گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبرپر
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
پاکستان گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 میں دوسرے نمبرپر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردوں حملوں میں ہونے والی اموات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 میں پہلے نمبر پر برکینا فاسو، تیسرے نمبر پر شام، چوتھے نمبر پر مالی، پانچویں نمبر نائیجر، چھٹے نمبر پر نائیجریا اور ساتویں نمبر پر صومالیہ ہے۔انڈیکس میں اسرائیل آٹھویں ، افغانستان نویں اور کیمرون دسویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں دہشت گردی کے اثرات کے لحاظ سے 163 ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ درجہ بندی جن اشاریوں کی بنیاد پر کی گئی ان میں دہشت گردی کے واقعات، ہلاکتوں، زخمیوں اور یرغمالیوں کی تعداد شامل ہے۔ 12ویں سالانہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس (جی ٹی آئی) کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) تیزی سے بڑھتا ہوا دہشت گرد گروہ بن کر ابھرا ہے اوراس گروہ کے باعث ہلاکتوں میں 90 فیصد اضافہ ہوا۔ کالعدم ٹی ٹی پی دوسرے سال بھی پاکستان کی مہلک ترین دہشت گرد تنظیم ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد اموات کی ذمہ دار تھی۔ گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن کے نتیجے میں 558 ہلاکتیں ہوئیں۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کےحکومت میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروہوں نے بالخصوص پاک افغان سرحد پرحملوں میں اضافہ کیا جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبے سب سے زیادہ متاثرہ ہیں۔ 2024 میں پاکستان میں ہونے والے 96 فیصد سے زائد دہشت گرد حملے اوراموات مغربی سرحدی علاقوں میں ہوئیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2024 میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پاکستان میں مہلک ترین دہشت گرد حملے کی ذمہ دار تھی۔ بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافے نے 2024 میں پاکستان میں دہشت گردی بڑھنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان میں میں پاکستان ٹی ٹی پی
پڑھیں:
گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پاما) کے مطابق مارچ 2025 میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں 18 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاما کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 مہینوں کے مطابق 46 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ پاما کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں اب تک پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے کے دوران 1 لاکھ سے بھی کم گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔
پاکستان میں ایک عرصے کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ اور کیا اب لوگ بہ آسانی گاڑی خرید سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیے چینی ساختہ الیکٹرک گاڑی ’ڈونگ فینگ بکس‘ پاکستان میں لانچ، قیمت کیا ہے؟
آل پاکستان کار ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایم شہزاد اکبر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم گزشتہ برس کے مقابلے میں حالیہ اعدادوشمار دیکھیں تو اس میں تھوڑا سا پروڈکشن اور فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن چند برس قبل تک یہ سالانہ اعدادوشمار تقریباً اڑھائی لاکھ سے اوپر ہوتے تھے۔ مگر اس وقت جو بھی ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہم اپنی اس شرح سے اب بھی پیچھے چل رہے ہیں۔ اور یہ کوئی بہت اچھی فروخت نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آج بھی دنیا کی مہنگی ترین گاڑی ہم عوام کو اسمبل کر کے دے رہے ہیں۔ یہ گاڑیاں قوت خرید میں نہیں ہیں۔ اور اس فروخت میں اضافے کی وجہ بھی شرح سود میں کمی ہے لیکن شرح سود میں کمی کے باوجود گاڑیوں کی فروخت میں کوئی ریکارڈ اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا۔ کیونکہ گاڑیوں کی قیمتیں تو وہیں ہیں۔ اس لیے اس وقت ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں مینوفیکچرنگ ہو۔ ملک میں لوکلائزیشن اور میڈ ان پاکستان کار ہونی چاہیے۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی۔ اور عوام بھی تب ہی اس قابل ہو گی کہ زیادہ گاڑیاں خرید سکے۔
ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں لوکلائزیشن نہیں ہوتی، اس وقت تک میں نہیں سمجھتا کہ آٹو سیکٹر کی بحالی کوئی اچھے پیمانے پر ہوگی۔ ہمارے ملک میں سستی اور معیاری گاڑی نہیں ہوگی، اس وقت ملک میں یہ صنعت ترقی نہیں کر سکتی۔ اور مڈل کلاس کے لوگ تو اب بھی گاڑی نہیں خرید سکتے۔ کیونکہ گاڑی صرف پاکستان میں ایلیٹ طبقہ ہی افورڈ کر سکتا ہے۔ پاکستان میں گاڑی کے نام پر جو کوالٹی بیچی جاتی ہے، اس کی بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
یہ بھی پڑھیے گوگو کی الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتوں میں 10 لاکھ روپے سے زائد کمی، مگر کیوں؟
گزشہ 20 برس سے گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والے ایک ڈیلر کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد گاڑیوں سمیت تقریباً تمام سیکٹرز میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
پاکستان میں گاڑی کی قیمت حد سے زیادہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام بندہ نیٹ کیش پر گاڑی خریدنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ شرح سود میں کمی سے اتنا ضرور ریلیف ملا ہے کہ وہ افراد جو گاڑیاں خریدنے کے خواہشمند ہیں، وہ بہ آسانی بینک فنانشل کے ذریعے گاڑی لے سکتے ہیں۔
جو گاڑی انہیں گزشتہ برسوں کے دوران تقریباً ڈبل قیمت میں پڑ رہی تھی، اب وہی گاڑی کم از کم انہیں آدھے لون پر پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے گاڑی حاصل کرنا قابل استطاعت ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آٹو سیکٹر اس وقت پہ بحال ہو سکتا ہے۔ جب صرف شرح سود میں ہی کمی نہ ہو۔ بلکہ گاڑیوں کہ قیمتوں میں بھی کمی ہو۔ اور سہی وقت عام عوام کے لیے گاڑی خریدنے کا اسی وقت ہوگا۔ جب گاڑی کی قیمت اور شرح سود دونوں ہی کم ہوں۔
ایم سی بی بینک کے آٹو لان مینیجر محمد عدنان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام کا بینک فنانسنگ پر گاڑی لینے کا رجحان کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام نے بینکوں میں سیونگ کے لیے رکھے گئے پیسے بینکوں سے نکال لیے ہیں۔ جس کے بعد اب وہ مختلف سیکٹرز میں انویسٹ کر رہے ہیں۔
گاڑی پاکستان میں اب ایک سیونگ کا نظام بن چکی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں گاڑیاں کافی مہنگی ہیں اور گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی مشکل ہی سے ہوتی ہے، اس لیے لوگ گاڑی کو انویسٹمنٹ کے طور پر خرید رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے بینک سے انتہائی کم شرح سود پر گاڑی لینا کافی منافع بخش ہو چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں