ماہ صیام اور مہنگائی کا طوفان
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک مزدور یا ملازم پیشہ آدمی زیادہ تعداد یا مقدار میں کوئی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کی جیب صرف چند ایک ہی اشیاء کی خریدنے کی استطاعت رکھتی ہے پر وہ بھی اس کو میسر نہیں ہوتی اور بلآخر جھک مار کر وہ بھی بے چارہ بازار میں بیٹھے ظالم دکان داروں کے ہاتھوں چار کی جگہ دو چیزیں لیے گھر کی راہ لیتا ہے۔
ماہِ رمضان میں جہاں برکتیں نازل ہوتی ہیں وہیں ملک کے بڑے شہروں میں تھوک کے حساب سے بھکاری بھی نازل ہو جاتے ہیں، کراچی پر ان کی یلغار قابلِ دید ہوتی ہے۔ بھانت بھانت کے بھکاری نظر آرہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح گلے کا ہار بن جاتے ہیں کہ آپ انہیں اتارے نہیں سکتے۔ کوئی دامن پکڑ رہا ہے، کوئی ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ رہا ہے تو بچّے ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں۔ ایک عجیب ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے مگر کچھ دیئے دلائے بغیر جان نہیں چھوٹتی۔ کچھ ایسی ہی حالت چندہ وصول کرنے والوں کی بھی ہوتی ہے، یہ حضرات بھی ماہِ رمضان میں برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں اور اپنے پاس ڈپٹی کمشنر سے منظور شدہ ’’چند سرٹیفیکیٹ‘‘ اور رسید بک بھی رکھتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ یتیم خانے کا چندہ، ختمِ قرآن کا چندہ، مسجد کی تعمیر کا چندہ، مدارس کا چندہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ بھی جونک کی طرح چمٹ جاتے ہیں، گھر گھر دروازہ اس طرح کھٹکھٹاتے ہیں جیسے کوئی عزیزِ خاص ملاقات کے لیے آیا ہے۔ آپ باہر نکلتے ہیں تو ماہِ رمضان کا واسطہ دے کر بڑے رقّت آمیز انداز میں چندے کے حصول کا مقصد بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں، ان کے الفاظ کچھ ایسے نپے تلے اور گھیرائو والے ہوتے ہیں کہ سب کچھ جاننے بُوجھنے کے باوجود آپ کو کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑ جاتا ہے۔ ماہ رمضان میں ایک اور مخلوق بھی منظرعام پر آکر اپنے وجود کا بھرپور انداز میں اظہار کرتی ہے اور یہ ہیں سحری میں جگانے والے۔ آج کل سحری کا وقت تقریباً پانچ بج کر چالیس منٹ تک ہے۔ ایک عام روزہ دار سوا چار بجے اٹھ کر اطمینان سے سحری کرسکتا ہے مگر یہ حضرات دو بجے سے سحری کے لیے بیدار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی ڈھول اور کنستر پیٹ رہا ہے، کوئی قوالی گا کر روزہ داروں کو اٹھانے کا فرض انجام دے رہا ہے اور کوئی دروازے پر ڈنڈے برسا کر چلا جاتا ہے۔
اس موقع پر ہمیں ابنِ انشاء مرحوم کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو انہوں نے اپنے کالم میں قلم بند کیا تھا۔ انہی کی زبانی سنیئے۔ ’’میں اس روز رات گئے تک کام کرتا رہا، خیال تھا کہ سحری اور نماز سے فارغ ہوکر سو جائوں گا۔ تقریباً دو بجے کا عمل ہوگا کہ دروازے کے باہر کچھ حرکت اور کھٹ پٹ سی محسوس ہوئی۔ میں باہر نکلا، دیکھا تو ایک شخص میری دیوار کے ساتھ سکڑا سمٹا بیٹھا ہے، میں سمجھا چور ہے لہٰذا کڑک کر پوچھا۔ کون ہے؟ وہ اٹھ کر میرے قریب آیا اور معصوم صورت بنا کر بولا جناب سحری کو جگانے والا ہوں۔ میں نے کہا اس وقت دو بجے ہیں اور تم ابھی سے سحری کے لیے جگانے آگئے ہو۔ کہنے لگا جناب کئی علاقے میری تحویل میں ہیں، اب سے شروع کروں گا تو وقتِ آخر سے کچھ وقت پہلے تمام علاقے نمٹا سکوں گا۔ میں نے کہا تو پھر جائو یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ بولا میں انتظار کررہا ہوں کہ آپ سو جائیں تو آپ کو اُٹھا کر جائوں۔‘‘
اس جیسے کئی دلچسپ واقعات اور بھی ہیں اور اللہ کے کرم سے ہر سال کوئی نا کوئی نیا واقع سننے کو مل ہی جاتا ہے اب دیکھنا یہ کہ اس ماہِ صیام ہمیں کیا کیا دیکھتا ہے بقول شخصے کے یہ دور تو ’’سوشل میڈیا‘‘ کا دور ہے اور اس میں ہر کام جدید طرز پر ہی کیا جاتا ہے اور اب بھیک اور چندہ مانگنا بھی ایک فن کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے کہ ‘‘جدید دور کے جدید تقاضے‘‘ اس کا نقصان صرف اور صرف ان سفید پوش افراد اور اداروں کو ہوتا ہے کہ جو حقیقی حق دار ہوتے ہوئے بھی خاموشی کی بکل مارے اپنی پناہ گاہ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کی مدد صرف اللہ رب العزت ہی کرتے ہیں اپنے خاص فضل و کرم سے۔
آپ سب سے بھی یہی استدعا کہ حقیقی حق دار افراد اور اداروں کو ہی اپنی زکوٰۃ، خیرات اور صدقات دینے کی کوشش کریں تاکہ ان تمام سفید پوش اداروں اور افراد کی داد رسی ہو پائے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اس ماہِ صیام کی تمام برکتیں، رحمتیں، مغفرتیں، بخششیں اور اپنی رضا عطا فرمائیں اور ہمیں اس ماہِ صیام کا پوری طرح حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جاتے ہیں کا چندہ جاتا ہے ہیں اور ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
جنس تبدیلی؛ اب کرکٹ میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں، والد کے الفاظ تھے
نومبر 2024 جنس تبدیل کروا کر لڑکے سے لڑکی بننے والی سابق بھارتی کرکٹر اور کوچ سنجے بانگر کی بیٹی انایا نے اپنے والد سے متعلق انکشافات کردیے۔
للّن ٹاپ کو دیئے گئے انٹرویو میں انایا بانگر نے بتایا کہ میرے والد نے مجھ پر واضح کردیا تھا کہ "اب کرکٹ میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں"۔
دوران انٹرویو انایا نے اپنے والد سے متعلق بات کرنے سے صاف انکار کردیا تاہم انہوں نے کہا کہ میرے والد نے مجھے دوٹوک انداز میں بتادیا تھا کہ اب کرکٹ میں میری کوئی جگہ نہیں، جس کے بعد مجھے خودکشی جیسے خیالات آنے لگے۔
https://www.express.pk/story/2732606/indian-former-cricketer-coach-son-transgender-girlانایا نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ پوری دنیا میرے خلاف ہوگئی ہے لیکن میرے خاندان نے مجھے سپورٹ کیا تاہم اسکے برعکس معاشرے اور کرکٹ سسٹم نے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے فیصلے کی وجہ سے قیمت کرکٹ سے محرومی کی صورت میں چکانی پڑی۔
https://www.express.pk/story/2757737/cricketers-sent-me-inappropriate-photos-of-themselves-former-indian-coachs-daughter-2757737قبل ازیں فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر سابق بھارتی کرکٹر اور کوچ سنجے بانگر کی بیٹی انایا (سابقہ نام: اریان) نے دعویٰ کیا تھا کہ کئی کرکٹرز نے انہیں جنس تبدیلی کے بعد اپنی فحش تصاویر بھیجیں۔
انایا کا مزید کہنا تھا کہ ایک فرد نے مجھے سرِعام گالیاں دیں اور پھر میری تصاویر مانگیں جبکہ ایک سینئر کرکٹر ایسی حرکت کی کوشش کی جو بتانا بھی نہیں چاہتی۔
مزید پڑھیں: سابق بھارتی کرکٹر کا بیٹا جنس تبدیل کروا کر لڑکی بن گیا
واضح رہے کہ انایا بانگر اپنی جنس تبدیل کروانے سے قبل بھارت کے نوجوان مشیر خان، سرفراز خان، یشسوی جیسوال جیسے کرکٹرز کیساتھ بھی کھیل چکی ہیں۔
یاد رہے کہ 22 سال تک ایک لڑکے کی حیثیت سے پلنے بڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے والے آریان نے 2023 میں ہارمون تھراپی کروانا شروع کیں اور 11 ماہ بعد ٹرانس جینڈر لڑکی بن گئیں۔