Daily Mumtaz:
2025-04-22@07:12:58 GMT

پاکستان گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں دوسرے نمبر پر آگیا

اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT

پاکستان گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں دوسرے نمبر پر آگیا

گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 میں پاکستان دوسرے نمبر پر پہنچ گیا جبکہ گزشتہ سال کے دوران دہشت گرد حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 45 فیصد اضافے کے ساتھ 1081 ہوگئی ہے۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مانسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) کی جانب سے شائع کردہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 میں گزشتہ 17 برسوں کے دوران دہشت گردی کے اہم رجحانات اور نمونوں کا جامع خلاصہ فراہم کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں دہشت گردی کے اثرات کے لحاظ سے 163 ممالک (دنیا کی آبادی کا 99.

7 فیصد) کی درجہ بندی کی گئی ہے، ان اشاریوں میں دہشت گردی کے واقعات، ہلاکتوں، زخمیوں اور یرغمالیوں کی تعداد شامل ہے۔

یہ مسلسل پانچواں سال ہے جس میں دہشت گردی سے متعلق اموات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور پاکستان کے لیے گزشتہ دہائی میں سال بہ سال سب سے بڑا اضافہ ہوا ہے، یہ رجحان دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے، جو 2023 میں 517 سے بڑھ کر 2024 میں 1099 ہو گیا ہے، یہ پہلا سال ہے جب انڈیکس کے آغاز کے بعد سے حملوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

بدھ کو جاری ہونے والے 12 ویں سالانہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس (جی ٹی آئی) کے مطابق دہشت گرد حملے ریکارڈ کرنے والے ممالک کی تعداد 58 سے بڑھ کر 66 ہوگئی ہے۔

اس سے تقریباً ایک دہائی کی بہتری الٹ گئی ہے، جس میں 45 ممالک کی حالت بگڑ رہی ہے اور 34 میں بہتری آئی ہے، 4 مہلک ترین دہشت گرد گروہوں نے 2024 میں تشدد میں اضافہ کیا، جس سے ہلاکتوں میں 11 فیصد بڑھیں ، مغرب میں اب انفرادی دہشت گرد حملوں کا غلبہ ہے، جو گزشتہ5 برسوں کے دوران ہونے والے مہلک حملوں کا 93 فیصد ہے۔

غزہ تنازع نے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کو بڑھا دیا ہے اور مغرب میں نفرت پر مبنی جرائم کو ہوا دے رہا ہے جبکہ ایران میں دہشت گردی سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے، 2024 میں عالمی دہشت گردی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا، دہشت گردی سے سب سے زیادہ ہلاکتیں برکینا فاسو، پاکستان اور شام میں ہوئیں، برکینا فاسو دنیا بھر میں ہونے والی اموات کا پانچواں حصہ ہے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) تیزی سے بڑھتا ہوا دہشت گرد گروہ بن کر ابھری ہے، اور ہلاکتوں میں 90 فیصد اضافے کا سبب بنی ہے، کالعدم ٹی ٹی پی دوسرے سال بھی پاکستان کی مہلک ترین دہشت گرد تنظیم بنی ہوئی ہے، یہ 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد اموات کی ذمہ دار تھی۔

گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے 482 حملے کیے جن کے نتیجے میں 558 ہلاکتیں ہوئیں جو گزشتہ سال کے 293 ہلاکتوں کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، افغانستان سے سرگرم دہشت گرد گروہوں نے بالخصوص پاک افغان سرحد پر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں، 2024 میں پاکستان میں ہونے والے 96 فیصد سے زائد دہشت گردی کے حملے اور ہلاکتیں مغربی سرحدی علاقوں میں ہوئیں۔

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے ٹی ٹی پی نے آپریشنل آزادی اور سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی میں اضافے کا فائدہ اٹھایا ہے، طالبان کی اقتدار میں واپسی نے کالعدم ٹی ٹی پی کو زیادہ سے زیادہ استثنیٰ کے ساتھ حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔

ٹی ٹی پی ریاستی اختیار کو کمزور کرنے اور فوجی کارروائیوں میں خلل ڈالنے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور بنیادی ڈھانچے کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے،اس کے جواب میں حکومت پاکستان نے آپریشن عزم استحکام جیسے انسداد دہشت گردی اقدامات متعارف کرائے ہیں۔

بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) 2024 میں پاکستان میں مہلک ترین دہشت گرد حملے کی ذمہ دار تھی، جب بلوچستان کے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ایک خودکش بمبار نے کم از کم 25 شہریوں اور فوجیوں کو شہید کر دیا تھا۔

بی ایل اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) جیسے بلوچ عسکریت پسند گروہ پاکستان کے اندر جاری عدم استحکام کا فائدہ اٹھارہے ہیں، ان گروہوں کے حملے 2023 میں 116 سے بڑھ کر 2024 میں 504 ہو گئے ہیں جبکہ اموات کی تعداد چار گنا بڑھ کر 388 ہو گئی جو گزشتہ سال 88 تھی۔

مزید برآں، بلوچ عسکریت پسند گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافے نے 2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سطح میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، بی ایل اے نے وسائل نکالنے سے متعلق حکومتی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کا استحصال مقامی آبادی کے لیے مساوی ترقی یا معاوضے کے بغیر کیا جا رہا ہے۔

گروپ نے غیر ملکی سرمایہ کاری، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چینی اقدامات کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچ عوام کو حاشیے پر رکھتا ہے۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: میں پاکستان میں دہشت گردی کے میں اضافہ گزشتہ سال کی تعداد ٹی ٹی پی گئی ہے بڑھ کر ہے اور سے بڑھ گیا ہے بی ایل

پڑھیں:

مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی

اسلام ٹائمز: دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔ تحریر: حنیف غفاری
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی اور اسٹنفورڈ یونیورسٹی سمیت کئی چھوٹے اور بڑے تعلیمی مراکز کے خلاف انتہاپسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کا مقصد ان تعلیمی مراکز سے فلسطین کے حامیوں اور غاصب صیہونی رژیم کے مخالفین کا صفایا کرنا ہے۔ دوسری طرف مغرب میں انسانی حقوق، تعلیمی انصاف اور آزادی اظہار کے دعویداروں نے اس قابل مذمت رویے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو مکمل طور پر قانونی طریقے سے امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے اب نہ صرف انہیں تعلیم جاری رکھنے سے روک دیا گیا ہے بلکہ اف بی آئی اور امریکہ کی سیکورٹی فورسز نے انہیں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ امریکی حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی سمیت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت میں طلبہ و طالبات کی سرگرمیاں فوراً روک دیں۔
 
امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ایشیا خطے میں جاری حالات سے متعلق طلبہ و طالبان کو یونیورسٹی کے احاطے میں اجتماعات منعقد کرنے کی اجازت نہ دیں اور جو طلبہ و طالبان ان سرگرمیوں میں ملوث ہیں ان کی تمام معلومات سیکورٹی اداروں کو فراہم کریں۔ یوں امریکہ میں یونیورسٹی اور تعلیمی مراکز فوجی چھاونیاں بن کر رہ گئے ہیں۔ امریکہ کی وزارت داخلہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو وارننگ دی ہے کہ اگر اس کی انتظامیہ حکومتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتی تو اس کا غیر ملکی طلبہ و طالبات کو داخلہ دینے کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ امریکہ کی وزارت داخلہ اور وائٹ ہاوس جس انداز میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز سے برتاو کر رہے ہیں وہ انسان کے ذہن میں "تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی" کا تصور قائم کر دیتا ہے۔
 
ریاستی دہشت گردی کی آسان تعریف یہ ہے کہ کوئی حکومت سیاسی اہداف کی خاطر عام شہریوں کے خلاف غیر قانونی طور پر طاقت کا استعمال کر کے انہیں خوفزدہ کرے۔ ہم ایک طرف غزہ کی پٹی میں بھرپور انداز میں جاری مسلسل نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں شہداء کی تعداد 52 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ غاصب اور بے رحم صیہونی رژیم کی جانب سے شدید محاصرے اور انسانی امداد روکے جانے کے باعث ہر لمحے معصوم بچے شہید ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی حکمران یہودی لابی آئی پیک کی کاسہ لیسی کی خاطر ملک کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی مراکز کو بے حس، خاموش تماشائی بلکہ جرائم پیشہ صیہونی رژیم کی حامی بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ تعلیمی مراکز کے خلاف اس ریاستی دہشت گردی کا سرچشمہ وائٹ ہاوس، نیشنل سیکورٹی ایجنسی اور موساد ہیں۔
 
یہاں ایک اور مسئلہ بھی پایا جاتا ہے جو شاید بہت سے مخاطبین کے لیے سوال کا باعث ہو۔ یہ مسئلہ صیہونی رژیم اور امریکی حکومت کی جانب سے خاص طور پر ہارورڈ یونیورسٹی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اس یونیورسٹی کو ملنے والا 2 ارب کا بجٹ روک دیا ہے۔ یہ کینہ اور دشمنی اس وقت کھل کر سامنے آیا جب غزہ جنگ شروع ہونے کے تین ماہ بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک سروے تحقیق انجام پائی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس یونیورسٹی کے 51 فیصد طلبہ و طالبات جن کی عمریں 18 سے 24 سال تھیں جعلی صیہونی رژیم کے خاتمے اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کے حامی ہیں۔ اس اکثریت کا خیال تھا کہ صیہونی حکمران آمر اور ظالم ہیں جبکہ فلسطینیی ان کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن انجام دینے میں پوری طرح حق بجانب تھے۔
 
اسی وقت سے امریکی حکومت اور صیہونی حکمران ہارورڈ یونیورسٹی اور اس سے متعلقہ اداروں کے خلاف شدید غصہ اور نفرت پیدا کر چکے تھے۔ امریکہ میں صیہونی لابی آئی پیک (AIPAC) نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اس سروے تحقیق کی انجام دہی کو یہود دشمنی قرار دے دیا۔ مزید برآں، اس سروے رپورٹ کے نتائج کی اشاعت نے یہودی لابیوں کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ اب سب کے لیے واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ میں نئی نسل نہ صرف غاصب صیہونی رژیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اس کے ناجائز وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اب صیہونی لابیاں امریکہ کے ایسے یونیورسٹی طلبہ سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی ہے اور کسی قیمت پر بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی اس واضح ناانصافی اور ظلم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
 
دوسری طرف مختلف یورپی ممالک جیسے جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں بھی ایسے طلبہ و طالبات کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں جنہوں نے 2023ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہاں بھی انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری اقدار کی دعویدار تنظیمیں اور ادارے چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ بے پناہ طلبہ کی حمایت کرنے کی بجائے حکومتوں کے آمرانہ اور ظالمانہ برتاو کی حمایت کر رہے ہیں۔ نہ تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی ہنگامی اجلاس بلواتی ہے اور نہ ہی یورپی پارلیمنٹ اور کمیشن کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ مغربی کا حقیقی چہرہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ امریکی، یورپی اور صیہونی حکمران بہت جلد اس حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے کہ تعلیمی مراکز پر دھونس جما کر وہ نئی نسل میں ظلم کے خلاف نفرت اور مظلوم سے ہمدردی کا جذبہ ختم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات بلند ترین سطح پر ،جولائی 2024 تامارچ 2025 ایک سال میں 9.38 فیصد اضافہ ہوا
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • اسد عمر کی 3 مقدمات میں عبوری ضمانت 13 مئی تک منظور