رمضان المبارک اور ہمارے رویے
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اللہ تعالیٰ کی رحمت رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آپہنچا۔ ایک ایسا مہینہ جو عبادات کرنے، پرہیز گاری اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ بننے کا مہینہ ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ اس متبرک مہینے میں ہمیں اچھائی کے بجائے عمومی سطح پر برائی زیادہ نظر آتی ہے۔
رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی سڑکوں پر لڑائی جھگڑے دیکھنے کو ملتے ہیں، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی ہوتی ہے اور رمضان کے تقدس کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ معمولی معمولی غلطیوں پر لوگ ایک دوسرے کے دست و گریباں ہوجاتے ہیں اور کسی قسم کی کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جاتی۔ اس دوران لڑائی روکنے والے کم اور تماشائیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو مارکٹائی کا لائیو شو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
رمضان المبارک کے آتے ہی بازاروں میں رمضان کےلیے اشیائے خورونوش کی خریداری بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اس طرح کھانے کی چیزوں کی خریداری کر رہے ہوتے ہیں جیسے آخری مرتبہ چاول، دالیں، گھی، آٹا اور دیگر اشیا خرید رہے ہوں۔ دوسری طرف ذخیرہ اندوزی کا ایک بازار گرم ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں مقدس مہینے کے موقع پر چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے لیکن ہمارے ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہے اور ہر چیز بشمول آلو، پیاز، ٹماٹر، دہی، سلاد، لیموں، سبزیاں، گوشت، مرغی سبھی مہنگا تو کیا مہنگا ترین ہوجاتا ہے۔
اب آجاتے ہیں افطار پارٹیوں پر، سحری اور افطار پارٹیوں میں پلیٹوں میں اتنا کھانا بھر لیا جاتا ہے گویا صدیوں کے بھوکے پیاسے ہوں۔ اتنا زیادہ کھانا ضائع کردیا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ افطاری اور سحری میں جو دھکم پیل ہوتی ہے وہ ایک الگ کہانی ہے، پھر سحری اور افطاری کے منتظمین رمضان سے پہلے ہی چندہ مہم شروع کر دیتے ہیں۔ اتنا سحری اور افطاری نہیں دی جاتی جتنا اپنی جیبیں بھر لی جاتی ہیں اور پورے سال کی کمائی ایک ہی ماہ میں ہوجاتی ہے۔
ہمارا عمومی رویہ بن گیا ہے کہ رمضان کو عبادت کے بجائے کھانے پینے کا مہینہ بنا لیا گیا ہے۔ روزہ روزانہ پکوڑوں، سموسوں، چاٹ، پھینی، آلو اور قیمے کے پراٹھوں، جلیبی کچوری کے بغیرسادہ سالن کے ساتھ بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن دیکھا جائے تو سب افراد کا کھانے پر زور زیادہ رہتا ہے۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ عید کے دنوں میں ڈاکٹرکے پاس بھاگنا پڑتا ہے اور بھاری فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔
رمضان ہو اور ہم رمضان ٹرانسمیشن کو بھول جائیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ نئے نئے ستارے جنہیں آپ عام دنوں میں ہر طرح کا جگمگاتا دیکھتے ہیں، وہ رمضان المبارک میں عظیم مبلغ اور اسلامی شخصیات کا روپ دھارکر سامنے آتے ہیں اور اس طرح نیکی اور اچھائی کا درس دیتے ہیں کہ انسان کو اپنا آپ ہی سب سے گناہگار لگنے لگتا ہے۔
لوگوں کا رمضان میں تفریح کی طرف بھی زیادہ رحجان ہو جاتا ہے۔ کئی افراد کو میں نے دیکھا کہ وہ رمضان میں وقت گزاری کےلیے فلمیں دیکھ کر وقت گزارتے ہیں جبکہ یہی وقت عبادت الٰہی میں گزارنا چاہیے۔ رمضان میں خیرات کے مستحق افراد تک امداد نہیں پہنچ پاتی اور پیشہ ور حضرات اپنی جیبیں بھر لیتے ہیں۔ کئی افراد یہ امداد کا راشن کریانے کی دکانوں پر بیچ کر پیسے بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
رمضان المبارک میں ہم اخلاقی برائیوں میں بھی مبتلا رہتے ہیں جبکہ روزہ تو پورے جسم کا ہے صرف پیٹ کا نہیں، بلکہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ سب چیزوں کا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو رمضان المبارک برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے لیکن ہمارے اجتماعی رویے، ہمارے افعال، ہمارا کردار ہمیں بطور مسلمان اس مہینے کی برکتوں سے مستفید نہیں ہونے دیتا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔
ماہ رمضان جو سال بعد آتا ہے ہمیں اپنے کردار میں سدھار کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں وقت فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو قرآن و سنت کی روشنی میں ڈھال سکیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم رمضان کی اصل روح کو سمجھیں اور اس مہینے کی برکتوں سے استفادہ کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رمضان المبارک ہوتی ہے جاتا ہے
پڑھیں:
کینال منصوبہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کیلیے نکلیں گے، وزیراعلیٰ سندھ
کراچی:وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کینال منصوبہ اگر ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر احتجاج کے لیے نکلیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا کہ سندھ کے عوام کے مفاد کے خلاف کوئی منصوبہ منظور نہیں کیا جائے گا اور وہ کینال منصوبے کو روکنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جو ہر مذہب، ہر ذات اور ہر برادری کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ منصوبہ کسی نے بھی بنایا ہو، لیکن سندھ حکومت نے اسے منظور نہیں ہونے دیا۔ کینالز پر نہ ہونے کے برابر کام ہوا، وہ بھی جولائی میں۔ اگر یہ معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تو ہم احتجاج کے لیے نکلیں گے۔۔
انہوں نے کہا کہ کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہے لیکن کسی کے ہاتھوں میں بھی نہیں کھیل رہے۔ یہ اجتماعی مقصد ہے اور ہمیں کینال منصوبے کو روکنا ہے کیونکہ یہ ملک کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ وکلا برادری جمہوریت کی بحالی میں پہلے بھی شراکت دار رہی ہے، اب بھی وہ ہمارے ساتھ ہیں۔انہوں نے وکلا کی کینالز کے خلاف جدوجہد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہم اپوزیشن جماعتوں اور قوم پرست تنظیموں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ احتجاج ضرور کریں مگر عوام کو تکلیف نہ پہنچائیں، سڑکیں بند نہ کریں۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ کینالز نہیں بنیں گی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت اب تک اس منصوبے کو ختم کیوں نہیں کر رہی؟ وزیر خزانہ نے 19 اپریل کو خط بھیجا کہ سندھ اپنا این ایف سی نمائندہ تجویز کرے، ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ 14 ماہ بعد وفاقی حکومت نے قومی مالیاتی کمیشن کے نمائندے مانگے ہیں۔
مراد علی شاہ نے کسانوں کی حالت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے فارمرز بھی اگلے سال گندم نہ اگانے کا سوچ رہے ہیں۔ چین میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 60 سے 65 من ہے، ہمیں بھی ٹیکنالوجی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کپاس کی پیداوار بڑھا نہیں سکے اور اب ریگستان کو آباد کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھارت کے اندرا کینال کے نتائج چیٹ جی پی ٹی سے چیک کر لیں۔ نئی نہروں کے لیے اضافی پانی موجود ہی نہیں ہے۔ ان شا اللہ ہم یہ منصوبہ واپس بھی لیں گے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم سندھ کے تحفظات کا احترام کریں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ انگریز دور میں بھی زیریں علاقوں کے مفاد میں بالائی علاقوں کے کینال منصوبے مسترد کیے گئے تھے۔ آخر میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ وزیراعظم انصاف پر مبنی فیصلہ کریں گے۔