Islam Times:
2025-04-22@07:27:46 GMT

کیا یورپ امریکہ سے طلاق کیلئے تیار ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

کیا یورپ امریکہ سے طلاق کیلئے تیار ہے؟

اسلام ٹائمز: نیٹو کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر روس نے کسی نیٹو کے رکن یورپی ملک پر حملہ کیا تو امریکہ کو فوری طور پر یورپ میں تعینات اپنی 1 لاکھ فوج بڑھا کر 3 لاکھ کرنا پڑے گی۔ لہذا امریکہ سے خودمختار ہونے کی صورت میں یورپ کو روس کے ممکنہ فوجی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم 3 لاکھ امریکی فوجیوں جنتی فوج درکار ہو گی جس کے لیے یورپ کو 50 نئے بریگیڈ تشکیل دینے پڑیں گے۔ دوسری طرف یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی کمان کا فقدان بھی پایا جاتا ہے جس کے باعث دفاعی امور مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپ کو 1400 ٹینک، 2000 فوجی گاڑیاں اور 700 توپیں درکار ہوں گی۔ اس مقدار کے حصول کے لیے یورپ کو اپنی فوجی پیداوار میں شدید اضافہ کرنا پڑے گا۔ تحریر: حسین مہدی تبار
 
"کیا ہمارے بغیر روس کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟"۔ یہ سوال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم سے پوچھا۔ اگرچہ ٹرمپ کے اس سوال کا مقصد صرف یورپی رہنماوں کی تحقیر تھی لیکن اس مسئلے نے کافی عرصے سے یورپی حکمرانوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں یورپ امریکہ کی فوجی مدد کے بغیر اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ اگر امریکہ یوکرین کی مدد نہ کرتا تو جنگ دو ہفتوں کے اندر اندر روس کی فتح کے ساتھ ختم ہو جاتی۔ دوسری طرف بعض یورپی رہنما مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمونوئیل میکرون یورپ کے لیے علیحدہ سے فوجی اتحاد کی تشکیل پر زور دیتے ہیں جبکہ جرمنی کے آئندہ ممکنہ صدر فریدرش مرتس بھی سیکورٹی شعبے میں امریکہ سے علیحدگی کا تصور پیش کرتے ہیں۔
 
معروف سیاسی ماہر اسٹیفن والٹ اس بارے میں کہتے ہیں کہ جغرافیائی لحاظ سے کسی خطرے کو زیادہ قریب سمجھنا امریکہ اور یورپ کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے۔ یورپی حکمران روس کو اپنے لیے اصل خطرہ تصور کر رہے ہیں جبکہ امریکہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی اس بات پر اتفاق رائے رکھتی ہیں کہ مستقبل قریب میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ چین ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے اپنی تمام تر طاقت اور وسائل چین کے خلاف جمع کرنا شروع کر دیے ہیں اور عین ممکن ہے روس کے مقابلے میں یورپ کو اکیلا چھوڑ دے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یورپی حکمران اس بات سے شدید پریشان ہیں کہ یوکرین جنگ میں روس کی کامیابی کی صورت میں پیوتن کی جرات بڑھ جائے گی اور وہ یورپ کے خلاف مزید اقدامات انجام دے سکتے ہیں۔
 
لہذا یورپی حکمران اپنے دفاع میں خودمختار ہونے پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ان کے لیے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ یورپ کو اپنے پاوں پر کھڑا ہونا چاہیے اور ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ امریکہ کی مدد ہمیشہ جاری رہے گی۔ لیکن براعظم یورپ جس نے گذشتہ 75 برس سے اپنے دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار کیا ہے اس کے لیے اب دفاعی شعبے میں خودمختار ہونا آسان کام نہیں ہے۔ یورپ اس مسئلے میں کئی چیلنجز سے روبرو ہے۔ یورپی پالیسیوں کا تجزیہ و تحلیل کرنے والا تحقیقاتی ادارہ CEPA اس بارے میں اپنی رپورٹ میں کہتا ہے کہ امریکہ سے خودمختار ہونے میں یورپ کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے: اسٹریٹجک صلاحیتیں، آپریشنل توانائیاں اور فوجی طاقت۔
 
اس تحقیقاتی ادارے کی نظر میں یورپ کی سب سے بڑی دفاعی کمزوری "اسٹریٹجک توانائیوں" میں مضمر ہے۔ یعنی اس کی صلاحیتیں، فوجی ذخائر اور وسائل اس حد تک نہیں ہیں جو فوجی آپریشن کو اثربخش اور نتیجہ خیز ثابت کر سکیں۔ امریکہ کے پاس بہت سی فوجی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جن میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کے اسٹریٹجک سسٹمز، انٹیلی جنس وسائیل اور نظارت اور جاسوسی کے آلات ہیں اور اگر امریکہ ان شعبوں میں یورپ کی مدد چھوڑ دیتا ہے تو یورپ شدید مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ یورپ کو درپیش دوسرا بڑا مسئلہ اپنی جنگ میں فوجی آپریشنز انجام دینے کی صلاحیت ہے۔ نیٹو میں فضائی، بری اور مشترکہ کمانڈ امریکی افسروں کے پاس ہے جس کے باعث یوں دکھائی دیتا ہے کہ یورپی کمانڈرز امریکی افسروں کے بغیر فوجی اقدامات انجام دینے سے قاصر ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ گذشتہ 75 برس میں صرف امریکہ نے ہی نیٹو کے ذریعے حقیقی جنگیں لڑی ہیں۔
 
اس بارے میں تھنک ٹینک "بروگل" (Bruegel) اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: "یورپ کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ امریکہ بغیر روس کے مقابلے میں اپنا دفاع کر سکے"۔ روسی فوج اس وقت 2022ء کی نسبت بہت بڑی، تجربہ کار اور فوجی وسائل سے لیس ہو چکی ہے جب اس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ روس آرمی اور اس کے سربراہان اب بہت سی جنگوں سے تجربات حاصل کر چکے ہیں۔ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس کی فوجی مصنوعات میں 2022ء کی نسبت 220 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورپ کو اپنی فوجی مصنوعات کی پیداوار اس حد تک بڑھانے کے لیے سالانہ طور پر 250 ارب یورو بڑھانے کا بجٹ درکار ہے۔ اس مقدار میں بجٹ میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ یورپ کا فوجی بجٹ اس کی جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بڑھ کر 3.

5 فیصد ہو جائے گا۔
 
نیٹو کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر روس نے کسی نیٹو کے رکن یورپی ملک پر حملہ کیا تو امریکہ کو فوری طور پر یورپ میں تعینات اپنی 1 لاکھ فوج بڑھا کر 3 لاکھ کرنا پڑے گی۔ لہذا امریکہ سے خودمختار ہونے کی صورت میں یورپ کو روس کے ممکنہ فوجی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم 3 لاکھ امریکی فوجیوں جنتی فوج درکار ہو گی جس کے لیے یورپ کو 50 نئے بریگیڈ تشکیل دینے پڑیں گے۔ دوسری طرف یورپی ممالک کے درمیان مشترکہ فوجی کمان کا فقدان بھی پایا جاتا ہے جس کے باعث دفاعی امور مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپ کو 1400 ٹینک، 2000 فوجی گاڑیاں اور 700 توپیں درکار ہوں گی۔ اس مقدار کے حصول کے لیے یورپ کو اپنی فوجی پیداوار میں شدید اضافہ کرنا پڑے گا۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کا مقابلہ کرنے کے لیے خودمختار ہونے کے لیے یورپ کو کا مقابلہ کر میں یورپ کو امریکہ سے درکار ہو کرنا پڑے کی فوجی کہ یورپ روس کے

پڑھیں:

عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بین الاقوامی مداخلت کوئی نئی بات نہیں۔ جب بھی ملک میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہوتی ہے، عالمی طاقتیں خصوصاً امریکی حکومت اپنی خارجہ پالیسی کے تحت مداخلت کرتی نظر آتی ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد کے سیاسی حالات نے عالمی سطح پر خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا عمران خان کی رہائی کے لیے امریکہ کسی قسم کا دبائو ڈال رہا ہے؟ اگر ہاں، تو اس دبائو کی نوعیت، وجوہات اور ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
امریکہ کا جنوبی ایشیا میں ایک اہم اسٹرٹیجک کردار ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر ریاست ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے حوالے سے بھی اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ سی پیک روٹ نے اس اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے، عمران خان کی بطور وزیراعظم خارجہ پالیسی نسبتاًخود مختار اور مغرب سے کچھ فاصلہ رکھنے کی حامل رہی، جس میں چین، روس اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک فوقیت دینے کی کوشش کی گئی۔ ان پالیسیوں نے واشنگٹن میں کچھ حلقوں کو پریشان ضرور کیا، مگر عمران خان کی مقبولیت اور عوامی حمایت نے انہیں نظر انداز کرنا مشکل بنا دیا۔
امریکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کو اکثر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں متنازع قرار دیتی رہی ہیں۔ اس تناظر میں امریکی حکام نے کچھ مواقع پر پاکستان کی حکومت سے انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا، جسے عمران خان کے حامی ان کی ’’رہائی کے لیے دبائو‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس حوالے سے تاحال یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
حال ہی میں امریکی کانگریس کے رکن جیک برگ مین کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے کانگریسی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، جسے مبصرین نے عمران خان کے کیس اور انسانی حقوق کی صورتحال کے تناظر میں خاصی اہمیت دی۔ اس وفد نے حکومتی و عسکری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں سیاسی استحکام، عدالتی شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام پر زور دیا۔ اگرچہ ان ملاقاتوں کی تفصیلات مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، لیکن بعض ذرائع یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی طویل قید اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی غیر رسمی طور پر گفتگو کی گئی۔ اس دورے کو عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی دبا ئو کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ میں کئی قانون ساز اور ٹرمپ ٹیم کے کچھ لوگ اپنے ٹویٹس اور بیانات میں عمران خان کی حراست کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دے چکے ہیں۔
کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکہ پسِ پردہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ ایسے رابطے رکھتا ہے جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر کی جیل میں موجودگی پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو غیر متوازن کر دے، جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو۔ امریکہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی ’’نرم مداخلت‘‘ کی پالیسی اپنا سکتا ہے۔
اگر واقعی امریکہ عمران خان کی رہائی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے تو اس کے دو بڑے اثرات ہوسکتے ہیں۔
-1سیاسی ریلیف: عمران خان کو کسی عدالتی یا سیاسی ڈیل کے ذریعے ریلیف مل سکتا ہے، جس سے وہ ایک بار پھر سیاسی میدان میں فعال ہو جائیں گے۔
-2 عوامی تاثر: امریکی دبائو سے رہائی کی صورت میں عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ ’’ بین الاقوامی حمایت رکھنے والے قومی لیڈر‘‘کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔
عمران خان کی رہائی کے لیے امریکی دبائو ایک حقیقت بھی ہو سکتا ہے اور محض سیاسی بیانیہ بھی۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی شخصیت اور مقبولیت نے پاکستان کی سیاست کو عالمی سطح پر ایک نئے تناظر میں پیش کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر عمران خان کو رہائی ملتی ہے، تو یہ جانچنا ضروری ہوگا کہ اس میں بین الاقوامی سفارت کاری کا کتنا عمل دخل تھا۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو خود عمران خان اور ان کی سیاست کیلئے مہلک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کپتان کی سیاست کی بنیاد ان کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بین الاقوامی مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، اس حوالے سے ایک جلسہ عام میں مبینہ سائفر لہرانا ایک بڑا واقعہ تھا، لیکن اگر اب وہ خود امریکی دبا ئوکے ذریعے جیل سے رہائی پاتے ہیں یا اقتدار میں واپس آتے ہیں تو یہ عمل خود ان کے اپنے بیانیہ کی نفی ہوگا۔
دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ جیک برگ مین کی قیادت میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی وفد نے عمران خان کی رہائی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی، حکومت اسے دوٹوک انداز میں پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے رہی ہے، لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب ایسے دو اندرونی معاملات میں پہلے بھی مداخلت کرچکے ہیں، میاں نواز شریف کے حوالے سے سعودی عرب نے دوبار مداخلت کی اور دونوں بار انہیں جیل سے رہائی پاکر بیرون ملک جانے کی سہولت مہیا کی گئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کیلئے اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے ساتھ ان کی ڈیل کروانے میں بھی امریکہ کا کردار نمایاں رہا، اس لئے یہ کہنا بے جا نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی وقت کوئی بھی معاملہ طے پا سکتا ہے اور اس میں گارنٹر کا کردار کون ادا کرتا ہے یہ تو وقت آنے پر ہی پتہ چلے گا، تاہم اس حوالے سے 3ممالک امریکہ ، سعودی عرب اور چین کا نام لیا جا رہا ہے۔ واللہ اعلم باالصواب

متعلقہ مضامین

  • مزید آئینی ترمیم کی ضرورت نہ فوجی تنصیبات کو آگ لگانے پر ہارپہنائیں گے : اعظم تارڑ
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب
  • تہران یورینیم افزودگی پر کچھ پابندیاں قبول کرنے کو تیار
  • مسلم حکمران امریکا و یورپ کے طلباء سے سبق سیکھ لیں، حافظ نعیم
  • مغربی سامراجی قوتوں نے تاریخ کو کیسے مسخ کیا؟
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • یمن میں امریکہ کی برباد ہوتی حیثیت
  • مارکیٹ میں نئی تبدیلیوں کیلئے خود کو تیار رکھیں؛ احسن اقبال
  •  سوناکشی سنہا کی تھرلر فلم ’نکیتا رائے‘ ریلیز کیلئے تیار 
  • عمران خان کچھ شرائط پر ہر کسی سے بات چیت کیلئے تیار ہیں: شاندانہ گلزار