Express News:
2025-04-22@07:07:24 GMT

خواتین کا اصل مسئلہ مالی خود مختاری

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

پاکستان میں بھی عورتوں کے حقوق کا عالمی دن 8مارچ کو کافی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے کافی تقریبات ہوتی ہیں۔ حکومتیں بھی عورتوں کے حقوق کے لیے اپنی عزم کا اظہار کرتی ہیں۔ سیمینارز اور تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ سول سوسائٹی کی خواتین عورت مارچ کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔

سب تقریبات میں عورت مارچ زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس میں کوئی تعمیری بات ہوتی ہے بلکہ چند متنازعہ بینر عورتوں کی حقوق کی تمام تر توجہ کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ ساری بحث ان بینرز کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ اور پاکستان میں عورتوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، کونسے حقوق ہیں جو انھیں حاصل نہیں ہیں، یہ سب پیچھے رہ جاتا ہے۔ بلا شبہ عورتوں کے حقوق کے عالمی دن کو عورت مارچ کے چند بینرز نے کافی سالوں سے ہائی جیک کر لیاہوا ہے۔

میں ان بینرز کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن میں ان بینرز میں لکھی گئی باتوں کو عورتوں کے اصل مسائل نہیں سمجھتا۔ فرض کرلیں میں میرا جسم میری مرضی کو پاکستان میں عورتوں کے مسائل کی بنیادی وجہ نہیں سمجھتا۔ یہ مسئلہ ہے۔ لیکن بنیادی مسئلہ نہیں۔ ساری گفتگو اس کے گرد نہیں ہونی چاہیے۔

میری رائے میں پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑ امسئلہ عورتوں کی مالی خود مختاری ہے۔ ہم آج بھی اپنے گھر کی خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے لیے تیار نہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق آج بھی بالغ خواتین کی نصف سے زیادہ آبادی کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہے۔ یہ اعدادو شمار خواتین کی مالی خود مختاری کی صورتحال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اسی طرح وراثت میں حق لینا آج بھی مسئلہ ہے۔ خواتین آج بھی جب وراثت میں حق مانگتی ہیں تو انھیں لالچی اور خاندان سے نکالنے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اسی لیے بہت کم شرح ایسی خو اتین کی ہے جو کسی بھی قسم کی پراپرٹی کی ملکیت رکھتی ہیں۔ اس لیے سرکار کو خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے اقدامات میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ایسے اقدامات کرنے ہونگے جو خواتین کی طاقت میں اضافہ کریں۔ ابھی بینک خواتین کو قرضہ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ بینکوں کا سلوک بھی کوئی مساوی نہیں ہے۔ لیکن کبھی ایسے مسائل پر گفتگو نہیں ہوتی۔

خواتین کی مالی خودمختاری میں مجھے سندھ حکومت کا سیلاب زدگان کے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ بہت پسند ہے۔ سندھ پیپلزہاؤسنگ برائے سیلاب متاثرین ایسا منصوبہ ہے جہاں خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے لیے کافی کام کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شہروں میں پھر بھی خواتین کو حقوق حاصل ہیں۔ خواتین کی مالی خود مختاری کا اصل مسئلہ دیہی ہے۔ دیہات میں خواتین کا مالی استحصال زیادہ ہے۔

وہاں خواتین کو مالی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ سندھ پیپلزہاؤسنگ برائے سیلاب زدگان ان سیلاب متاثرین کا منصوبہ ہے جن کے گھر 2022 کے سیلاب میں بہہ گئے تھے۔ سندھ میں ایسے متاثرین کی تعداد 15ملین ہے۔ جب کہ دو ملین گھر 2022کے سیلاب میں بہہ گئے تھے اور لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ سندھ حکومت نے عالمی فنڈنگ کی مدد سے ان دو ملین گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جو اپنی جگہ دنیا بھر میں گھر بنانے کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

اس منصوبہ کے تحت اب تک ساڑھے تین لاکھ گھر بن چکے ہیں۔ شاید ہمیں احساس نہیں لیکن سندھ کے دیہات میں ساڑھے تین لاکھ گھر تعمیر ہو چکے ہیں۔ جب کہ نو لاکھ گھر زیر تعمیر ہیں۔ ان گھروں کی تعمیر کے لیے قرض نہیں گرانٹ دی جا رہی ہے جو کسی نے بھی واپس نہیں کرنی ہے۔ کوئی ٹھیکیدار نہیں۔ لوگ اپنے گھر خود بنا رہے ہیں۔ ایک ہی نقشہ کے سب گھر تعمیر ہو رہے ہیں۔ اس منصوبہ کی شفافیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اور اب عالمی سطح پر اس کو گھر بنانے کا سب سے بڑا منصوبہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔

لیکن اس منصوبہ کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کی شمولیت سب سے زیادہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت آٹھ لاکھ خواتین کو نہ صرف زمین کے ملکیتی حقوق ملے ہیں بلکہ ان کو اس منصوبے کے تحت گھر بنانے کے لیے پیسے بھی دیے گئے ہیں۔ وہ اپنے گھروں کی مالک بن گئی ہیں۔ میں ان میں سے کئی خواتین کو اندرون سندھ ملا ہوں۔ اس منصوبہ کے سربراہ خالد شیخ کے ساتھ میں نے اندرون سندھ کئی اضلاع کا دورہ کیا ہے۔

میں نے گھر بنے دیکھے ہیں۔ میں ان خواتین سے ملا ہوں۔ یہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ اول تو کبھی ان کا پکا گھر ہوگا۔ یہ ساری عمر کچے گھروں میں رہی ہیں۔ پکا گھر ان کا خواب تھا۔ دوسرا ان خواتین نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے گھر کی خود مالک ہونگی۔ ان خواتین نے کبھی بینک اکاؤنٹ کھولنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اب ان کے بینک اکاؤنٹ بھی ہیں۔ کیونکہ رقم خواتین کے بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جاتی ہے۔

اس منصوبہ کے تحت گاؤں گاؤں ویلج کونسل بنائی گئی ہیں۔ جس میں بھی خواتین کی نمائندگی لازمی ہے۔ خواتین کی نمائندگی کے بغیر ویلج کونسل بن نہیں سکتی۔ یہ کونسل گھر بنانے کے عمل کی نگرانی کرتی ہے اور اس کی سفارشات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ مجھے اس منصوبہ سے لگا کہ خواتین کو نہ صرف مالی خود مختاری دی گئی ہے بلکہ ان کو فیصلہ سازی میں بھی کردار دیا گیا ہے۔ وہ مردوں کے شانہ بشانہ سندھ میں سیلاب زدگان کے گھروں کی تعمیر کے لیے کردار ادا کر رہی ہیں۔ میں نے کئی دیہات کی کونسل سے ملاقات کی ہے۔ ان سب کی خواتین ممبران بہت فعال ہیں۔ اور اپنے اپنے دیہات کی تعمیر میں کردار ادا کر رہی ہیں۔

میں سمجھتا ہوں سندھ پیپلز ہاؤسنگ برائے سیلاب زدگان کا ماڈل خواتین کو مالی خود مختاری اور معاشرہ میں فعال کردار دینے کے لیے ایک بہترین ماڈل ہے۔ حکومتوں کو اس کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں خواتین کو مالی خود مختاری دینے کے لیے منصوبے بنانے چاہیے۔ ہم جس قدر خواتین کو مالی خود مختاری دیں گے باقی حقوق وہ اپنی مالی خود مختاری سے خود ہی حاصل کرلیں گی۔

باقی مسائل کے حل ہونے کا راستہ بھی اسی سے نکلے گا۔ گھروں میں قید کر کے، مالی وسائل سے دور رکھ کر ہم خواتین کو کوئی حقوق نہیں دے سکتے۔ وہ پھر محکوم ہی رہیں گی کیونکہ سب سے بڑی محکومیت مالی ہے۔ اس کو ختم کریں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جب خاتون مالی طور پر خود مختار ہو گی تو وہ اپنی ز ندگی کی خود مالک بن جائیں گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عورتوں کے حقوق اس منصوبہ کے سیلاب زدگان پاکستان میں کی مالی خود دینے کے لیے گھر بنانے خواتین کی کی تعمیر گھروں کی اپنے گھر میں بھی ا ج بھی نے گھر گھر بن کے تحت

پڑھیں:

 رانا ثنااللہ کا  شرجیل میمن سے دوبارہ رابطہ، آبی تنازعپر مشاورت کو آگے بڑھانے پر اتفاق

اسلام آباد:  وزیراعظم کے مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ رانا ثنااللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ایک بار پھر ٹیلیفونک رابطہ کیا اور دونوں رہنماؤں نے پانی کے مسئلے پر مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران نہروں کے مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے معاملات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں، واٹر ایکارڈ کے مطابق کسی صوبے کا پانی کسی دوسرے صوبے کو منتقل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانی کی تقسیم انتظامی اور تکنیکی مسئلہ ہے جس کا حل بھی انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر کیا جائے گا، کسی صوبے کی حق تلفی ممکن نہیں، صوبوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے اور مشاورت کے عمل کو مزید وسعت دی جائے گی۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • نہروں کا مسئلہ رانا ثناکا شرجیل پھر رابطہ ‘ اسحاق دار کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ 
  • پانی معاملہ صرف سندھ نہیں پنجاب کا بھی مسئلہ ہے، نیئر بخاری
  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • ’خواتین کو رات 10 بجے کے بعد کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘
  •  رانا ثنااللہ کا  شرجیل میمن سے دوبارہ رابطہ، آبی تنازعپر مشاورت کو آگے بڑھانے پر اتفاق
  • یو این او کو جانوروں کے حقوق کا خیال ہے، غزہ کے مظلوموں کا کیوں نہیں،سراج الحق
  • علامہ اقبال نے مردہ قوم کو شعور دیا: احسن اقبال
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • متنازع کینالز منصوبہ: نواز شریف اور شہباز شریف کی پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت
  • 19 اپریل صوبائی خود مختاری اور جمہوری بالا دستی کا دن ہے: ایمل ولی