آرمڈ فورسز عدلیہ کا حصہ نہیں، جسٹس مظاہر، قانون میں ملٹری کورٹ نہیں، کورٹ مارشل: جسٹس مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کی، جس میں سپریم کورٹ بار کے سابقہ عہدیداران کے وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ روز اٹارنی جنرل کی عدالت کو یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کا ذکر کیا تھا۔ اٹارنی جنرل کی تحریری یقین دہانیوں کا ذکر 5 رکنی بینچ کے فیصلے میں موجود ہے۔ تحریری یقین دہانیاں جن متفرق درخواستوں کے ذریعے کرائی گئیں، ان کے نمبر بھی فیصلے کا حصہ ہیں۔ اپنے دلائل میں عابد زبیری نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق نے ایف بی علی کا ملٹری ٹرائل کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1978 میں ایف بی علی کو چھوڑ دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جو کام ایف بی علی کرنا چاہ رہا تھا وہ ضیاء الحق نے کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ملٹری ٹرائل کے لیے مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے۔ پروسیجر میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ پروسیجر پر عمل نہ ہو تو پھر اس کی دستیابی کوئی فائدہ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کورٹ پر 2 اعتراض ہیں۔ ایک اعتراض ملٹری ٹرائل غیر جانبدار نہیں ہوتا، دوسرا اعتراض ٹرائل کرنے والوں پر قانونی تجربہ نہ ہونے کا لگایا گیا۔ وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ ملٹری کورٹ ایگزیکٹو کا حصہ ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرمی کا کیا کام ہوتا ہے۔ آرمی کے کام میں ایگزیکٹو کہاں سے آگیا۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ آرمی کا کام سرحد پر لڑنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوج کا کام ملک کا دفاع کرنا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا آپ ملٹری کورٹ کو عدلیہ تسلیم کرتے ہیں؟۔ اگر عدلیہ تسلیم کرتے ہیں تو اس کے نتائج کچھ اور ہوں گے۔ اگر ملٹری کورٹ جوڈیشری ہے تو پھر وہ عدلیہ ہے۔ جسٹس منیب نے ملٹری کورٹ کو عدلیہ نہیں لکھا۔ وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو وکیل عابد زبیری نے اپنے دلائل میں مزید بتایا کہ عدالت فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ سول نوعیت کے جرائم پر سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا۔ فوجی عدالتیں آئین کے تحت بنے عدالتی نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل صرف ان سویلینز کا ہوسکتا جو فوج کا حصہ ہوں۔ عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے کی موجودگی میں ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ نیکسز والے سیکشن کو کدھر لے کر جائیں گے؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیکشن ٹو ڈی میں ملٹری کورٹ نہیں لکھا گیا۔ سیکشن ٹو ڈی میں لکھا ہے جرم پر ٹرائل ہوگا۔ یہ نہیں لکھا کہ ٹرائل کا فورم کون سا ہوگا۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ ملٹری تنصیبات پر حملوں کے بارے میں ترمیم کرکے ملٹری ٹرائل میں شامل کرلیا گیا۔ جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ یہ حملے تو اب بھی ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز بنوں کینٹ میں حملہ ہوا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شواہد ہوں تو انسداد دہشت گردی عدالتیں بھی سزائیں دیتی ہیں۔ ایسے کیسز کہاں چل رہے ہیں۔ اگر ایسے کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چل رہے ہوتے تو رپورٹنگ ہوتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرمڈ فورسز عدلیہ کا حصہ نہیں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون میں ملٹری کورٹ نہیں، کورٹ مارشل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابقہ عہدیداران کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل ہو گئے اور اب لاہور بار کے وکیل حامد خان آج سے اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔ بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت آج جمعرات تک کے لیے ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس جمال مندوخیل نے مندوخیل نے کہا کہ وکیل عابد زبیری مندوخیل نے کہ ملٹری ٹرائل ملٹری کورٹ میں ملٹری نے دلائل بتایا کہ کا حصہ
پڑھیں:
عدالت کیخلاف پریس کانفرنسز ہوئیں تب عدلیہ کا وقار مجروح نہیں ہوا؟
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 اپریل 2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے جج ہمایوں دلاور کیخلاف سوشل میڈیا کمپین سے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار دیدی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ہمایوں دلاور کے خلاف مبینہ سوشل میڈیا مہم پر ڈائریکٹر اینٹی کرپشن خیبرپختونخواہ صدیق انجم اور دیگر کے خلاف کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا، عدالت نے خصوصی عدالت میں مقدمے کا ٹرائل روکنے کا حکمِ امتناع بھی برقرار رکھا۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے، ڈی جی ایف آئی اے کی رپورٹ ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کی گئی‘، اس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ’کیا ایف آئی اے کو معلوم نہیں کہ عدالت میں رپورٹ کس طرح فائل کی جاتی ہے؟ شریک ملزم کے مطابق سوشل میڈیا مہم کے لیے سیاسی دباؤ تھا اس کا کیسے دفاع کریں گے؟ درخواست گزار کے مطابق شریک ملزم کا مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، اس نے اس میں ایسا کچھ نہیں کہا‘۔(جاری ہے)
اس کے جواب میں ایف آئی اے وکیل نے کہا کہ ’جج کی طرف سے ایف آئی اے میں کوئی شکایت فائل نہیں کی گئی، اُن کے بھانجے نے شکایت فائل کی تھی‘، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ ’کوئی جج کی طرف سے کیسے شکایت درج کروا سکتا ہے؟ ایف آئی اے رپورٹ میں مہم سے عدلیہ کا وقار ختم کرنے کا لکھا ہوا ہے، آپ کو پتا ہے اس ہائیکورٹ کے کتنے ججز کے خلاف بدنیتی پر مبنی کمپینز چلیں؟ ہائیکورٹ کے ججز کے معاملے پر ایف آئی اے نے کہا کہ کچھ پتا نہیں کون کر رہا ہے، اِس کیس میں ایف آئی اے کو سب پتا چل گیا حالاں کہ جج نے خود شکایت بھی نہیں جمع کرائی‘، بعد ازاں عدالت نے ایف آئی اے کو دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 19 مئی تک ملتوی کردی۔