ماہرہ خان کے حاملہ ہونے کا شور پھر اٹھ گیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک)عالمی شہرت یافتہ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان سے متعلق حاملہ ہونے کی افواہیں ایک بار پھر سرگرم ہوگئیں۔
ماہرہ خان کون؟
ماہرہ خان اپنے کیرئیر میں کئی ڈراموں کا حصہ بنیں اور تقریباً ہر کردار سے ہی پراجیکٹ کو کامیابی سے ہمکنار کروایا پھر چاہے ہمسفر کی بات ہو یا پھر بن روئے، اور صدقے تمہارے میں بھی انکے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرہ خان آج پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول اور اعلیٰ معاوضہ لینے والی اداکاراؤں میں شمار کی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر میں کئی لکس اسٹائل ایوارڈز اور کئی ہم ایوارڈزسمیت دیگر اعزازات بھی اپنے نام کیے۔
اور پھر پاکستان تک ہی انکے اپنے فن کا ڈنکا نہ بجا بلکہ 2017 میں ماہرہ خان نے بالی ووڈ میں شاہ رخ خان کے ساتھ فلم ’رئیس’ میں ڈیبیو کیا، جو کہ بھارت کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں شامل ہے۔
اور بات صرف اداکاری تک ہی محدود نہ رہی بلکہ ماہرہ خان مختلف سماجی مسائل کے لیے بھی آواز اٹھاتی ہیں، جن میں خواتین کے حقوق، بچوں کے خلاف تشدد، اور زیادتی کے واقعات شامل ہیں۔
وہ 2019 سے یونیسف کے ساتھ کام کر رہی ہیں اور انہیں پاکستان میں افغان مہاجرین کے لیے قومی اور عالمی خیرسگالی سفیر مقرر کیا گیا تھا۔
ماہرہ خان کی ازدواجی زندگی پر ایک نظر:
کیرئیر کے علاوہ اداکارہ کی زندگی کے ذاتی پہلو پر نظر ڈالی جائے تو حسن سے سرشار ماہرہ نے سال 2007ء میں علی عسکری سے شادی کی تھی اور 2009ء میں ان کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام اذلان ہے۔
بعد ازاں، شادی کے 8 سال بعد 2015ء میں دونوں نے ایک دوسرے سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔علی عسکری سے علیحدگی کے بعد ماہرہ خان نے کئی سال تنہا اپنے بیٹے کی پرورش میں گزارے اور پھر اکتوبر 2023 میں اپنے دیرینہ دوست سلیم کریم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔
ماہرہ خان کے حاملہ ہونے کی افواہیں:
ابھی ماہرہ خان کی دوسری شادی کو چند ماہ ہی گزرے تھے کہ بھارتی میڈیا کی جانب سے افواہیں سرگرم ہونا شروع ہوگئیں کہ ماہرہ خان امید سے ہیں اور سلیم کریم کیساتھ پہلے بچے کی توقع کررہی ہیں۔
یہ افواہیں اس وقت سرگرم ہوئیں جب فروری 2024 کو ریڈٹ پر سامنے آنے والی ایک صارف کی پوسٹ کا حوالہ دیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ماہرہ خان او ٹی ٹی سیریز’جو بچے سنگ سمیٹ لو‘ سمیت دو بڑے پراجیکٹس سے دستبردار ہوگئی ہیں کیونکہ وہ حمل سے ہیں۔
پوسٹ سامنے آنے کی دیر تھی جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔اور ساتھ ہی تمام پاکستانی اور بھارتی میڈیا پر ماہرہ اور انکے دوسرے حمل کی خبروں نے شہ سرخیوں میں جگہ بنالی۔
بس پھر کیا تھا ماہرہ خان نے ان افواہوں پر لب کشائی کرتے ہوئے حقیقت سے پردہ اٹھایا اور یہ کہہ کہ ان قیاس آرائیوں کو فل اسٹاپ لگایا کہ’میرے حمل کی تمام خبریں حقیقت کے برعکس ہیں، نہ میں حاملہ ہوں اور نہ ہی میں نے نیٹ فلکس سیریز چھوڑی ہے۔’
حمل کا بازار دوبارہ گرم، وجہ کیا؟
حالانکہ ماہرہ خان نے غیر مصدقہ خبروں کی حقیقت واضح کردی تھی لیکن ایک بار پھر اداکارہ کے ماں بننے کی افواہیں سرگرم ہونا شروع ہوگئیں۔
اداکارہ ماہرہ خان نے حال ہی میں ایک کلوتھنگ برانڈ کی لان کے لیے فوٹو شوٹ میں حصہ لیا ہے جسکے بعد وہ انٹرویو کا حصہ بھی بنیں۔
یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے اپنے گرد دوپٹہ ایک منفرد اور غیر روایتی انداز میں باندھا، جس کی وجہ سے قیاس آرائیاں شروع ہوئیں کہ وہ حاملہ ہیں۔
انٹرویو کلپ دیکھنے کے بعد ماہرہ خان کی نئی لُک سے متعلق متعدد صارفین پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے دعویٰ کر رہے ہیں اداکارہ ماہرہ خان ماں بننے والی ہیں۔
مزیدپڑھیں:بھارت کی معروف گلوکارہ کی خودکشی کی کوشش؛وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ماہرہ خان نے کہ ماہرہ خان ماہرہ خان ا نے والی
پڑھیں:
فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’ علی الاقرب فالاقرب‘‘ ، ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔