Daily Ausaf:
2025-04-22@09:51:25 GMT

برطانیہ میں ماہ رمضان اور مسلمان

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
مسلمانوں کی کوشش ہے کہ حکومت برطانیہ عیدالفطر اور عید الاضحی پر سرکاری طور پر کرسمس کی طرح چھٹیوں کا اعلان کرے لیکن شائد یہ منزل دور ہے برطانیہ کی جیلوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی 12 ہزار مسلمان قیدی ہونگے ان قیدیوں کیلئے جیلوں میں باجماعت نماز جمعہ کیلئے ایک سرکاری طور پر امام تعینات ہوتا ہے جیلوں میں پانچ وقت نماز پڑھنے پڑھانے کا بندوبست بھی ہے کسی قسم کی عبادات پر کوئی قدغن نہیں۔ رمضان المبارک میں جیل حکام کی جانب سے سحری اور افطاری کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے۔ متعین امام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام انتظامات مسلمان قیدیوں کے جذبات ، عقائد کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے کریں۔ پانچ وقت کی نماز، تراویح اور جمعہ کی نماز کا باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے بعض مسلمان قیدیوں کو عید کے روز ایک دن کی چھٹی بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ عید گزار سکیں۔
یاد رہے کہ یہاں قیدیوں کو جیب خرچ بھی ملتا ہے جیل میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ مختلف ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں ۔امیگرنٹس کو انگریزی بھی سکھائی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی سزا کاٹ کر معاشرے میں دوبارہ با عزت طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں ۔بعض قیدی تو جیل میں جاکر بالکل تبدیل ہوجاتے ہیں اور دین کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں جبکہ جیل میں کسی قسم کی زور زبردستی نہیں ہوتی ۔ کسی پر بھی اس طرح کی سختی یا نرمی نہیں برتی جاتی جس طرح ہمارے ملکوں میں ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے 25 سالوں میں تقریباً20 ہزار افراد یوکے اور یورپ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پاکستانی و کشمیری مسلمانوں کا جینا اور مرنا اب یہاں ہی کاہوکر رہ گیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی سفیر بھی ہماری یہی نئی نسل ہے جو والدین کی مادری زبانوں کلچر سے تھوڑی آشنا بھی ہے۔
پاکستان سے آنے والے مذہبی اور روحانی قافلوں نے بھی یہاں اپنے اپنے کیمپ قائم کرلئے ہیں جو اپنے اپنے مسلک اور اپنے اپنے عقیدے اور جماعت کا پرچار کر رہے ہیں یہ ایک طرح کی مسلمانوں میں تقسیم اور بگاڑ کا سبب ہے۔۔
آج کی نوجوان نسل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جنریشن ہے ہر مسئلے پر قرآن و حدیث کی رو سے ثبوت مانگتی ہے وہ بھی انگریزی زبان میں ۔۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاکستان اور آزاد کشمیر سے آنے والے علمائے کرام اردو میں خطاب کررہے ہوتے ہیں جو نوجوان نسل زیادہ نہیں سمجھ سکتی اسی لیے پرانی پیڑی اور نئی نسل کے درمیان جنریشن گیپ بڑھ رہا ہے۔ والدین کسی اور مسجد میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور نوجوان کسی اور مسجد میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں جہاں عربی اور انگریزی بولی جاتی ہے اور جمعہ کے خطبے کو کرنٹ افیئرز سے بھی جوڑا جاتا ہے اسی طرح ایک گھر میں رہتے ہوئے والدین اور اولادوں کی دو مختلف دنوں میں عیدیں ہوتی ہیں آپ کا عقیدہ درست بھلے کیوں نہ ہو جب آپ اس زبان میں بیان نہیں کرسکتے جو اس ملک کی زبان ہے تو پھر الزام آپ ہی کو جائے گا اس سال بھی مسلمانوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کرکے دو مختلف دنوں میں روزہ رکھا عید بھی الگ الگ ہوگی علمائے کرام نے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنا رکھی ہیں لیکن کب تک ؟
پاکستانی اور کشمیریوں کے زیر انتظام مساجد میں ایک بڑا مسئلہ مساجد کمیٹیوں میں نوجوانوں کو شامل نہ کرنے کا بھی اگر نوجوانوں کو مساجد کا انتظام و انصرام سنبھالنے دیا جائے تو مستقبل کے لئے اچھا ہے مسلمانوں کے قائم کردہ یہاں رفاعی ادارے فنڈ ریزنگ کیلئے تمام حربے استعمال کرتے ہیں سب ٹی وی چینلز افطاری سے لے کر سحری تک لائیو فنڈ ریزنگ کرتے ہیں نجانے کتنے ملین پونڈز اور یورو اکٹھے ہوتے ہیں۔ اللہ کے نام پر دینے والوں کی چیریٹی عطیات تو اللہ قبول کرلیتا ہے لیکن ان چیریٹی اداروں پر اعتراضات بھی اکثر ہوتے ہیں کبھی کبھی سوچتا ہوں جتنا رمضان میں غریبوں یتیموں کے نام پر پیسہ اکٹھا ہوتا ہے اگر سب غریبوں، یتیموں، ناداروں اور مسکینوں پر خرچ ہو تو مسلمان ممالک میں ایک بھی غریب نہ رہے
برطانوی مسلمانوں کو اپنی نوجوان نسل کو باہم اکٹھا کرنے کی ترکیب سوچناہوگئی اور باہم فروعی اختلافات بھولنے ہونگے تاکہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آگئے بڑھ سکیں اور آپس میں ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق کو فروغ دیا جاسکے۔یہاں بھی فرقہ بندی ہے لیکن لڑائی کوئی نہیں کر سکتا چونکہ قانون سخت ہیں اور زیادتی کرنے والا ججوں کی سزا سے بچ نہیں سکتا یہاں مسلمانوں کے لئے مسائل ہیں اسلام و فوبیا ہے نسلی تعصب بھی ہے لیکن قانون سب کے یکساں ہے مسلمانوں نے خود مل جل حالات بہتر کرنے ہیں آخر میں آئیے دعا کریں ان تمام مسلمانوں خاص کر پاکستانیوں کے لئے لیے جنہوں نے سخت محنت مزدوری کرکے اس ملک میں مساجد تعمیر کیں جس کی وجہ سے اسلام کا احیا آج ممکن ہوا اور مسلمان شاہی مہمان نوازی میں افطاری کے قابل ہوئے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہوتے ہیں

پڑھیں:

بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور

نیشنل پروگرام ہیلتھ ایمپلائز ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر رخسانہ انور نے کہا ہے کہ بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری کرنے کے خلاف ہمارا احتجاج جاری رہےگا، چاہے 15 روز مزید دھرنا دینا پڑے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پنجاب میں آج انسداد پولیو مہم شروع ہونی تھی، ہم نے اس کا بھی بائیکاٹ کیا ہے، ہمارے مطالبات ایسے نہیں ہیں جو نہ مانے جا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں لاہور: گرینڈ ہیلتھ الائنس کا دھرنا جاری، وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش پر پولیس کا لاٹھی چارج، متعدد گرفتار

انہوں نے کہاکہ ہم گزشتہ 15 روز سے مال روڈ پر احتجاج کررہے ہیں، حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا، خواتین ورکرز بے یارومدد گار یہاں پر دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں بنیادی صحت کے مراکز کو پرائیویٹائز نہ کیا جائے، لیکن حکومت بضد ہے کہ نجکاری ہر صورت کرکے بنیادی صحت کے مراکز کو ٹھیکیداروں کو دینا ہے، جس سے صحت کے شعبے کو نقصان ہوگا۔

’ملازمین پر تشدد کیا گیا اور زہریلا پانی پھینکا گیا‘

انہوں نے کہاکہ مریم نواز تو کہتی تھیں کہ خواتین ان کی ریڈ لائن ہیں لیکن کئی روز سے ہیلتھ ورکرز سڑکوں پر احتجاج کررہی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ، ڈپٹی وزیراعلیٰ، چیف جسٹس ہائیکورٹ، وزیر اطلاعات، سیکریٹری ہیلتھ سمیت پنجاب کے تمام بڑے عہدوں پر خواتین بیٹھی ہیں، لیکن کوئی ہمارے مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں۔

رخسانہ انور نے کہاکہ جس روز ہم نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے احتجاج کرنے کی کوشش کی، اس روز ہم پر مرد پولیس اہلکاروں نے لاٹھیاں چلائیں اور خواتین کی چادریں اتاری گئیں۔

انہوں نے کہاکہ وہاں پر کچھ خواتین اہلکار بھی ضرور تھیں لیکن مرد پولیس اہکار خواتین کو مارتے رہے، مریم نواز اگر سب کی ماں ہے تو ہمارے ساتھ کیوں سوتیلی ماں والا سلوک کیا جارہا ہے۔

’ہم پر تیزاب گردی کی گئی‘

’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب رورل ہیلتھ ایسوسی ایشن کے نائب صدر جام فاضل نے کہاکہ جس دن پولیس نے مال روڈ پر ہمارے ورکرز پر کریک ڈاؤن کیا تو اس دن تیزاب پھینکا گیا جس سے ہمارے کچھ ملازمین جھلس گئے۔

انہوں نے کہاکہ جلھسنے والے کچھ افراد کو ہم نے گنگا رام اسپتال منتقل کیا جبکہ کچھ کی موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں پنجاب کے سرکاری ملازمین کا مطالبات کے حق میں ماڈل ٹاؤن کے باہر احتجاج

انہوں نے کہاکہ حکومت کا اگر یہ رویہ ہے تو ہم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم نجکاری کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں، جبکہ حکومت ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بنیادی صحت مراکز پولیس تشدد تیزاب گردی حکومت پنجاب دھرنا جاری رخسانہ انور مریم نواز وزیراعلٰی ہاؤس وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے، عمر ایوب
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے : عمر ایوب
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ، عمر ایوب
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
  • لیسکو چیف رمضان بٹ کا دورہ ’’نوائے وقت دفتر‘‘ ایم ڈی رمیزہ نظامی سے ملاقات 
  • غیرمسلم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج، مسلمان ممالک چھرا گھونپ رہے ہیں، ہرمیت سنگھ