ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں امیگریشن پالیسی پر تنقید ‘ امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے پر زور
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 مارچ ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں امیگریشن پالیسی پر تنقید کی اور امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے پر زور دیا ‘ صدر کے خطاب کے آغاز میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سپیکر نے ڈیموکریٹ رکن ایل گرین کو اس وقت ایوان سے باہر نکال دیا جب وہ احتجاجاً اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور دوبارہ بیٹھنے سے انکار کر دیا.
(جاری ہے)
خطاب کے دوران ٹرمپ نے افغانستان سے انخلا کے دوران امریکی اڈے پر ہونے والے حملے کے مرکزی ملزم کی گرفتاری پر پاکستان کا ”خصوصی“ شکریہ ادا کیا انہوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے خط کا بھی تذکرہ کیا جس میں اس بات کی طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ یوکرین امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے . امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ایک بار پھر بنیاد پرست اسلامی شدت پسند قوتوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے ساڑھے تین سال قبل افغانستان سے امریکہ کے تباہ کن اور نااہل انخلاءکے دوران ایبی گیٹ پر داعش کے شدت پسندوں کے حملے میں 13 امریکی فوجی ہلاک اور لاتعداد افراد زخمی ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا کیا گیا وہ شاید ہمارے ملک کی تاریخ کا سب سے شرمناک لمحہ تھا آج مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نے اس حملے کے مرکزی ملزم کو پکڑ لیا ہے اور وہ امریکی انصاف کا سامنا کرنے کے لیے اپنے راستے پر ہے ان کا کہنا تھا کہ میں اس عفریت کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں انہوں نے کہا کہ یہ ان 13 خاندانوں کے لیے ایک بہت ہی اہم دن ہے جن کے پیارے اس حملے میں مارے گئے تھے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور زخمیوں سے رابطے میں ہیں اور آج فون پر ان سے بات ہوئی ہے. ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کے بعد امریکی خفیہ ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کشیپ پٹیل نے” ایکس “پر جاری ایک پیغام میں کہا کہ آج رات ایف بی آئی، ڈی او جے اور سی آئی اے ایبی گیٹ پر حملے کے ذمہ داردوں میں سے ایک کو واپس لے آئے ہیں ہمارے ناقابل یقین شراکت داروں اور بہادر ایف بی آئی اہلکاروں کا شکریہ جنہوں نے ایسا کیا آپ نے اپنے ملک کی شاندار نمائندگی کی. ادھر اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یورپ نے یوکرین کی جتنی مدد کی ہے اس سے کہیں زیادہ رقم روسی تیل کی خریداری پر خرچ کی ہے انہوں نے کہاکہ اس کے برعکس امریکہ نے یوکرین کو سینکڑوں ارب ڈالرز کی امداد دی ہے انہوں نے کہا کہ ان کی انتظامیہ کی جانب سے کینیڈا، میکسیکو، چین اور دیگر ممالک سے درآمد پر محصولات عائد کیے جانے کی وجہ سے امریکی معیشت کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے امریکی صدر نے ان تکالیف کو ”بدہضمی“ سے تشبیہ دی ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ گرین لینڈ کا امریکہ کا حصہ بننا نا گزیر ہے اور ان کی انتظامیہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے امریکی صدر کے خطاب کے دوران ڈیموکریٹ اراکین نے احتجاجی پوسٹرز اٹھا رکھے تھے کچھ ڈیموکریٹ اراکین صدر ٹرمپ کی تقریر ختم ہونے سے پہلے ہی اٹھ کر چلے گئے صدر ٹرمپ نے مشترکہ اجلاس کے خطاب کے اختتام پر کہا کہ امریکہ کے سنہری دور کا ابھی صرف آغاز ہے ان کے خطاب کے اختتام پر ری پبلکن قانون سازوں نے کھڑے ہو کر خوشی کا اظہار کیا اور ”فائٹ‘ فائٹ‘ فائٹ“ کے نعرے لگاتے ہوئے ہوا میں ہاتھ بلند کیے اس موقع پر ڈیموکریٹس اراکین باہر چلے گئے جبکہ ری پبلکن اراکین صدر سے مصافحہ کرنے لگے صدر ٹرمپ نے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں پانامہ کینال کو دوبارہ حاصل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت پانامہ کینال کو واپس حاصل کرے گی اور ہم نے اس پر پہلے ہی کام شروع کر دیا ہے ہم نے یہ کینال چین کو نہیں پانامہ کو دیا تھا اور ہم اسے واپس لے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ امریکیوں نے پانامہ کینال کو دوسروں کے لیے نہیں بلکہ امریکیوں کے لیے بنایا تھا لیکن دیگر لوگ اسے استعمال کر سکتے ہیں. صدر ٹرمپ نے روس کے ساتھ مذکرات پر گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ہماری روس کے ساتھ سنجیدہ بات چیت ہوئی ہے اور ہمیں مضبوط اشارے ملے ہیں کہ وہ امن کے لیے تیار ہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس کے دوران گولڈ کارڈ منصوبے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ گرین کارڈ کے مقابلے میں گولڈ کارڈ زیادہ بہتر ہے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ دنیا بھر سے ایسے کامیاب افراد کو امریکہ آنے کی اجازت دیں گے جو امریکہ میں روزگار کے مواقع پیدا کریں گے اور 50 لاکھ ڈالر کے کارڈ کے عوض ایسے افراد کے لیے امریکی شہریت کی راہ ہموار ہو گی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مشترکہ اجلاس امریکی صدر کے خطاب کے کے دوران کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
امریکہ دورے میں نیتن یاہو کی ترجیحات
اسلام ٹائمز: واضح ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں میں یہ مماثلت پائی جاتی ہے کہ وہ درپیش مسائل کے حل کے لیے شدت پسندانہ طریقوں پر انحصار نہیں کر سکتے اور بھاری قیمت کی حامل جنگ کا خطرہ مول لینے سے قاصر ہیں۔ لہذا یہ مفاہمت بنیادی طور پر نرم اور نیم سخت طریقوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ لبنان میں حزب اللہ کو بالواسطہ پیغام دے رہے ہیں کہ مزاحمتی حکمت عملی جاری رکھنے کے بجائے لبنان کے ساحل پر امریکہ کے ساتھ گیس کے معاہدے کریں اور جنوبی لبنان میں ٹرمپ کے اقتصادی منصوبے کو قبول کریں، یا یہ کہ نئے امریکی سفیر مشیل عیسی نے سرحدی علاقوں سے اسرائیل کے فوجی انخلا اور مقبوضہ علاقوں سے پسپائی کے بارے میں لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری سے بات چیت شروع کر دی ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اہم مسائل اور مشترکہ خدشات پر بات چیت کے لیے رواں سال کے آخری دنوں میں واشنگٹن جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ یہ دورہ ممکنہ طور پر ایک ہفتے تک جاری رہے گا جس میں نیتن یاہو کو متعدد اداروں سے مشاورت کرنے اور اپنی رابطہ کاری مہم کو حتمی شکل دینے کا موقع ملے گا۔ نیتن یاہو کے پاس ٹرمپ سے بات چیت کے لیے کئی ایشوز ہیں لیکن ان میں سے ایک ممکنہ طور پر زیادہ نمایاں اور مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ شام کا مسئلہ اور نیتن یاہو کی نظر میں مثالی معاہدے کے حصول میں ناکامی۔ اب تک کئی مہینوں سے شامی اور صیہونی حکام کے درمیان متعدد ملاقاتوں کے باوجود ایسا معاہدہ حاصل نہیں ہو پایا ہے۔ یہ ان اختلافی مسائل میں سے ایک ہے جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی حکام کی مرضی سے ہٹ کر اپنے انداز میں طے کرنے کے درپے ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026ء کے بجٹ کی منظوری دے کر اور قیصر پابندیوں کے حوالے سے چند سالہ عمل متعین کر کے ایک مختلف راستہ اختیار کیا ہے جبکہ وہ نیتن یاہو کو شام پر ایک حد سے زیادہ جارحانہ اقدامات انجام دینے کی اجازت بھی نہیں دے رہا۔ دوسری طرف لبنان میں اسلامی مزاحمت، خاص طور پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ اسرائیلی فوج خاص حالات کا شکار ہے اور زیادہ شدت کا حامل جنگی خطرہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ موجودہ طرز عمل بھی بے نتیجہ اور مہنگا ہے۔ دوسری طرف لبنان سے متعلق امریکہ کی دو اسٹریٹجک اور آپریشنل ترجیحات ہیں۔ اس کی پہلی ترجیح پورے لبنان پر غلبہ حاصل کرنے اور اسلامی مزاحمت اور شیعہ طاقت کو ختم کر کے انہیں کمزور کر دینے پر مبنی ہے۔
امریکہ اس مقصد کے لیے لبنان حکومت سے مذاکرات اور تعاون کرنے اور تمام مواصلاتی، بینکنگ، مالیاتی، فوجی، مصنوعی ذہانت، اور معلومات اکٹھا کرنے کے شعبوں کے انفرااسٹرکچر پر تسلط پیدا کرنے کے درپے ہے۔ آپریشنل میدان میں امریکہ کم لاگت کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے تاکہ اگر حزب اللہ کو غیر مسلح نہ بھی کیا جا سکے تو وہ اتنی کمزور پوزیشن میں چلی جائے جو امریکی پالیسیوں میں زیادہ رکاوٹ نہ بنے۔ یہ امریکی نقطہ نظر، نیتن یاہو اور غاصب صیہونی رژیم کی ان فوری اور اہم ضروریات سے زیادہ ذہانت آمیز ہے جو طاقت پر مبنی ہتھکنڈوں کے ذریعے اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ غزہ کے مسئلے میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنے منصوبے کے دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کروا کر اس کی پیش رفت ظاہر کرنا چاہتا ہے کیونکہ اب تک وہ دنیا میں قیام امن کا کوئی بھی بڑا معاہدہ کروانے میں ناکام رہا ہے۔
امریکی صدر غزہ میں ممکنہ امن معاہدے کی کامیابی کو بنیاد بنا کر مغربی ایشیا خطے میں علاقائی سطح کے ابراہیم معاہدے میں بھی بڑی پیش رفت چاہتا ہے۔ لیکن اس منصوبے کی تفصیلات پر نیتن یاہو اور ٹرمپ حکومت کے درمیان اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ مثال کے طور پر فلسطین اتھارٹی کو شریک کرنا یا اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے بین الاقوامی فورس کی تعیناتی یا حماس کے ساتھ بقائے باہمی وغیرہ پر ان میں بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس میں نیتن یاہو کے لیے بھی کوئی خاص فائدہ دکھائی نہیں دیتا جبکہ غزہ کے مسئلے میں متعدد کھلاڑیوں جیسے مصر، ترکی، قطر اور عرب اور یورپی ممالک کی شمولیت نے صیہونی رژیم اور خاص طور پر نیتن یاہو کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے جس سے اسے اپنی پوزیشن کسی حد تک کمزور محسوس ہو رہی ہے۔
غاصب صیہونی رژیم اندرونی پر بے شمار اور پیچیدہ قسم کے مسائل، چیلنجز اور بحرانوں سے روبرو ہے جنہوں نے نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر سایہ ڈال رکھا ہے۔ دوسری طرف نیتن یاہو سیاسی، سیکورٹی اور قانونی میدانوں میں شکست کھا کر ایک فاتح ہیرو کی حیثیت سے محروم ہونا نہیں چاہتا۔ چار مقدمات میں جاری سماعت، کابینہ کے اندر شدید اختلافات نیز وزراء اور فوجی اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تناو اور تقسیم، دو سالہ جنگ میں پیدا ہونے والے شدید معاشی مسائل اور وسیع علاقوں میں مالی نقصان، فوج کے حوصلے پست ہو جانا اور فوج کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جانا ان بحرانوں میں سے کچھ ہیں۔ یورپ یا سازباز کے حامی عرب ممالک سے تعلقات میں بنیادی چیلنج کابینہ میں انتہا پسند وزراء کا رویہ ہے۔ نیتن یاہو ان چیلنجز پر قابو پرنے کے لیے ٹرمپ سے تعاون پر مجبور ہے۔
واضح ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو دونوں میں یہ مماثلت پائی جاتی ہے کہ وہ درپیش مسائل کے حل کے لیے شدت پسندانہ طریقوں پر انحصار نہیں کر سکتے اور بھاری قیمت کی حامل جنگ کا خطرہ مول لینے سے قاصر ہیں۔ لہذا یہ مفاہمت بنیادی طور پر نرم اور نیم سخت طریقوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ لبنان میں حزب اللہ کو بالواسطہ پیغام دے رہے ہیں کہ مزاحمتی حکمت عملی جاری رکھنے کے بجائے لبنان کے ساحل پر امریکہ کے ساتھ گیس کے معاہدے کریں اور جنوبی لبنان میں ٹرمپ کے اقتصادی منصوبے کو قبول کریں، یا یہ کہ نئے امریکی سفیر مشیل عیسی نے سرحدی علاقوں سے اسرائیل کے فوجی انخلا اور مقبوضہ علاقوں سے پسپائی کے بارے میں لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری سے بات چیت شروع کر دی ہے۔