ٹیم میں تبدیلی ناگزیر مگر پاکستان کرکٹ کے پاس دستیاب وسائل کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ون ڈے فارمیٹ میں کھیلی جانے والی دنیائے کرکٹ کی ٹاپ 8ٹیموں پر مشتمل چمپئن ٹرافی کا معرکہ جاری ہے، فائنل فور سٹیج تک پہنچنے والی حتمی 4 میں سے 3 ٹیمیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سائوتھ افریقہ بی سی سی آئی پلس آئی سی سی کی مہربانی کی وجہ سے پاکستان اور دبئی کے درمیان جھولے جھولنے میں مصروف ہیں، مگر ایونٹ میں پاکستان کا انتہائی نا خوشگوار سفر ایک ہفتہ قبل ہی اختتام پذیر ہو گیا تھا۔
پاکستان کی ایونٹ میں حقیقی کارکردگی کا عکس وہ چارٹ ہے جس میں 8ٹیموں میں سے پاکستان آٹھویں نمبر پر موجود ہے اور یوں اس کی آئندہ چمپئن ٹرافی کیلئے کوالیفائی کرنے کی پوزیشن بھی داو پر ہے۔
حیرت انگیز طور پر اس بار ٹیم میں اکھاڑ بچھاڑ، کپتا ن کے استعفے،کوچ کو ہٹانے، سینئرز کو گھر بھیجنے جیسی مہم میں وہ تندہی نظر نہیں آ رہی، شاید اس کی وجہ یہ کہ ہم گزشتہ 3 سالوں میں 5چیئرمین کرکٹ بورڈ، 5کپتان اور متعدد کوچز تبدیل کر کے ‘تبدیلی پلان’ کیلئے دستیاب کوٹہ پہلے ہی پورا کر چکے ہیں، اور اب زیادہ بدلاو کی گنجائش ہی نہیں۔
پھر بھی درجن بھر ٹی وی چینلز پر بیٹھے سابق سٹارز، سوشل میڈیا سے لے کر گلی محلوں تک پھیلے لاکھوں،کروڑوں کرکٹ تجزیہ نگار کچھ نہ کچھ تبدیلی چاہتے ہی ہیں اور پی سی بی بھی اتنی بری کارکردگی ‘ٹھنڈے پیٹوں’ برداشت نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے پاس تبدیلی کیلئے کیا آپشن ہیں؟ سینئر کو اگر ہٹایا جائے تو ان کی جگہ لینے کیلئے دستیاب ٹیلنٹ کی نوعیت کیا ہے اور ڈومیسٹیک سرکٹ میں موجود وہ کون سے ایسے چہرے ہیں جنہیں فوری طور پر ٹیم میں شامل کیا جا سکتا ہے؟
سعید اجمل کے بعد پاکستان کو کوالٹی آف سپنر کی تلاشپاکستان کرکٹ ٹیم کو ہمیشہ سے ہی سپین ڈپارٹمنٹ میں اعلی پائے کے کھلاڑیوں کا ساتھ حاصل رہا ہے، مگر ایسا لگتا ہے یہ کہانی وسیم باری، عبد القار، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق، دانش کنیریا سے سعید اجمل تک آ کر تھم سی گئی ہے۔
کسی حد تک یاسر شاہ کو بھی اس کیٹگری میں رکھا جا سکتا ہے، مگر ان کی زیادہ تر صلاحیتیں ٹیسٹ میچز میں ہی کارآمد ثابت ہوئیں۔ حالیہ عرصے میں نعمان علی اور ساجد نے بھی 5 روزہ مقابلوں میں اپنا سکہ جمایا، مگر ون ڈے اور ٹی 20میں ان کی صلاحیتیوں سے استفادہ نہیں کیا گیا۔
دونوں کھلاڑیوں کی عمر اس وقت بالترتیت 38اور 31سال ہے، یعنی پاکستان زیادہ دیر ان سے استفادہ نہیں کر پائے گا۔ سعید اجمل وہ آخری سٹار سپنر تھے جنہیں حقیقی معنوں میں میچ وننگ سپنر قرار دیا جا سکتا ہے۔ انٹرنیشنل اُفق سے ان کے ہٹنے کے بعد پاکستان کو کوالٹی سپنر کی تلاش ہے۔
سفیان مقیم، 25سالہ سپنر جو پاکستان کیلئے ‘مسٹری’ ثابت ہو سکتے ہیںمسٹری سپنر سفیان مقیم نے اگر چہ پاکستان کی طرف سے زیادہ کرکٹ نہیں کھیلی، مگر وہ ایسا نام بھی نہیں جو ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔کشمیر سے تعلق رکھنے والے سفیان مقیم نے پاکستان کی جانب سے مختصر طرز کی کرکٹ میں 10میچز کھیل رکھے ہیں۔
انٹرنیشنل مقابلوں میں ان کی 20وکٹ ہی اصل میں مسٹری ہونے کا ثبوت ہیں۔ سفیان مقیم نے 9 ٹی20 مقابلوں میں 16وکٹیں، جبکہ ایک ون ڈے میں 4وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں، جو انہوں نے گزشتہ سال افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ میں حاصل کیں۔
پاکستان کے ڈومیسٹک سرکٹ میں سفیان مقیم کی شکل میں ایسا سپنر موجود ہے جو اس ڈپارٹمنٹ میں چھائے قحط کو ختم کر سکتا ہے۔ پی ایس ایل کی طرف سے کھیلنے والے مہران ممتاز کا نام بھی اِس لسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے، جنہیں ابھی تک پاکستان کی طرف سے کھیلنے کا موقع نہیں ملا، مگر محدود مواقع پر ان کی افادیت سامنے آ چکی ہے۔
صائم ایوب اچھی دریافت مگر قومی ٹیم کو ایک ڈیوڈ وارنر کی تلاش ہےپاکستان کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ مسائل نہ آج کے ہیں اور نہ ہی چمپئن ٹرافی کے حالیہ ایڈیشن میں سامنے آئے ہیں، بابر اعظم، محمد رضوان یا سعود شکیل کو یہ مسائل وراثت میں ملے، جب پاکستان کو میانداد، انضمام، محمد یوسف، سعید انوار جیسے ورلڈ کلاس بیٹرز کا ساتھ حاصل تھا تب بھی بیٹنگ لائن ‘چوک’ کر جا تی تھی۔
مگر ہر دور میں پاکستان کے پاس ایسے کارآمد بیٹرز کا ساتھ حاصل رہا ہے جو باقی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یعنی اس شعبے میں گرین شرٹس کا ہاتھ ہمیشہ سے ہی تنگ رہا ہے، مگر محدود وسائل کے باوجود پاکستان نے ٹیسٹ، ٹی20 اور ون ڈے میں ٹرافیز سمیت لاتعداد فتوحات اپنے نام کیں۔
ماضی قریب میں 2 انتہائی بھروسہ مند کھلاڑی مصباح اور یونس خان کی یکے بعد دیگرے رخصتی سے ایک خلا پیدا ہوا ہے، جو ابھی تک پُر نہیں کیا جا سکا۔
بابر اعظم کی شکل میں پاکستان کو ورلڈ کلاس بیٹر کی سہولت تو دستیاب ہے مگر ان کی اپنی حدود ہیں، جو ہمیشہ بڑے میچز کو جیتوانے میں آڑے آتی ہیں۔ حالیہ عرصے میں سامنے آنے والے صائم ایوب نے سب کو دم بخود کیا ہے مگر پاکستان کو ٹاپ آرڈر میں ایک ڈیوڈ وارنر کی تلاش ہے جو بائیں ہاتھ کے صائم ایوب کے ساتھ جوڑی بنا سکے۔
فہیم اشرف ،خوشدل شاہ کا متبادل ،عرفان خان نیازیپاکستان کو چمپئن ٹرافی میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس ہوئی وہ لوئر آرڈر میں تیز کھیلنے والے بلے باز کی ہے۔ دنیا کی تمام بڑی ٹیموں کو ایسے بیٹرز کی خدمات حاصل ہیں جو آخری اورز میں تیزی کے ساتھ 40,50 رنز ٹوٹل میں شامل کر سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کیلئے یہ کام میکسوئیل، انڈیا کیلئے جدیجا، اکشر پٹیل، ہاردک پانڈیا، افریقہ کیلئے ڈیوڈ ملر کر تے آ رہے ہیں۔ پاکستان ماضی قریب میں اس پوزیشن کیلئے محمد آصف، افتخار احمد، خوشدل شاہ، فہیم اشرف جیسے کھلاڑیوں کو استعمال کر چکا ہے مگر اس کے نتائج کچھ زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئے۔
پاکستان کو ڈومیسٹک سے عرفان نیازی کی صورت میں ہارڈ ہٹنگ بلے باز مل سکتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے 10ٹی 20 مقابلوں میں 140کے سٹرائیک ریٹ سے بنائے گئے ان کے رنز ثبوت ہیں کہ یہ بلے باز تیزی سے رنز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
کچھ ایسے نام جن پر سرمایہ کاری ضائع نہیں ہو گیپاکستان کے ڈومیسٹک سرکٹ میں موجود فیصل اکرم، خواجہ نافع، جہانداد خان، علی رضا، اذان اویس، عاکف جاوید، شاہ زیب خان، مبصر خان، عثمان خان، ہارون ارشد، عبدالسبحان کی صورت میں ایسے بیٹرز، بائولرز اور سپنرز دستیاب ہیں جو طویل المدتی پالیسی کے تحت پاکستان ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔
چمپئن ٹرافی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی نے بورڈ اور فیصلہ سازوں کو ایک موقع دیا ہے کہ وہ ڈومیسٹیک سرکٹ کے ان باصلاحیت کھلاڑیوں پر بھروسہ کریں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی گلی مصروفیت دورہ نیوزی لینڈ ہے جو انتہائی متوازن اور مکمل ٹیم یونٹ کی موجودگی میں کچھ آسان ثابت نہیں ہوگا۔ ایک مشکل دورے میں باصلاحیت کھلاڑیوں پر بھروسہ پاکستان کرکٹ کے متعدد مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ ٹیم میں پاکستان چمپئن ٹرافی مقابلوں میں پاکستان کی پاکستان کو پاکستان کے سفیان مقیم جا سکتا ہے کی طرف سے کی تلاش
پڑھیں:
پی ایچ ڈی کا موضوع لوٹا کیوں نہیں ہو سکتا؟
ایک خبر نظر سے گزری جس پر ابھی تک حیرانی نہیں جا رہی۔ یہ ایک خبر ہی نہیں ہے بلکہ فکر انگیز موضوع ہے۔ اس سے ہمارے محفوظ یا غیرمستحکم مستقبل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس خبر کے مطابق کراچی کے 80سال کے ایک بزرگ نے کراچی کی فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی یے جس کا موضوع ’’کراچی میں ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت اور سامعین‘‘ تھا۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور ملک بھر میں نمایاں ہوئی ہے تو سچی ہی ہو گی۔ لیکن دل ابھی تک نہیں مان رہا ہے کہ اس موضوع پر بھی کوئی کارآمد تھیسز لکھا یا لکھوایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اہل علم اور سرکردگان فکری طور پر اس قدر تشنہ تکمیل اور کسمپرسی کا شکار ہو سکتے ہیں اس کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا ہے۔ شائد یہ ہماری قومی تعلیمی ترقی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کا پہلا واقعہ ہے کہ اس طرز کے کسی فضول اور لایعنی موضوع پر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی ہے! بہتر ہوتا کہ موصوف نے پی ایچ ڈی ہی کرنی تھی تو اس موضوع پر تین چار سال مغز ماری کرنے کی بجائے وہ کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جعلی ڈگری ہی خرید لیتے۔
ہاں یہ واقعہ پی ایچ ڈی کے 80سالہ طالب علم کے لئے قابل فخر ضرور ہے کہ انہوں نے اپنے علم و تحقیق کا شوق پورا کرنے کے لئے عمر کے اس حصے میں یہ غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس مد میں ان کی تحقیق کے شوق اور محنت کو تو سراہا جا سکتا ہے مگر موضوع کے انتخاب پر وہ کسی داد کے مستحق نہیں ہیں۔ اس خبر کے مطابق صاحب کی صحت ٹھیک نہیں تھی، انہیں مختلف اوقات میں چار دفعہ ہارٹ اٹیک اور ایک بار فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالب علم کے علمی عزم اور استقلال کو ہم بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ لیکن جنہوں نے پی ایچ ڈی کے لیئے اس موضوع کو منظور کیا ان کی عقل و بصیرت پر حیرت ہے کہ وہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کروا کر قوم و ملک اور دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔
تعلیمی دنیا میں پی ایچ ڈی ایک تحقیقی مقالہ ہوتا ہے جس میں کسی ایک خاص موضوع کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کروا کر اس کے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں بھی 5,000 سے زائد افراد(مرد و خواتین) نے حصہ لیا، اور اس میں انہوں نے ایف ایم ریڈیو کے سیاسی شعور، آفات سے متعلق آگاہی، ثقافت اور زبان پر اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی آرا پیش کیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اردو زبان کی وسعت یا متاثر کن گفتگو کے آداب وغیرہ کے کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھواتے، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم علم و تحقیق کے میدان میں بھی اتنے ہی کرپٹ ہیں جتنے زندگی کے دوسرے معاملات میں ہیں یعنی آپ چاہیں تو کوئی سورس (جگاڑ) لگا کر اپنی کاروباری برانڈ پر بھی تحقیقی مقالہ لکھوا کر کسی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلوا سکتے ہیں یعنی ڈگری کی ڈگری اور کاروبار کا کاروبار!پی ایچ ڈی ہولڈر کو فلاسفی کا ڈاکٹر بھی کہا جاتا ہے۔ علمی کامیابی کی سب سے بڑی سطح پی ایچ ڈی (ڈاکٹر آف فلاسفی)ہے، جو کہ ڈاکٹریٹ کی تحقیقی ڈگری ہے۔ اس کا مطلب فلسفہ کا ڈاکٹر ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو وہ اس میں خود کو غرق کر دیتا ہے، اس کی مکمل چھان بین کر کے اس کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتا ہے، اس کے سیاق وسباق سے آگہی حاصل کرتا یے اور پھر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی تحقیق کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس امیدوار کا لکھا ہوا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاس ہو جاتا ہے وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا اضافہ کر سکتا ہے۔
عام میڈیکل ڈاکٹر وہ شخص ہوتا ہے جو کسی بیمار کے مرض کی تفتیش اور تشخیص کرتا ہے اور مریض کی جانچ پڑتال کے بعد اس کی صحت کی بحالی کے لئے دوا لکھ کر دیتا ہے۔ ہمیں زوال سے نکلنے کے لئے اپنے ہر شعبے میں پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ تشخیص کریں اور ہمیں بتائیں کہ ہمارے زوال کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
میرے خیال میں وہ شخص جو جنون کی حد تک اپنے مضمون سے پیار نہیں کرتا، اس میں خود کو کھو نہیں دیتا اور جسے اپنے مضمون پر مکمل عبور اور دسترس نہیں ہوتی وہ حقیقی معنوں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر کہلانے کا حق دار نہیں ہو سکتا ہے۔ اصل میں پی ایچ ڈی ہولڈر صحیح معنوں میں اسی وقت ڈاکٹر کہلاتا ہے جب وہ اپنے موضوع کا ایک سپیشلسٹ کی طرح ’’ایکسپرٹ‘‘ ہو جاتا ہے۔
ہماری پی ایچ ڈی ڈگریوں کی یونہی تنزلی جاری رہی تو آئندہ تاریخ کی پی ایچ ڈی کا عنوان ہو گا، ’’سکندر اعظم نے دنیا کو فتح کرنے کی بجائے ڈانس کی کلاس میں داخلہ کیوں نہ لیا‘‘ یا اردو زبان کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ہو گا، ’’بہادر شاہ ظفر کو اردو شعرا کے مشاعرے کروانا کیوں پسند تھے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب سرسید احمد خان نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور علامہ اقبال ؒنے ’’اسلامی عقیدے کی تشکیل نو‘‘ کے تحقیقی موضوعات پر خامہ فرسائی کی تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ اجاگر ہوا اور ’’اسلامی مملکت خداداد‘‘ وجود میں آئی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر پاکستان اب تک قائم ہے تو ہمارے علمی موضوعات ایسے ہونے چایئے کہ جس سے پاکستان دنیا کی ’’سپر پاور‘‘ بن سکے۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس پر غور کرنا چایئے کہ وہ تعلیمی نصاب اور موضوعات کی سمت درست کرنے کی طرف توجہ دیں۔ اگر ہماری علمی اور تعلیمی تنزلی یونہی جاری رہی تو کچھ بعید نہیں کہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے لیئے کسی کو اگلا موضوع ’’لوٹا کریسی‘‘ ہی نہ دے دیا جائے۔ اگر ریڈیو ایف ایم پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے تو سیاسی لوٹوں پر پی ایچ ڈی نہ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟