حماس کی جانب سے عرب ممالک کے غزہ منصوبے کا خیر مقدم، اسرائیل کی تنقید
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
قاہرہ: فلسطینی تنظیم حماس نے عرب ممالک کے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا۔
رائٹرز کے مطابق، قاہرہ میں عرب رہنماؤں کے اجلاس کے بعد اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ منصوبہ حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے اور حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کا ذکر تک نہیں کرتا۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ "حماس کے حملے میں ہزاروں اسرائیلی ہلاک اور سینکڑوں اغوا کیے گئے، لیکن منصوبے میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی حماس کی مذمت کی گئی۔"
دوسری جانب، حماس نے اجلاس کے فیصلوں کو فلسطینی کاز کے لیے "مثبت قدم" قرار دیا اور عرب ممالک سے کہا کہ وہ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے عملی اقدامات کریں۔
حماس نے مزید کہا کہ "ہم عرب رہنماؤں کے اس مؤقف کی قدر کرتے ہیں جو فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مخالفت کرتا ہے۔"
حماس نے عرب ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو مجبور کریں کہ وہ حماس کے ساتھ اپنے جنگ بندی معاہدے پر عمل کرے۔
قاہرہ اجلاس میں عرب اور اسلامی ممالک نے فلسطین کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عرب ممالک
پڑھیں:
اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
اسرائیل میں امریکہ کے نئے سفیر مائیک ہکابی نے فلسطینی تنظیم “حماس” پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کرے جس کے تحت تباہ حال غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے۔
ہکابی نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ “ہم حماس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا معاہدہ کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد ان لوگوں تک پہنچائی جا سکے جنہیں اس کی شدید ضرورت ہے”۔
انھوں نے مزید کہا کہ “جب ایسا ہو جائے گا، اور یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا ، جو کہ ہمارے لیے ایک فوری اور اہم معاملہ ہے، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ امداد کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی، اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ حماس اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے”۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب “حماس” نے جمعرات کو اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ ایک عبوری جنگ بندی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس تجویز میں قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ اور امداد کی فراہمی شامل تھی۔ “حماس” کے ایک اعلیٰ مذاکرات کار کے مطابق، ان کی تنظیم صرف مکمل اور جامع معاہدے کی حامی ہے، جس میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا اور تعمیر نو شامل ہو۔
قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی سے جنوری 2024 میں ایک عبوری جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہونے والی پندرہ ماہ سے زائد طویل جنگ کو وقتی طور پر روک دیا تھا۔
معاہدے کا پہلا مرحلہ تقریباً دو ماہ جاری رہا، جس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ تاہم دوسرے مرحلے پر اختلافات کے باعث یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اسرائیل اس کی توسیع چاہتا تھا، جب کہ حماس چاہتی تھی کہ بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہو، جس میں مستقل جنگ بندی اور فوجی انخلا شامل ہو۔
18 مارچ کو اسرائیل نے دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے اور امداد کی ترسیل روک دی۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس امداد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے، جب کہ حماس نے یہ الزام مسترد کر دیا۔ اقوامِ متحدہ نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا کہ غزہ اس وقت جنگ کے آغاز سے بد ترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔
اس سے قبل امریکی نیوز ویب سائٹ axios یہ بتا چکی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم نیتن یاہو سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جنگ بندی، یرغمالیوں کے معاہدے اور ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات پر گفتگو کی جا سکے۔
یہ فون رابطہ ایسے وقت متوقع ہے جب “حماس” نے اسرائیل کی ایک اور عارضی جنگ بندی تجویز کو رد کر دیا ہے … اور ایران و امریکہ کے درمیان روم میں نئی جوہری بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔
Post Views: 1