Islam Times:
2025-04-22@14:28:36 GMT

خطاب بہ اراکین کانگریس

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

خطاب بہ اراکین کانگریس

اسلام ٹائمز: امریکی صدر نے اپنی تقریر میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ”ایک دہشتگرد“ جو امریکی فوجیوں پر ایک ایسے حملے کا اصل ذمے دار تھا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس شخص کو پکڑنے میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا جسے اب امریکہ لایا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے لیے عمران خان کی نسبت پاکستان کی موجودہ حکومت زیادہ اہم ہے جو ” حاضر سروس“ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مشرق وسطیٰ کو ”پرتشدد پڑوس“ اور روس یوکرین جنگ کو ”سفاکانہ تنازعہ“ کہا اور کہا کہ وہ اس کے خاتمے کے لیے ”انتھک محنت“ کر رہے ہیں۔ تحریر: سید تنویر حیدر

وہائٹ ہاؤس میں اپنے 43 دن گزارنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کے پہلے مشترکہ اجلاس میں حسب معمول اپنا طویل خطاب کیا۔ تالیوں کی گونج میں انہوں نے اعلان کیا کہ”امریکہ واپس آگیا ہے“ گویا امریکہ کو اس سے پہلے چار سال کے لیے کسی نے اغوا کر لیا تھا اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کی کوشششوں سے وہ اپنے گھر واپس آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھے ہفتے قبل ”کیپیٹل ہل“ کے گنبد کے نیچے  کھڑے ہو کر انہوں نے یہ کہ دیا تھا کہ ”امریکہ کے سنہری دور کی صبح کا آغاز ہوگیا ہے“۔  اگرچہ اس نئی صبح کو اگر کوئی یوکرین کے صدر زیلنسکی کی آنکھ سے دیکھے تو اس کی نوک زباں پر فیض احمد فیض کا یہ شعر بے ساختہ آ جائے گا کہ:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اپنی کامیابیوں کی تاریخ دہراتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اپنی صدارت کے حوالے سے کہا کہ ”ہماری صدارت قومی تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب صدارت ہے“ اور جارج واشنگٹن کی صدارت کو انہوں نے دوسرے نمبر کی صدارت قرار دیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارا کوئی سیاسی لیڈر یہ کہے کہ قائداعظم کے بعد وہ قائداعظم ثانی ہے۔ اپنی زبان سے میاں مٹھو بننے کے لیے کسی خاص قسم کی مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دیکھ قدرت کے کارخانے میں
مجھ سا کوئی نہیں زمانے میں
ایک جانب جہاں انہوں نے اپنی صدارت کو امریکہ کے افق پر ابھرتی ہوئی نئی صبح سے تعبیر کیا وہاں انہوں نے امریکہ کے جنوبی سرحدی افق پر ”قومی ایمرجنسی“ کا اعلان بھی کردیا اور انکشاف کیا کہ ”ہم نے اپنی اس سرحد پر امریکی فوج اور سرحدی گشتی دستوں کو تعینات کر دیا ہے جو ہمارے ملک پر کسی بھی حملے کو پسپا کریں گے“۔ انہوں نے جوبائیڈن کو امریکی تاریخ کا بدترین صدر کہا اور ان پر الزام لگایا کہ ان کے دور حکومت میں ہر ماہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ غیرقانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوتے تھے۔ انہوں نے حاضرین کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ”خلیج میکسیکو“ کے نام کو ”خلیج آف امریکہ“ کے نام سے بدلنے کے آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں۔

اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے مخصوص انداز میں طنز کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”میں آج کی شب اپنے سامنے ڈیموکریٹک قانون سازوں کو دیکھ رہا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ میں آج ایسا کچھ نہیں کہ سکتا جس کو سن کر وہ خوش ہو جائیں، اپنے بنچوں سے کھڑے ہو جائیں اور تالیاں بجائیں“۔ ٹرمپ جو اپنی انتخابی جیت پر شادیانے بجا رہے تھے اور اسے اپنی ایک عظیم فتح قرار دے رہے تھے، ان کی تقریر کے درمیان ٹیکساس کے ڈیموکریٹک نمائندے ایل گرین نے یہ کہ کر واک آوٹ کر دیا کہ ”آپ کے پاس مسائل کا کوئی علاج نہیں ہے“۔ ٹرمپ نے جہاں جو بائیڈن پر کئی الزامات لگائے وہاں ان پر یہ الزام بھی لگایا کہ انہوں نے انڈوں کی قیمتوں کو کنٹرول سے باہر جانے دیا اور وہ انہیں دوبارہ کنٹرول میں لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

گویا ایک کاروبای ذہن رکھنے والے ٹرمپ کے نذدیک انڈوں کی تجارت ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ عمران خان نے قوم کو جو مرغیاں پالنے کا مشورہ دیا تھا اسے غیرسنجیدگی سے لینا یقیناً بین الاقوامی مارکیٹ سے لاعلمی کا مظہر ہے۔ ٹرمپ کی تقریر کے دوران متعدد امریکی ایوان نمائندگان واک آوٹ کر گئے۔ ان میں سے اکثر ”خواتین اور خاندانوں پر ٹرمپ انتظامیہ کے منفی اثرات“ پر احتجاجاً گلابی رنگ کے لباس پہنے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی معتضرین اپنے اپنے انداز میں احتجاج کر رہے تھے۔ امریکی صدر نے کانگریس سے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ امریکہ کے دفاع کے لیے ”گولڈن ڈوم میزائل دفاعی سسٹم“ کے لیے فنڈ منظور کرے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ ”گرین لینڈ“ کو جس طرح چاہیں حاصل کریں گے۔ ان کے کہنے کے مطابق ان کی حکومت ”پاناما کینال“ پر دوبارہ دعویٰ کرے گی۔

امریکی صدر نے اپنی تقریر میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ”ایک دہشتگرد“ جو امریکی فوجیوں پر ایک ایسے حملے کا اصل ذمے دار تھا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس شخص کو پکڑنے میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا جسے اب امریکہ لایا گیا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے لیے عمران خان کی نسبت پاکستان کی موجودہ حکومت زیادہ اہم ہے جو ” حاضر سروس“ ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مشرق وسطیٰ کو ”پرتشدد پڑوس“ اور روس یوکرین جنگ کو ”سفاکانہ تنازعہ“ کہا اور کہا کہ وہ اس کے خاتمے کے لیے ”انتھک محنت“ کر رہے ہیں۔

انہوں نے مغربی ایشیا کے خطے میں ”ابراھیمی معاہدے“ کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ صیہونی حکومت اور بعض حکومتوں کے مابین تعلقات کی استواری کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق وہ صیہونی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ سب باتوں کے باوجود حیران کن طور پر انہوں نے اپنے اس لمبے خطاب میں مریخ پر امریکی پرچم لہرانے کا ذکر تو کیا لیکن ایران کا ذکر گول کر گئے۔ حالانکہ ایران کا ذکر گزشتہ کئی صدور کا پسندیدہ ٹاپک رہا ہے۔ بہرحال ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خطاب کو سامنے رکھ کر ان کے آئندہ کے کسی اقدام کے بارے میں درست پیشینگوئی اس لیے ناممکن ہے کیونکہ ٹرمپ کسی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی فوجیوں ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں اور کہا کہ امریکہ کے کہا کہ وہ انہوں نے دیا اور نے اپنے نے اپنی کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت

اسلام ٹائمز: امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تحریر: حمید محمد طاہری
 
عالمی سطح پر سالہا سال تسلط پسندی کے بعد آج یمن امریکہ کے لیے ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں امریکی افواج شدید قسم کے اسٹریٹجک چیلنجز سے روبرو ہیں۔ اب تک امریکی فوج یمن کے خلاف معرکے میں نہ صرف مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ امریکہ کی فوجی طاقت اور حیثیت بھی خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں جب سابق سوویت یونین میں گورباچوف نے اصلاحات کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا تو دنیا میں امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر متعارف ہونے لگا۔ یہ سرد جنگ کا خاتمہ تھا اور دنیا پر یونی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہو چکا تھا۔ یہاں سے "امریکن پیس" کا زمانہ شروع ہوتا ہے جس میں امریکہ نے دنیا بھر میں یکہ تازیاں شروع کر دیں۔
 
عالمی سطح پر امریکی طاقت کی دھاک جمانے میں ہالی وڈ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسی ہی ایک فلم جو امریکہ کی شان و شوکت کی تصویر پیش کرتی تھی 1986ء میں بننے والی "ٹاپ گن" تھی جس میں ٹام کروز نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ اس فلم میں ایک بہادر امریکی پائلٹ کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس فلم نے امریکی جوانوں کو متاثر کیا اور وہ دھڑا دھڑ ایئرفورس میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ اس فلم کے چار سال بعد عراق میں "ڈیزرٹ اسٹارم" نامی بڑا فوجی آپریشن انجام پایا جو درحقیقت امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کا بڑا مظاہرہ تھا۔ لیکن گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی طاقت اور شان و شوکت کے سامنے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے جن کے تناظر میں ہالی وڈ نے 2022ء میں ٹاپ گن 2 فلم بنائی۔
 
اس میں بھی ٹام کروز نے ہیرو کا کردار ادا کیا اور یوں امریکہ کو دشمنوں کے مقابلے میں برتر طاقت کے طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیس امریکانا کا زمانہ گزر چکا ہے اور اب امریکہ مزید عالمی سطح پر وہ سپرپاور نہیں جس کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کی جا سکتی ہو۔ ٹاپ گن 2 میں کہانی ایک ایسے ایٹمی مرکز کے گرد گھومتی ہے جو ایک پہاڑی علاقے میں موجود ہے اور علاقے کے خدوخال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطی خطے میں واقع ہے۔ اس مرکز کا پیچیدہ محل وقوع اور فلم میں موجود روسی جنگی طیاروں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کو حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ایسا ہی خطرہ جو ان دنوں یمن کی جانب سے ہے جہاں انصاراللہ یمن نے پہاڑوں کے اندر پیچیدہ تنصیبات تعمیر کر رکھی ہیں۔
 
امریکہ کو درپیش جدید ترین فوجی چیلنجز کے میدان میں یمن کی جنگ ایک بحرانی صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ اپنے کوہستانی علاقوں اور مخصوص جغرافیائی حالات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ فورسز کے مقابلے میں شدید مزاحمت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ انصاراللہ تحریک کے پاس زیر زمین پناہ گاہیں ہیں اور وہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہے جس کی وجہ سے وہ امریکہ کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ اگرچہ امریکہ کو توقع تھی کہ وہ اپنے اسٹریٹجک بی 52 بمبار طیاروں کے ذریعے، جو حتی جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، انصاراللہ یمن کے ٹھکانوں اور میزائلوں کے ذخائر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اب تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ متعدد رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔
 
اسلحہ کے ذخائر میں قلت کے باعث ممکن ہے امریکہ کی مسلح افواج کی توجہ دیگر اہداف سے ہٹ جائے۔ ان رپورٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ اب تک انصاراللہ کے زیر زمین ٹھکانوں کو تباہ کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے اسلحہ کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ یمن میں ایسی پہاڑی دلدل کا شکار ہو گیا ہے جو اس کی توجہ اصل اہداف سے ہٹا سکتی ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی حکام پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یمن کی جنگ جاری رہتی ہے تو ممکن ہے امریکہ کو اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کرنی پڑ جائے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت اور عزت کو ٹھیس پہنچے گی۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یمن کے پہاڑ امریکہ کے فوجی ذخائر ختم ہو جانے کا باعث بنے ہیں؟
 
امریکہ کے فوجی ذخائر کم ہونے کے باعث اس کی عالمی سپرپاور کے طور پر حیثیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اکثر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ یمن میں جنگ کی پیچیدگیوں اور انصاراللہ تحریک کی شدید مزاحمت کے پیش نظر ممکن ہے امریکہ مستقبل قریب میں یمن کے مقابلے میں مزید شکست اور ناکامیوں کا شکار ہو جائے۔ یہ امر عالمی سطح پر درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی صلاحیتوں اور توانائیوں کے بارے میں سنجیدہ قسم کے سوالات جنم دے سکتا ہے۔ یمن اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں بہترین منظرنامہ یہ ہے کہ یمن کے پہاڑ نہ صرف امریکی بم بلکہ امریکہ کی فوجی شہرت اور شان و شوکت بھی اپنے اندر دفن کر دیں۔ ایسے میں ہالی وڈ کی فلمیں شاید پروپیگنڈے کے میدان میں موثر واقع ہوں لیکن حقیقی امتحان یمن کے پہاڑوں میں جاری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  • سپریم کورٹ پر حملے بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش ہے، کانگریس
  • وقف قانون کے خلاف لڑائی میں جیت ہماری ہوگی، ملکارجن کھرگے
  • حکمران امریکا اور اسرائیل سے ڈرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان کا غزہ مارچ سے خطاب
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  • یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت