بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا کسی صورت گالی نہیں، انڈین سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
نئی دہلی (نیوزڈیسک)خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس عمل کو عام طور پر بھارتی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کے لیے گالی کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے، مسلمانوں کو کم محب الوطن ہونے کا طعنہ دینے کے لیے اکثر ’پاکستانی‘ ہونے کا طنز کیا جاتا ہے، جس سے انہیں تکلیف پہنچتی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ گو کہ یہ عمل گالی یا جرم نہیں لیکن یہ کہنا بھی ’اچھی بات نہیں‘ ہے۔دیکھا جائے تو بھارتی عدالت ٹھیک ہی کہتی ہے، ہندو دائیں بازو کے لیے کسی کو ’پاکستانی‘ کہنے کا مطلب ہے کہ وہ سچے محب وطن نہیں، اور راہول گاندھی کو پاکستانی کہا گیا، لہٰذا سختی سے کہا جائے تو یہ کوئی مذہبی تضحیک نہیں، لیکن پھر بھی یہ نفرت انگیز تقاریر کے مترادف ہے، تاہم بھارتی سپریم کورٹ ایسا نہیں سمجھتی۔
انڈین سپریم کورٹ نے فراخدلی سے کہا کہ یہ ریمارکس ’ناقص‘ تھے، چنانچہ بینچ نے ایک سرکاری ملازم کے خلاف ’پاکستانی‘ اور ’میاں تیان‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کے ملزم کے خلاف کیس بند کرنے کا حکم جاری کر دیا، اس فیصلے سے ’گالیوں‘ کے سیلاب کا خطرہ ہے، جو ’ذائقے‘ میں اچھا نہیں ہوگا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ’ناقص ذائقے‘ اور نفرت انگیز تقاریر کے درمیان غیر ضروری حد کھینچی ہے۔جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس ستیش چندر شرما کے بینچ نے سرکاری ملازم کے خلاف بات کرنے والے ملزم کے کیس کو بند کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے تھے۔
شکایت کنندہ ضلع جھارکھنڈ کے چاس میں واقع سب ڈویژنل دفتر میں رائٹ ٹو انفارمیشن کے لیے اردو مترجم اور قائم مقام کلرک تھا۔اس معاملے میں ملزم ہری نندن سنگھ نے ایڈیشنل کلکٹر سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات مانگی تھیں۔
اپیلیٹ اتھارٹی نے شکایت کنندہ (ایک مسلمان) کو ہدایت کی تھی کہ وہ سنگھ کو آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی معلومات ذاتی طور پر فراہم کرے۔شکایت کنندہ کے مطابق جب وہ معلومات دینے سنگھ کے گھر گیا، تو سنگھ نے مبینہ طور پر اس کے مذہب کا حوالہ دے کر اس کے ساتھ بدسلوکی کی۔
عدالتی حکم کے مطابق سنگھ نے مبینہ طور پر اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے دوران ان کے خلاف مجرمانہ طاقت کا استعمال کیا، جس کا مقصد انہیں ڈرانا دھمکانا اور سرکاری ملازم کے طور پر اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنا تھا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ پر حملے بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش ہے، کانگریس
کانگریس لیڈر کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ آئین کی حفاظت کر رہی ہے لیکن بی جے پی کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ اسکا اصل مسئلہ سپریم کورٹ سے نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین سے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا اور چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف بی جے پی رکن پارلیمان نشی کانت دوبے کے بیان پر سیاسی ہنگامہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر پون کھیڑا نے کہا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی اور سازش ہے۔ انہوں نے براہ راست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا ہے کہ دوبے اور نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ اس طرح کے بیانات وزیر اعظم کی خاموش منظوری کے بغیر نہیں دے سکتے۔ پون کھیڑا نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ بی جے پی کی طرف سے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پر حملہ ایک تجرباتی سیاسی حملہ ہے، جو اس لئے کیا جا رہا ہے کیونکہ سپریم کورٹ بی جے پی کے غیر آئینی اقدامات پر روک لگا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ آئین کی حفاظت کر رہی ہے لیکن بی جے پی کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ اس کا اصل مسئلہ سپریم کورٹ سے نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ، پلیسز آف ورشپ ایکٹ اور اپوزیشن ریاستوں میں گورنروں کے کردار جیسے معاملات پر بی جے پی کو اس لئے تکلیف ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کے سیاسی عزائم پر روک لگا دی ہے۔ تاہم پون کھیڑا کی اصل توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ یہ سب بیانات ایک خاص مقصد کے تحت دیے جا رہے ہیں اور وزیر اعظم کی خاموشی خود ایک سوال بن چکی ہے۔
اپنے ویڈیو بیان میں بھی پون کھیڑا نے نشی کانت دوبے کے بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی واقعی عدالت کی آزادی اور احترام پر یقین رکھتی ہے تو دوبے پر کیا کارروائی کی گئی ہے، کیا انہیں شوکاز نوٹس دیا گیا، کیا ان سے وضاحت طلب کی گئی، اگر نہیں، تو کیا ہم یہ مان لیں کہ بی جے پی اس بیان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ پون کھیڑا نے مزید کہا کہ بی جے پی کی سیاست اب عدالت عظمیٰ کو بھی نشانہ بنانے لگی ہے، کیونکہ وہ اس کی راہ میں آئینی رکاوٹ بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض چند افراد کے بیانات نہیں، بلکہ آئین کے خلاف ایک ذہن سازی کی مہم ہے۔
اس درمیان معروف وکیل انس تنویر نے نشی کانت دوبے کے خلاف سپریم کورٹ میں فوجداری توہین عدالت کی کارروائی کے لئے اٹارنی جنرل کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے دوبے کے بیان کو انتہائی توہین آمیز اور عدالت کی ساکھ کو مجروح کرنے کی دانستہ کوشش قرار دیا۔ انس تنویر کا کہنا ہے کہ دوبے نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر قانون سپریم کورٹ کو ہی بنانا ہے تو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو بند کر دینا چاہیئے، جو آئینی اداروں کے درمیان عدم توازن پیدا کرنے والی بات ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو مبینہ طور پر ملک میں خانہ جنگی کا ذمہ دار ٹھہرانے پر بھی سخت اعتراض کیا اور کہا کہ یہ بیان نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ ملک کی عدلیہ کے وقار کے لئے خطرناک بھی ہے۔
اس معاملے پر کانگریس کے دیگر لیڈران بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ جے رام رمیش نے بی جے پی کی وضاحت کو صرف ڈیمیج کنٹرول قرار دیا اور کہا کہ صرف زبانی فاصلہ بنانے سے کچھ نہیں ہوگا، بی جے پی کو واضح کرنا ہوگا کہ وہ آئین کے ساتھ کھڑی ہے یا ایسے بیانات دینے والے افراد کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی قیادت اس بڑھتے دباؤ کا جواب کس انداز میں دیتی ہے اور آیا نشی کانت دوبے کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کا مطالبہ واضح ہے کہ سپریم کورٹ پر حملے بند ہوں اور بی جے پی کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہو۔