فواد چوہدری نے تحریک انصاف کی موجودہ وکلا لیڈر شپ کو فراڈ اور منی لانڈرنگ ایکسپرٹس قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔05 مارچ 2025)سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ وکلا لیڈر شپ کو فراڈ اور منی لانڈرنگ ایکسپرٹس قرار دیدیاتھا،پی ٹی آئی کی وکلا لیڈر شپ بنیادی طور پر فراڈئیے ہیں،فواد چوہدری نے پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کو منی لانڈرنگ ایکسپرٹس قرار دیا،اپنے ایک بیان میں سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف ہائی جیک ہو چکی ہے۔
اور اس کا قبضہ چھڑانا اہم ہے۔سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے لیڈر شپ کا نام لے کر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سلمان اکرم راجہ، شیخ وقاص، شبلی فراز اور روف حسن نے پارٹی ہائی جیک کر لی ہے۔ منی لانڈرنگ ایکسپرٹس سے پارٹی کا قبضہ چھڑایا جائے۔فواد چوہدری نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ شاہ محمود قریشی، محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور یاسمین راشد جیسے لوگ پالیسی میں شامل کئے جائیں۔(جاری ہے)
فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت فراڈ اور منی لانڈرنگ کی ایکسپرٹس ہے۔واضح رہے کہ چند روزقبل گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کے پاس بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔یہ لوگ عجیب و غریب بیانیہ بناتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی خود باہر نہیں آنا چاہتے۔ ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ جب تک یہ رہیں گے عمران خان کے باہر آنے کا کوئی چانس نہیں تھا۔یہ بانی پی ٹی آئی کو باہر لانے کیلئے کچھ نہیں کر رہے اور فنڈنگ انجوائے کر رہے تھے۔ یہ ذاتی معاملات کو بانی پی ٹی آئی کی سیاست پر ترجیح دے رہے تھے۔سیاسی کمیٹی کے تین اجلاس ہوئے جس میں میرے خلاف بیان دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا تھاکہ سلمان اکرم، بیرسٹر گوہر اورروف حسن کو بیرون ملک جانے کی سہولت تھی۔ شیخ وقاص اکرم سمیت دیگر کو ملک سے باہر جانے کی سہولت کیوں میسر تھی؟۔ پاکستان تحریک انصاف کی پرانی لیڈر شپ کے ساتھ رویہ مختلف کیوں تھا؟۔ ان لوگوں کو پی ٹی آئی کی اصل لیڈر شپ کو مائنس کرنے کیلئے انسٹال کیا گیا تھا۔.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے منی لانڈرنگ ایکسپرٹس پاکستان تحریک انصاف سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے تحریک انصاف کی بانی پی ٹی آئی پی ٹی آئی کی کی موجودہ لیڈر شپ
پڑھیں:
سیاسی سسپنس فلم کا اصل وارداتیا!
سسپنس فلموں سے دلچسپی رکھنے والے حضرات بخوبی واقف ہیں کہ بعض اوقات بالکل آخر میں جا کر یہ راز کھلتا ہے کہ سب سے زیادہ بے ضرر اور معصوم دکھائی دینے والا کردار ہی اصل مجرم تھا۔یہ جان کرشائقین پرحیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہےکہ جس کردار کو بھولا بھالا اور شریف النفس سمجھتے رہے وہی اصل وارداتیا” تھا ۔حقیقی زندگی میں شرافت کا نقاب اوڑھ کر سادہ لوح لوگوں کو چکمہ دینے والے نوسر بازوں کا تذکرہ اکثر سنائی دیتا ہے ۔ ملکی سیاست میں بھی ایسے کرداروں کی کمی نہیں ۔اس تمہید کی وجہ ہمارے یار خاص تبریز میاں ہیں۔ موصوف سسپنس فلموں کےشیدائی ہیں اور معصومیت کے لبادے میں پوشیدہ مکار کرداروں کو پہچاننے میں خاص مہارت رکھتے ہیں ۔تبریز میاں کا خیال ہے کہ سابق صدر عارف علوی بھی سیاسی فلم کا وہ کردار ہے جو بظاہر بردبار دکھائی دیتا ہے لیکن در پردہ گہری چالیں چل کر سنگین وارداتوں کا ارتکاب کرتا رہتا ہے۔ گو راقم نے تبریز میاں کی اس رائے کو پہلے اتنا سنجیدگی سے نہیں جانچا البتہ سابق صدر کی حالیہ کارروائیاں نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ محترم عارف علوی صاحب گزشتہ کچھ ہفتوں سے امریکہ یاترا فرما رہے ہیں ۔بےضرر دکھائی دینےوالےسابق صدرکےبعض بیانات انکے ظاہری شخصی تاثر کے برعکس بےحد متنازع اور زہریلے ہیں۔ ان بیانات کےعلاوہ امریکہ یاترا میں سابق صدر کی امریکی اراکین کانگرس سے عجزمندی اور جھولی پھیلا کر سیاسی گریہ و زاری کی اطلاعات بھی ناخوشگوار تاثر پھیلا رہی ہیں ۔اس تناظر میں تبریز میاں کی سابق صدر کے متعلق پیش گوئی درست لگتی ہے۔ ماضی میں سابق صدر کے بعض معنی خیز اقدامات کی جھلکیاں یادداشت میں ابھرتی جا رہی ہیں۔ عارف علوی صاحب پیشے کے اعتبار سے دندان ساز ہیں۔ شنید ہے کہ ماضی میں جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی صاحب کی فکر سے متاثر رہے اور غالبا جماعت اسلامی کا حصہ بھی رہے۔ تحریک انصاف کے سیاسی عروج نے موصوف کو پارٹی کی صف اول کی قیادت میں جلوہ افروز ہونے کا موقع بخش دیا ۔تحریک انصاف میں صف اول بھی دراصل بانی چیئرمین عمران خان کے بعد ہی شروع ہوتی ہے لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عارف صاحب کو پی ٹی آئی کی درجہ دوم قیادت میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے ۔جب مرکز میں اقتدار کا پھل تحریک انصاف کی جھولی میں گرا تو عارف علوی صاحب کو منصب صدارت پر فائز کر دیا گیا ۔گو کہ یہ منصب نمائشی زیادہ ہے بہرحال آئین کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کارہائے ریاست میں خصو صی اہمیت رکھتا ہے ۔جب تنازعات میں گھری تحریک انصاف کی حکومت کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد ختم ہوئی تو گمان یہ تھا کہ صدر محترم اپنے سیاسی مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مستعفی ہو جائیں گے۔ توقعات کے برعکس عارف صاحب نے مستعفی ہونے کے بجائے بطور صدر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کو ترجیح دی۔ ہمارے تبریز میاں کاخیال ہے کہ علوی صاحب نے استعفے کے بجائے کرسی صدارت سے چپکے رہنے کو ترجیح دی ۔سیاسی مرشد پر مزاحمت کا دورہ پڑا ہوا تھا ،لیکن عارف علوی صاحب حکمت و تدبر کا نقاب اوڑھے ایوان صدر میں کارہائے منصبی نبھاتے رہے۔ بعض انصافی حضرات اس خوش گمانی میں مبتلا رہے کہ علوی صاحب سیاسی بحران ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا معجون استعمال کروا کر ثالثی فرمائیں گے،لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا بلکہ علوی صاحب پانچ برس سے کچھ زیادہ عرصہ کرسی صدارت کی شیرینی نوش فرماتےرہے ۔ان کے مخالفین علوی صاحب کو ایوان صدارت میں تحریک انصاف کا وفادار ترجمان قراردیتے رہے۔ قانون سازی سےمتعلق بعض اہم دستاویزات کے معاملے میں ان کا مشکوک رویہ تنقید کا شکار بنا ۔ صدر کے آئینی منصب کو جماعتی وفاداری کی بھینٹ چڑھا کر عارف علوی صاحب نے سیاسی دامن کو داغدار کر لیا۔
حالیہ امریکی یاترا کا معاملہ بھی کچھ کم مشکوک نہیں۔ جب تحریک انصاف کے بانی حکومت گنوانےکے بعد “جہاد امریکہ” میں مصروف تھے ،تو عارف علوی صاحب ایوان صدارت میں چپ سادھے بیٹھے رہے۔ دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں لیکن علوی صاحب امریکہ کے خلاف جاری سیاسی جہاد میں شرکت کے لیے آگے نہیں بڑھے ۔نو مئی کا فساد برپا ہوا تو علوی صاحب ایوان صدارت میں براجمان تھے ۔وہ افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر تھے ۔تحریک انصاف جس نام نہاد فالس فلیگ آپریشن کا واویلا مچاتی ہےکیا عارف علوی اس میں بطور سپریم کمانڈر آف آرمڈ فورسزشریک تھے؟ سوشل میڈیا پر عارف علوی صاحب کےایک انٹرویو کا تذکرہ کیاجارہا ہے۔ سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں علوی صاحب نے سانحہ جعفر ایکسپریس میں حکومت کے پیش کردہ اعداد و شمار کو جھٹلا کر 32 سے زائد شہادتوں کا دعوی کیا ہےچونکہ ان کے نام کےساتھ سابق صدرلگا ہےلہذا عالمی میڈیا ان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کوبھی رپورٹ کرتاہے ۔بھارتی میڈیاکےبعد قومی سیاست میں علوی صاحب وہ اہم شخصیت ہیں جس نےشہادتوں کی تعداد نہایت مشکوک انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کی ہے۔موصوف فرماتے ہیں کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی کی حکومت نہ بننے کی وجہ سے بلوچ نوجوان ہتھیاراٹھارہےہیں۔ ہماری تجویز ہےکہ سابق صدرکو پارلیمانی کمیٹی میں طلب کرکے باز پرس کی جانی چاہیے ۔کیا علوی صاحب ان سوالوں کے جوابات دینا پسند فرمائیں گے؟ اول ، سانحہ جعفر ایکسپریس میں ہونے والی شہادتوں کی تعداد کی تصدیق علوی صاحب نے کن ذرائع سے کی ہے؟ دوم ، اگر علوی صاحب کے پاس کوئی مصدقہ ذرائع نہیں تو پھر ان کے موقف اور بھارت کے شرانگیز پروپیگنڈے میں یکسانیت کی کیا تشریح کی جائے ؟ سوم، ہتھیار اٹھانے والے نوجوانوں کو تحریک انصاف کا حامی قرار دے کر کیا علوی صاحب یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ بی ایل اے دراصل ان کی جماعت کا مسلح دہشت گرد ونگ ہے ؟۔ چہارم، آج بلوچ نوجوانوں کی محرومیوں پر مگرمچھ کےآنسو بہانے کے بجائے علوی صاحب یہ بتائیں کہ بطورصدرپاکستان،تحریک انصاف کےعہد اقتدار میں بلوچ نوجوانوں کی دادرسی کے لیےانہوں نے کیا قابل ذکر اقدامات کیے؟ پنجم، علوی صاحب کی امریکہ یاترا کے کیا مقاصد ہیں ؟کیا وہ نام نہاد رجیم چینج کاسراغ لگا رہے ہیں یا امریکہ سے حقیقی آزادی حاصل کرنے کے لیے امریکی اراکین کانگرس اور عہدے داروں سے گریہ و زاری کر نے کے لئے سات سمندر پار گئے ہیں؟ علوی صاحب کو سابق صدر ہونے کے ناطے پارلیمانی کمیٹی میں طلب کیا جانا چاہیے ۔ اگر ان سے تسلی بخش جوابات نہ ملےتو اس صورت میں ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے تحریک انصاف کی سیاسی سسپنس فلم میں سابق صدربھی اصل وارداتیے” کا کردار ادا کر رہے ہیں۔