ویب ڈیسک — 

واشنگٹن میں قائم ٹیکس فاؤنڈیشن کا اندازہ ہے کہ نئے محصولات سے امریکہ کو سالانہ تقریباً 100 ارب ڈالر کی اضافی آمدنی حاصل ہو گی۔

بلوم برگ اکنامکس کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی درآمدات کا تقریباً نصف جو ایک اعشاریہ 3 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے، تین ملکوں کینیڈا، چین اور میکسکو سے آتا ہے۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے ان ممالک سے امریکہ میں مجموعی درآمد لگ بھگ 15 فی صد تک کم ہو جائے گی۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر اضافی محصولات عائد کیے جانے کے فوری ردعمل میں چین نے امریکہ سے درآمد کی جانے والی تقریباً 21 ارب ڈالر مالیت کی زرعی اور غذائی مصنوعات پر منگل کو اضافی محصولات عائد کرنےکا اعلان کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ بیجنگ نے قومی سلامتی کی بنیاد پر 25 امریکی کمپنیوں کی برآمدات اور سرمایہ کاری پر بھی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین پر انتہائی دباؤ ڈالنے کی کوشش ایک غلطی اور غلط اندازوں پر مبنی اقدام ہے۔

چین کے تازہ ترین جوابی اقدامات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت پر 4 مارچ سے 10 فی صد اضافی محصولات عائد کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آئے ہیں۔




نئے محصولات سے چین پر عائد ٹیکسوں کی شرح مجموعی طور پر 20 فی صد ہو گئی ہے جس کے بار ے میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ منشیات کا بہاؤ روکنے میں چین کی بے عملی کا ردعمل ہے۔

منگل کو، یو ایس چائنا بزنس کونسل (USCBC) نے فینٹینیل کی غیر قانونی تجارت سے نمٹنے کے ٹرمپ کے ہدف کی تعریف کی، لیکن کہا کہ چینی مصنوعات پر محصولات بڑھانا اس مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ کو اب بھی محصولات کے معاملے میں گفت و شنید کی توقع ہے اس لیے اس نے اپنے محصولات 20 فی صد سے کم رکھے ہیں تاکہ کسی معاہدے کے لیے بات چیت کی گنجائش نکل سکے۔

چین کی سیاست اور معیشت سے متعلق ایک تجزیاتی گروپ ،ٹریویہم چائنا(Trivium China) کی زرعی امور کی تجزیہ کار ایون پے کا کہنا ہے کہ چین کی حکومت یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ صورت حال کو بڑھانا نہیں چاہتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ابھی ہم ٹرمپ کے دوسرے عہد کی تجارتی جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہیں اور اگر ٹرمپ اور صدر شی کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو اس جنگ سے بچا جا سکتا ہے۔







No media source currently available

نئے عائد کیے جانے والے محصولات ہزاروں چینی مصنوعات پر پہلے سے نافذ ٹیرف میں اضافے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مصنوعات پر پچھلے سال سابق صدر جو بائیڈن نے ٹیکس عائد کر دیے تھے جن میں سب سے زیادہ اضافہ سیمی کنڈکٹرز پر ڈیوٹی کو بڑھا کر 50 صد اور الیکٹرک گاڑیوں پر 100 فی صد محصولات عائد کرنا شامل تھا۔

نئے 20 فی صد محصولات سے امریکہ میں بڑے پیمانے پر صارفین کے استعمال کی الیکٹرانک مصنوعات بھی متاثر ہوں گی، جنہیں اس سے قبل چھوا نہیں گیا تھا۔ ان میں اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپ،ویڈیو گیم کے کنسولز، سمارٹ گھڑیاں ، اسپیکرز اور بہت سے دوسرے آلات شامل ہیں۔

چین نے اپنے فوری ردعمل میں 10 مارچ سے امریکی چکن، گندم، مکئی اور کپاس پر 15 فی صد اور امریکی سویابین، جوار، گوشت ، آبی پراڈکٹس، پھلوں، سبزیوں اور دودھ کی درآمدات پر 10 فی صد اضافی محصول عائد کر دیا ہے۔

چین امریکہ کی زرعی پیداوار کی سب سے بڑی منڈی ہے اور یہ شعبہ تجارتی تناؤ کا بطور خاص نشانہ بنتا رہا ہے جس کے باعث چین میں امریکی زرعی سامان کی درآمد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ یہ درآمدات 2022 میں تقریباً 43 ارب ڈالر تھیں جو 2024 میں کم ہو کر لگ بھگ 29 ارب ڈالر رہ گئیں۔







No media source currently available

چونکہ امریکہ اور چین نے ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں ایک دوسرے کے خلاف محصولات عائد کیے تھے، جس کے نتیجے میں بیجنگ نے اندرون ملک زرعی پیداوار بڑھا کر اور برازیل جیسے دیگر ممالک سے خریداریوں کے ذریعے امریکی زرعی پراڈکٹس پر اپنا انحصارکم کر دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسی طرح امریکی زرعی برآمد کنندگان بھی چینی مارکیٹ کے متبادل کے طور پر جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور بھارت کی منڈیوں میں اپنا تجارتی سامان بھیج سکتے ہیں۔

ان امریکی اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض معاشی ماہرینِ نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ٹیرف کے باعث امریکہ میں مہنگائی اور دیگر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

اپنے حالیہ بیانات میں ٹرمپ یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ٹیرف کے نفاذ سے امریکیوں کو تکلیف اٹھانا پڑ سکتی ہے۔ لیکن ان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ عارضی نوعیت کی مشکلات ہیں اور آخرِ کار امریکہ کی معیشت کو ان کے اقدامات سے فائدہ پہنچے گا۔

ٹرمپ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ درآمدات پر محصولات عائد کرنے سے مصنوعات تیار کرنےوالی کمپنیوں کی امریکہ میں پروڈکشن کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور امریکہ میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

(اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ محصولات عائد مصنوعات پر امریکہ میں محصولات سے سے امریکہ ارب ڈالر کی زرعی

پڑھیں:

امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) صدر ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں ان کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہزاروں افراد ملک بھر میں منعقدہ درجنوں تقریبات میں سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے ٹرمپ کی جارحانہ امیگریشن پالیسیوں، بجٹ میں کٹوتیوں، یونیورسٹیوں، نیوز میڈیا اور قانونی اداروں پر دباؤ سمیت یوکرین اور غزہ کے تنازعات سے نمٹنے کی پالیسی کی مذمت کی۔

اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ نے ارب پتی ایلون مسک کے ساتھ مل کر حکومتی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کی ہیں۔ انہوں نے دو لاکھ سے زیادہ وفاقی ملازمین کو فارغ کیا اور اہم وفاقی ایجنسیوں جیسے کہ USAID اور محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں پر تنقید

ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی ریلیاں گروپ 50501 کی قیادت میں منعقد کی جا رہی ہیں، جس کا مطلب پچاس ریاستوں میں پچاس مظاہرے اور ایک تحریک کی نمائندگی کرنے والوں کا اتحاد ہے۔

(جاری ہے)

یہ گروپ اپنی احتجاجی ریلیوں کو "ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے ساتھیوں کے جمہوریت مخالف اور غیر قانونی اقدامات کا ایک ردعمل قرار دیتا ہے۔"

ایک احتجاجی ریلی میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ شریک اسی سالہ تھامس باسفورڈ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل اس ملک کی اصلیت کے بارے میں جانیں۔ ان کے بقول، آزادی کے لیے امریکہ میں یہ ایک بہت خطرناک وقت ہے۔

"بعض اوقات ہمیں آزادی کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔" 'امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں'

مظاہرین نے ٹرمپ کی ملک بدری کی پالیسیوں کا نشانہ بننے والے تارکین وطن کے لیے حمایت کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان وفاقی ملازمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا جنہوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی تھیں۔ انہوں نے ان یونیورسٹیوں کے حق میں بھی آواز بلند کی جن کے فنڈز میں کٹوتی کا خطرہ ہے۔

نیویارک میں مظاہرین نے "امریکہ میں کوئی بادشاہ نہیں" اور "ظالم کے خلاف مزاحمت" جیسے نعروں کے ساتھ مارچ کیا۔

دارالحکومت واشنگٹن میں لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ ٹرمپ جمہوریت اور ملک کے اقدار کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مظاہرین نے کیفیہ اسکارف کے ساتھ مارچ کیا اور "آزاد فلسطین" کے نعرے لگائے۔ چند لوگوں نے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یوکرین کا پرچم اٹھا رکھا تھا۔

امریکی مغربی ساحل پر واقع شہر سان فرانسسکو میں کچھ مظاہرین نے امریکی پرچم الٹا اٹھا رکھا تھا، جو عام طور پر پریشانی کی علامت ہے۔

ادارت: رابعہ بگٹی

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • ٹرمپ انتظامیہ چین سے تجارتی تعلقات محدود کرنے کے لیے مختلف ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے.بیجنگ کا الزام
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکہ اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر اندھا دھند محصولات عائد کر رہا ہے، چینی وزارت تجارت
  • نوبل انعام یافتہ اور درجنوں دیگر ماہرین اقتصادیات کا امریکی ٹیرف پالیسیوں کی مخالفت میں اعلامیہ
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • امریکا کے یمن پر تازہ حملے، مزید شہری جاں بحق، جوابی کارروائی میں امریکی ڈرون تباہ
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار