سود کی حرمت، قران اور دیگر آسمانی کتب میں
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
رمضان کا مہینہ قران مجید کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اس پر غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے ارادہ ہے کہ اس مہینے میں قران مجید کے بعض احکام پر گفتگو کی جائے۔ آج سود کی حرمت پر بات کریں گے جس کے متعلق قران مجید کا واضح فرمان ہے کہ سود کی حرمت بنی اسرائیل کو بھی دیا گیا تھا:
’پس جو یہودی ہوئے ان کے ظلم کے سبب سے ہم نے ان پر بعض ایسی پاکیزہ چیزیں حرام کردیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں، اور اس وجہ سے کہ وہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے ہیں، اور اس وجہ سے کہ وہ سود لیتے ہیں حالانکہ ان کو اس سے روکا گیا تھا، اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں‘۔ (سورۃ النسآء، آیت160-161)
اس کالم میں پہلے بائبل کے عہدنامۂ قدیم کی، یعنی یہودی بائبل، سے بعض تصریحات پیش کی جائیں گی اور ان کا قرانِ کریم کے ساتھ تعلق بھی ذکر کیا جائے گا۔ اس کے بعد عہدنامۂ جدید، جسے یہودی تو نہیں مانتے لیکن مسیحی اسے بائبل کا حصہ سمجھتے ہیں، کی بعض تصریحات کی وضاحت پیش کی جائے گی جن سے یہ غلط استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دے دی تھی۔ تورات عہدنامۂ قدیم میں، جبکہ انجیل عہدنامۂ جدید میں شامل ہے۔
عہدنامۂ قدیم کی تصریحاتتورات کے سِفر استثنیٰ میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے:
’تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا، خواہ وہ روپے کا سود ہو یا اناج کا سود، یا کسی ایسی چیز کا سود ہو جو بیاج پر دی جایا کرتی ہے‘۔ (استثنا: باب 23، آیت 19)
تاہم اس کے معاً بعد والی آیت میں’پردیسی‘ سے سود لینا جائز قرار دیا گیا ہے:
’تو پردیسی کو سود پر قرض دے تو دے، پر اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا‘۔ (ایضاً: آیت 20)
یہ بھی پڑھیں: رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات
یہودیوں کی جانب سے ’اپنے بھائی‘ اور ’پردیسی‘ کے درمیان اس فرق کا قرآن مجید نے بھی کیا ہے کہ اگرچہ بعض اہلِ کتاب امانت کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ان کو بڑا خزانہ بھی سپرد کیا جائے، تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے، لیکن ان میں ایسے بھی ہیں جنہیں ایک دینار بھی دیا جائے، تو وہ اسے ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان اُمّیوں (عربوں) کے معاملے میں ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے (سورۃ آل عمران، آیت75)۔ قران مجید نے اسے اللہ پر جھوٹ باندھنے سے تعبیر کیا ہے۔
سود کے متعلق تورات کی کئی دیگر آیات میں بھی احکامات ملتے ہیں۔ مثلاً سِفر خروج اور سِفر احبار میں بھی ’اپنے بھائیوں‘ سے سود لینے کو مطلقاً حرام قرار دیاگیا ہے۔ (خروج: باب 22، آیات 25-26؛ احبار: باب 25، آیات 35-36) سِفر استثنا میں ہر 7ویں سال مقروضوں کے قرضوں کی معافی کے احکامات ہیں۔ (استثنیٰ: باب 15، آیات 1-8)
اسی طرح یہودی بائبل کے دوسرے حصے، ’اسفارِ انبیاء‘، میں بھی یہ احکام ملتے ہیں۔ مثلاً یسعیاہ نبی کے صحیفے میں سود لینے والے اور دینے والے کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (یسعیاہ: باب 24، آیات 1-2) معلوم ہے کہ بعض احادیث میں بھی ’سود کھانے والے‘ اور ’کھلانے والے‘ کو یکساں قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوٰ و مؤکلہ) یرمیاہ نبی کے صحیفے میں سود خوری کو لعنت کا ایک سبب قرار دیاگیا ہے۔ (یرمیاہ: باب 15، آیت 10) حزقیال نبی کے صحیفے میں خدا کے انصاف اور عدل کا قانون بیان کیاگیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی ذلت اور رسوائی کے اسباب میں ایک بڑا سبب سودخوری ہے(حزقیال: باب 18 اور باب 22)۔ نحمیاہ نبی کے صحیفے (باب 5) معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی تباہی کے زمانے میں بنی اسرائیل بالعموم سودخوری میں مبتلا ہوچکے تھے۔
مزید پڑھیے: ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری
حبقوق نبی کے صحیفے میں ان لوگوں پر تنقید کی گئی ہے جو اوروں کے مال سے مالدار ہوتے ہیں۔ (حبقوق:باب 2، آیات 6-7) قرآن مجید نے بھی سورۃ الروم کی آیت 39 میں سود خور کی ذہنیت کی وضاحت کے لیے ’تاکہ وہ بڑھے لوگوں کے اموال میں‘ کا اسلوب استعمال کیا ہے۔ مولانا اصلاحی کہتے ہیں کہ یہاں سود خوار کے مال کو ایک ایسے سانڈے سے تشبیہ دی گئی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چر کر موٹا ہوتا ہے۔
یہودی بائبل کے تیسرے حصے، ’اسفارِ حکمت‘، میں بھی سود کی ممانعت کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً زبور 15 میں آخرت کی کامیابی حاصل کرنے والوں کی ایک خصوصیت یہ ذکر کی ہے کہ وہ اپنی رقم سود پر نہیں دیتے۔ سِفر امثالِ سلیمان (باب 28، آیت 7) میں ’مسرفین‘ کی ایک علامت یہ ذکر کی ہے کہ وہ سود کھاتے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ انبیائے بنی اسرائیل نے مسلسل بنی اسرائیل کو سود کی حرمت اور اس کی قباحتوں سے آگاہ کیا لیکن اس کے باوجود وہ سود خوری میں مبتلا ہوتے رہے، اور یہ ان پر لعنت کا ایک بڑا سبب ہوا۔
عبرانی میں سود کےلیے الفاظممتاز مسیحی محقق جناب ایف ایس خیر اللہ کی تحقیق کے مطابق عبرانی (یہودی) بائبل میں سود کے لیے 2 مختلف قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں: نشک اور تربیت ۔ نشک میں ’کاٹ کھانے‘ کا مفہوم پنہاں ہے۔ تربیت میں بڑھوتری کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اسی سے مشتق ایک لفظ تربوت ہے جو نسل کے لیے استعمال کیاجاتا ہے مگر اس میں تحقیر کا مفہوم پایا جاتا ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ معلوم ہے کہ عربی میں قرض کے مفہوم میں بھی کاٹنے کا معنی پایاجاتا ہے، اور سود کے لیے قرآن مجید نے ربا کا لفظ استعمال کیا ہے، جس میں بڑھوتری کا مفہوم موجود ہے۔
کیا مسیح علیہ السلام نے سود کی اجازت دی تھی؟انجیلوں کی بعض آیات سے استدلال کیا جاتا ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کی حرمت کا حکم منسوخ کردیا تھا (انجیل متی: باب 25، آیت 27؛ انجیل لوقا: باب 19، آیت 23) تاہم یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر
اولاً: سیدنا مسیح علیہ السلام تورات کو منسوخ کرنے نہیں آئے تھے، بلکہ اس کی شرح و وضاحت کے لیے آئے تھے، جیسا کہ خود انہوں نے اپنے مشہور ’پہاڑی کے وعظ‘ میں صراحت کے ساتھ واضح کیا تھا۔
ثانیاً: جن آیات سے استدلال کیاجاتا ہے، ان میں سیدنا مسیح علیہ السلام صراحتاً سود کو جائز نہیں ٹھہراتے، بلکہ ایک تمثیل کے ضمن میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مفہوم (implication) کے ذریعے منطوق (explicit) کو منسوخ (abrogate) نہیں کیا جاسکتا، بالخصوص جبکہ مفہوم کی دیگر تعبیرات ممکن ہوں۔
ثالثاً: جس یونانی لفظ tokos کا ترجمہ ’سود‘ کیا گیا ہے اس میں منافع اور بڑھوتری کا مفہوم شامل ہے (قاموس الکتاب، ص 549)۔ اس لیے ممکن ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے جائز تجارتی منافع کا ذکر کیا ہو، نہ کہ ناجائز سود کا۔ ان تمثیلات کی ایسی تعبیر بالکل ممکن ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یونانی لفظ بھی اصل میں کسی اور ارامی لفظ کا ترجمہ ہے کیونکہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے یونانی زبان میں نہیںِ بلکہ ارامی زبان میں یہ تمثیل بیان کی تھی۔ پس اگر اس یونانی لفظ کا مفہوم ’سود‘ ہی ہو، تب بھی محض ترجمے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام نے سود کو جائز قرار دیا۔
اسلامی قانون کے ایک جزیے کی وضاحتیہاں ایک وضاحت اسلامی قانون کے ایک جزیے کے متعلق بھی ضروری ہے۔ حنفی فقہاء کے متعلق ایک عمومی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ انہوں نے ’دار الحرب‘ میں سود کو جائز قرار دیا تھا۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے مختصر اشارات پیش کیے جاتے ہیں۔
اولاً: دار الحرب سے مراد ہر غیر مسلم علاقہ نہیں ہے، بلکہ وہ علاقہ ہے جہاں کے لوگ دارالاسلام سے برسرجنگ ہوں۔ جب جنگ میں فریقِ مخالف کا خون بہانا جائز ہوتا ہے، تو اس کے مال کو نقصان پہنچانا بھی جائز ہوتا ہے۔ پھر جب نقصان پہنچانا جائز ہوا تو اس کی رضامندی سے ایک درہم کے بدلے دو دراہم لینا تو بدرجۂ اولی جائز ہوجاتا ہے۔ اسے کوئی ظاہری مشابہت کی بنا پر سود کہے، تو یہ غلط ہے کیونکہ درحقیقت یہ سود نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات
ثانیاً: اس مسئلے کا نہایت گہرا تعلق اس مسئلے کے ساتھ ہے کہ دارالاسلام کی عدالتیں کیا کسی ایسے تنازعے میں اختیار سماعت (Jurisdiction) رکھتی ہیں جو دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا؟ حنفی فقہاء اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ پس اگر کوئی مسلمان اسلامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے غیر مسلم علاقے میں، جو ہمارے ساتھ برسرجنگ نہ ہو، ایک درہم کے بدلے میں دو دراہم لے تو اسے فتوی تو یہی دیا جائے گا کہ وہ اضافی رقم لوٹائے، مگر عدالت کے ذریعے اسے مجبور نہیں کیاجاسکے گا، نہ ہی اسے سزا دی جاسکے گی۔ بعینہ اسی طرح اگر کسی مسلمان کے ساتھ دارالاسلام سے باہر زیادتی ہو اور بعد میں مجرم دارالاسلام میں داخل ہو، تو اسے کوئی سزا نہیں دی جاسکے گی کیونکہ تنازعہ دارالاسلام کے علاقائی حدود سے باہر پیدا ہوا، اس لیے دارالاسلام کی عدالتیں اس پر اختیار سماعت نہیں رکھتیں۔
غالباً یہودی احبار و فقہاء نے بھی حنفی فقہاء کی طرح رائے قائم کی تھی کہ برسرجنگ قوموں کے کسی فرد سے اس کی رضامندی سے اضافی رقم لینا سود کے مفہوم میں شامل نہیں ہے، بالخصوص جب معاہدہ بنی اسرائیل کی علاقائی حدود سے باہر ہوا ہو۔ بعد میں اسے ایک عمومی رخصت سمجھا گیا کہ تمام غیر یہودیوں سے ہر جگہ سود لیاجا سکتا ہے۔ غالباً یہ بات ابتدا میں تورات کی متعلقہ آیات کے حاشیے پر لکھی گئی ہوگی جو بعد میں متن میں داخل ہوگئی۔ و اللہ اعلم۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام رمضان سود سود کی حرمت قرآن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنی اسرائیل حضرت عیسی علیہ السلام سود کی حرمت مسیح علیہ السلام نے سود اس وجہ سے کہ وہ بنی اسرائیل سود کی حرمت کے متعلق قرار دیا سے باہر دیا گیا نہیں ہے میں بھی جاتا ہے ہوتا ہے کے ساتھ ہیں کہ ذکر کی کیا ہے کے لیے کو سود گیا ہے سود کے اور اس اس لیے
پڑھیں:
فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’ علی الاقرب فالاقرب‘‘ ، ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔