڈی نہیں ہے ۔ ملٹری ٹرائل میں دستیاب بنیادی حقوق واپس لے لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں ملٹری کورٹس کا کوئی تصور نہیں۔سیٹھ وقار نے ملٹری کورٹس سزائیں کالعدم قرار دیں۔جسٹس سیٹھ وقار گریٹ جج تھے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حامد خان آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ ہم خود پڑھ لیں گے ۔ آپ اپنے دلائل کو مکمل کرلیں۔حامد خان نے کہا کہ عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق آرمی ایکٹ میں ترمیم 1967 میں آئی۔ اس وقت غیر معمولی حالات تھے ، مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی تھی۔ 1967کے بعد 1973میں پاکستان میں متفقہ آئین آگیا۔ 1973کا آئین آجانے کے بعد ماضی کی باتیں غیر متعلقہ ہوگئیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ 1973کے آئین میں ماضی کے قوانین کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا ہے ۔ آپ کی باتیں ایک تاریخی حوالے کی حد تک درست ہیں۔ یہاں ہم ایک اپیل سن رہے ہیں جس میں دو شقیں کالعدم کی گئیں۔ بینچ نے وہ شقیں آرٹیکل آٹھ پانچ کی بنیاد پر کالعدم کیں۔جسٹس امین الدین خان نے مزید کہا کہ اپنے دلائل کو اسی تک محدود رکھیں ورنہ ہم کہیں اور نکل جائیں گے ۔ کل آئینی بینچ نہیں ہے ، آپ کو پیر کے دن ساڑھے گیارہ بجے سنیں گے ۔بعد ازاں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

پیکر کردار مثالی لوگ

حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اچھی بات دین اسلام کی گمشدہ میراث ہے ۔کیوں نہ ہو کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ انسانوں کے اخلاق سنوارنے کے لئے ہی تو مبعوث فرمائے گئے تھے ۔پوری انسانیت آج بھی میرے نبی آخرالزمان ﷺ کے جادہ اخلاق پر چل کر ہی دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوسکتی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا ہو۔عمر رفتہ کی ساٹھویں دہائی میں اچانک سے کسی صالح اور پیکر حسن اخلاق دوست کا مل جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک درد مند مسیحا بھی ہو ۔ڈاکٹر محمد بلال ماہر اطفال ہیں، ایک عمر آئرلینڈ بسر کرنے کے بعد پاکستان آئے ہیں یہاں آنا اور یہاں کا ہورہنا بھی جان جوکھوں سے کم نہیں وہ ذہنی اور جسمانی سطح پر ہی نہیں روحانی سطح پر بھی یہاں کے ماحول سے لڑتے بھڑتے مہ وسال بسر کرنے میں لگے ہیں ۔
یہاں کی فضا ان کے مزاج کے لئے ساز گارنہ سہی مگر وہ بہرصورت نبرد آزماہیں اور ہارنے والے نہیں لگتے ۔انہوں نے ہمسایہ ملک کے ایک ریٹائرڈ افسر(جو صدر ڈاکٹر عبدالکلام کے دور میں ان کے سیکرٹری تھے) کے ایک ٹی وی انٹر ویو کے کچھ حصے انگریزی میں مجھے مرحمت فرمائے ہیں جنہیں اپنے حلقہ احباب تک پہنچانا ایک فرض اور قرض گردانتا ہوں ، کہ شائد رلادینے والے اس انٹر ویو کا خلاصہ ہمارے ارباب بست و کشاد میں بھی کوئی ایسا جذبہ بیدار کردے ۔یہ تحریر شائد کچھ لوگوں کے لئے دہرائی ہوئی ہو مگر پھر دہرائی جانے کے قابل ہے کہ ایسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ،جن کے واقعات ہر بار سننے کے لائق ہوتے ہیں ۔ دنیا کے ہر ملک کے سربراہ ملکوں ملکوں دورے کرتے ہیں اور یہ ایک دیرینہ روایت رہی ہے کہ جس ملک بھی جاتے ہیں اس ملک کی طرف سے انہیں بیش قیمت تحائف پیش کئے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالکلام کو بھی بیرونی دوروں پر تحائف دیئے جاتے اور وہ لینے سے انکار نہ کرتے کہ یہ ان کے ملک کے وقارکا تقاضا تھا،مگر وطن واپسی پر وہ ان تحائف کی تصاویر کھنچواتے ،فہرست بنواتے اور انہیں راشٹرپتی بھون کے آرکائیوز میں جمع کروادیتے ۔حتیٰ کہ صدارتی محل چھوڑتے وقت بھی ایک پنسل تک اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔2002 ء میں رمضان المبارک آیا تو روایت کے مطابق افطار پارٹی کی تیاریاں ہونے لگیں ،ڈاکٹر کلام نے اپنے سیکرٹری مسٹر نائرسے کہا ’’ہم ان لوگوں کو کیوں کھلائیں جوپہلے ہی کھاتے ہیں‘‘ معلوم ہوا کہ اس پر 22لاکھ روپے خرچ اٹھے گا،ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ یہ رقم یتیم خانوں میں کھانا ،کپڑے اور کمبل دینے پر لگا دی جائے۔ مزید یہ کہ اپنے ذاتی بچت سے ایک لاکھ روپے کا چیک دیا اور کہا ’’کسی کو نہ بتانا‘‘۔ ڈاکٹر کلام جی حضورکہنے والوں کے سخت خلاف تھے ،ایک بار چیف جسٹس کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب نے رائے دی اور مسٹر نائر سے پوچھا ’’تم متفق ہو ؟‘‘ مسٹر نائر بولے ’’نہیں سر میں متفق نہیں ہوں‘‘ چیف جسٹس ششدر رہ گئے ۔ڈاکٹر کلام بعد میں وجہ پوچھتے اور اگر دلیل میں وزن ہوتا تو99 فیصد اپنی رائے بدل لیتے۔ڈاکٹر کلام نے اپنے پچاس کے قریب رشتہ داروں کو دہلی بلوایا،ایک نجی بس کا انتظام کیا ،جس کا کرایہ خود ادا کیا ۔تمام اخراجات کا حساب ہوا، دو لاکھ روپے اور وہ بھی اپنی جیب سے ادا کئے ،حتی کہ اپنے بڑے بھائی کے ایک ہفتہ تک کمرے میں قیام کا کرایہ بھی دینا چاہا۔مگر عملے نے کہا ’’سریہ تو حد ہوگئی‘‘ جب مسٹر کلام کی مدت صدارت ختم ہوئی ،ہر ملازم نے آکرالوداع کہا۔ مسٹر نائر کی اہلیہ کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی ۔ڈاکٹر کلام نے خبر سنی تو اگلے دن ان کے گھر پہنچے ،ان کی اہلیہ کی مزاج پرسی کی اور کچھ وقت ساتھ گزارا ۔مسٹر نائر کہتے ہیں ’’دنیا کے کسی ملک کا صدر سرکاری ملازم کے گھر یوں نہیں آتا‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کی کل ملکیت 6پتلون ( 2ڈی آر ڈی آو کی یونیفارم )4 قمیص (ڈی آر ڈی کی یونیفارم ) 3سوٹ ،2500کتب 1فلیٹ(عطیہ کردیا) 1پدم شری۔1۔پدم بھوشن ۔1بھارت رتن۔16 ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں۔1۔ویب سائٹ 1۔ٹیوٹراکائونٹ۔1ای میل آئی ڈی۔نہ کوئی گاڑی ،نہ زیور،نہ زمین ،نہ بنک بیلنس۔حتیٰ کہ اپنی آخری 8سال کی پنشن بھی گائوں کی ترقی کے لئے دے دی۔

متعلقہ مضامین

  • سنیتا مارشل کی ماہرہ خان سے مشابہت، ماجراہ کیا؟
  • پوپ فرانسس کے انتقال پر بشپ آزاد مارشل کی تعزیت
  • سابق ائیر وائس مارشل کا کورٹ مارشل، وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب
  • ریلوے ٹریک بحال ہونے کے 9 ماہ بعد سبی سے ہرنائی پہلی ٹرین کی کامیاب آزمائش
  • عدالت کیخلاف پریس کانفرنسز ہوئیں تب عدلیہ کا وقار مجروح نہیں ہوا؟
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • ضروری سیاسی اصلاحات اور حسینہ واجد کے ٹرائل تک انتخابات قبول نہیں، جماعت اسلامی بنگلہ دیش
  • اسلام آباد سمیت تمام ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کا فیصلہ
  • اسلام آباد سمیت تمام ہائی کورٹس میں مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے کا فیصلہ
  • پیکر کردار مثالی لوگ