پیکا ایکٹ کیخلاف درخواست؛ اٹارنی جنرل آف پاکستان معاونت کیلیے عدالت طلب
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اسلام آباد:
پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست پر عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو معاونت کے لیے طلب کرلیا۔
پیکا ایکٹ ترمیم 2025ء کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو معاونت کے لیے طلب کرلیا۔
جسٹس انعام امین منہاس کے روبرو ہونے والی سماعت میں درخواست گزار وکیل عادل عزیز قاضی پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کی اور درخواستیں بھی ہیں، اس پر بھی وہی آرڈر کردیتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ پی ایف یو جے،اسلام آبادہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور دیگر درخواستیں بھی اسی سلسلے میں زیر سماعت ہیں۔ عدالت نے تینوں درخواستیں17 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کررکھی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عدالت نے
پڑھیں:
جعلی و غیر ضروری کیسز کا خاتمہ؛ مقدمے کیلیے درخواست گزار کا عدالت آنا لازمی قرار
لاہور:ہائی کورٹ نے جعلی و غیر ضروری کیسز کے خاتمے کے لیے درخواست گزار کا مقدمات کے لیے عدالت آنا لازمی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے پنجاب کی ماتحت عدالتوں میں جعلی اور غیر ضروری مقدمات کی روک تھام کے لیے بڑا اور تاریخی فیصلہ سنا دیا۔
عدالتی فیصلے کے بعد اب مدعی یا درخواست گزار کو خود عدالت میں پیش ہونا لازم ہوگا اور بائیو میٹرک کے بغیر کوئی بھی کیس درج نہیں ہوسکے گا۔ فیصلے کے مطابق پنجاب بھر کی ماتحت عدالتوں میں اب کسی بھی قسم کا مقدمہ دائر کرنے کے لیے مدعی کی بائیو میٹرک تصدیق لازمی قرار دی گئی ہے۔
درخواست گزار کی تصویر بھی ویب کیمرے سے لی جائے گی تاکہ کسی اور کی جگہ مقدمہ دائر نہ ہو سکے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کی منظوری کے بعد کیا۔ اس سلسلے میں پنجاب کے تمام سیشن ججز کو باقاعدہ مراسلہ بھجوا دیا گیا ہے۔
مراسلے میں مقدمات دائر کرنے کے نئے ایس او پیز بھی جاری کر دیے گئے ہیں، جس کےمطابق اب درخواست گزار کو عدالت میں اسپیشل کاؤنٹر پر جا کر بائیو میٹرک تصدیق کروانا ہوگی۔
وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل عرفان صادق تارڑ نے چیف جسٹس کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے جعلی اور بے بنیاد کیسز کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس نظام سے عدالتی وقت اور وسائل کا ضیاع کم ہوگا اور انصاف کی فراہمی میں شفافیت بڑھے گی۔