Islam Times:
2025-04-22@07:25:34 GMT

مسئلہ فلسطین ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

مسئلہ فلسطین ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوچکا ہے

اسلام ٹائمز: ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ اس مقدس ماہ میں اپنے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو جاری رکھیں۔ غزہ جنگ کے دوران جس طرح عوام نے اپنی بھرپور یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اور سڑکوں پر نکلنے کے معاملہ سے لے کر امریکی و اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو، عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ غزہ جنگ بندی کے بعد دشمن کی جانب سے ایک اور سازش جو کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ غزہ کے مسئلہ کو کم رنگ کر دیا جائے اور دنیا کو غزہ کی یکجہتی سے دور کیا جائے، تاہم ایسے حالات میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ شد و مد کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

مسئلہ فلسطین گذشتہ سات دہائیوں سے عالمی مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ ہے۔ خاص طور پر حالیہ دنوں میں کہ جب سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کا آغاز ہوا اور پندرہ ماہ کی جنگ میں غزہ میں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد ہونے والی جنگ بندی معاہدے نے فلسطین کاز کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ سات اکتوبر سنہ2023ء کے بعد پوری دنیا میں جہاں فلسطین کاز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی، اس کی مثال آج سے پہلے نہیں ملتی ہے۔ دنیا بھر میں خاص طور پر مغربی ممالک میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہوئی، جس نے مغربی حکومتوں کو یہ پیغام دیا کہ دنیا بھر کے عوام فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف متحد کھڑے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کا جانا اور جنوبی افریقہ سمیت دیگر ممالک کا اس مقدمہ کا حصہ بن جانا یقیناً انقلابی اقدامات ہیں۔

فلسطین کاز کے ساتھ وابستگی کے لئے تمام طبقات کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس عنوان سے دنیا بھر میں اسرائیلی اور ایسی تمام کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی عالمی مہم بھی قابل ذکر ہے کہ جو کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ امریکہ اور اسرائیل کی مددگار ہیں۔ دنیا بھر کے عوام نے ایسی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کیا اور فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا عملی ثبوت دیا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عوام نے بائیکاٹ مہم میں حصہ لیا اور یہ پیغام دیا کہ ہم جس طرح بھی ممکن ہوگا، مظلوم فلسطینیوں کو تنہاء نہیں چھوڑیں گے۔ دنیا بھر میں جاری اس بائیکاٹ کی مہم میں کئی ایک ایسی کمپنیوں کو دیوالیہ کا سامنا کرنا پڑا، جو امریکہ یا اسرائیل کی مدد گار تھیں۔

حالیہ دنوں غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد جاری ہے۔ غاصب صیہونی حکومت جنگ بندی کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن فلسطینی مزاحمت حماس اور جہاد اسلامی کی حکمت عملی کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔ غزہ میں فلسطینی مزاحمت نے میدان میں جنگ جیتنے کے بعد میڈیا کے میدان کی جنگ کو بھی احسن انداز سے اپنے حق میں جیت لیا ہے۔ اسرائیل فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں کے سامنے بے بس ہوچکا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کا دن ہو یا پھر 26 جنوری 2025ء کا دن ہو، اس درمیان روز اول سے فلسطینی مزاحمت نے مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کامیابیوں کے حصول کے لئے شہداء نے قربانیاں پیش کی ہیں۔

شہید اسماعیل ہنیہ، شہید یحییٰ سنوار، شہید حسن نصراللہ، شہید ہاشم صفی الدین اور دیگر ہزاروں شہدائے فلسطین و لبنان کہ جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، تاکہ فلسطینی مزاحمت کی کامیابیوں کا تحفظ اور فلسطین کی آزادی یقینی ہو۔ یہ قربانیاں یقینی طور پر رائیگاں نہیں جائیں گی۔ غزہ جنگ میں ناکامی کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ کسی طرح اس جنگ کو مذاکرات کی میز پر اپنے حق میں تبدیل کرے، لیکن فلسطینی عوام نے اپنی استقامت اور صبر کے ساتھ ٹرمپ کی تمام تر سازشوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور فیصلہ سنا دیا ہے کہ غزہ کے لوگ غزہ سے نکل کر کہیں نہیں جائیں گے۔ پوری دنیا کو یہ بات باور کروا دی گئی ہے کہ یاد رکھیں فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے۔

ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی عبادات کے ساتھ ساتھ اس مقدس ماہ میں اپنے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کو جاری رکھیں۔ غزہ جنگ کے دوران جس طرح عوام نے اپنی بھرپور یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اور سڑکوں پر نکلنے کے معاملہ سے لے کر امریکی و اسرائیلی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا معاملہ ہو، عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ غزہ جنگ بندی کے بعد دشمن کی جانب سے ایک اور سازش جو کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ غزہ کے مسئلہ کو کم رنگ کر دیا جائے اور دنیا کو غزہ کی یکجہتی سے دور کیا جائے، تاہم ایسے حالات میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ شد و مد کے ساتھ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھیں۔

ماہ رمضان المبارک میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کیلئے چند ایک اہم اقدامات:
آئیں ہم اس ماہ رمضان المبارک میں عہد کریں کہ ہم مندرجہ ذیل نقاط کو ہر سطح پر اجاگر کریں اور مسئلہ فلسطین کی حمایت میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ یہ مندرجہ ذیل نقاط ہیں کہ جن کو ہم اپنی محافل اور پروگراموں میں عوام تک پہنچا سکتے ہیں اور فلسطین کاز کی آواز کو مزید مستحکم اور مضبوط بنانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔
۱۔ مسئلہ فلسطین کو اس کی اساس یعنی دنیا کو باور کروائیں کہ صیہونی غاصب اور ظالم ہیں اور فلسطین پورے کا پورا فلسطینیوں کا ہے، یعنی دریائے اردن سے سمندر تک۔
۲۔ غزہ جنگ کا آغاز غاصب صیہونی حکومت کی 77 سالہ انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف فلسطینیوں کا بنیادی حق تھا، جو سات اکتوبر کو شروع ہوا۔
۳۔ غزہ جنگ کے آغاز سے تاحال فلسطینیوں نے مختلف میدانوں میں کامیابیوں کا سفر طے کیا ہے، یعنی خود سات اکتوبر کو اسرائیل کی ناکامی فلسطینیوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
۴۔ غزہ جنگ کے دوران یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کا دفاعی نظام کمزور ہے، یعنی آئرن ڈوم اور جدید دفاعی نظام اس جنگ میں ناکام رہا ہے۔

۵۔ سات اکتوبر کے بعد سے فلسطین کاز کی ایک کامیابی یہ رہی ہے کہ دنیا بھر کے عوام فلسطین کاز کے ساتھ کھڑے ہوئے اور فلسطین کے خلاف ہونے والی سازشوں کو اپنی عوامی حمایت کے ذریعہ ناکام بنایا۔
۶۔ فلسطینی مزاحمت کا باہمی اتحاد، جس نے غاصب صیہونی حکومت کو مزید کمزور کیا۔ یعنی فلسطین کے دفاع میں حماس اور جہاد اسلامی کے علاوہ لبنان سے حزب اللہ، عراق سے حشد الشعبی اور یمن سے انصار اللہ کی مسلح کارروائیوں نے فلسطینی مزاحمت کے اتحاد اور قوت میں مزید اضافہ کیا۔
۷۔ فلسطینی مزاحمت کی مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ عوامی جدوجہد اور مزاحمت نے دنیا بھر میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ میں اضافہ ہوا، جس کے باعث کئی بڑی کمپنیاں جو صیہونیوں کی مدگار تھیں، انہیں شدید بحران اور نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد کی صورتحال:
جس طرح غزہ جنگ کے دوران متعدد کامیابیوں کا حصول یقینی ہوا، اسی طرح غزہ کی جنگ بندی کے بعد بھی مزاحمتی فورسز سمیت فلسطین کاز کو بے پناہ اہمیت حاصل ہوئی ہے۔
۱۔ جنگ بندی معاہدے میں دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کو فلسطین کے چھوٹے گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے اور ان کی شرائط کے مطابق غزہ جنگ بندی کو تسلیم کرنا پڑا۔
۲۔ غزہ جنگ بندی معاہدے کے نتائج میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل یقینی ہونا بھی ایک کامیابی ہے۔
۳۔ غزہ جنگ بندی کے بعد ایک مرتبہ پھر فلسطین کاز کو عالمی سطح پر اہمیت حاصل ہوئی۔

۴۔ غزہ جنگ بندی کے بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل پر مزید دبائو پیدا ہوا ہے، جس کو وہ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یعنی جنگ کے آغاز سے تاحال عالمی سطح پر اسرائیل کو شدید تنقید اور مشکلات کا سامنا ہے۔
۵۔ غزہ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے میڈیا کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ یعنی قیدیوں کے تبادلہ کی تقاریب میں شاندار مناظر دیکھنے کو ملے، جس نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطین کی مزاحمت مستحکم اور پائیدار ہے۔
۶۔ غزہ میں تباہی کے باعث جنگ بندی معاہدے سے یہ موقع میسر ہو رہا ہے کہ از سر نو غزہ کی تعمیر کی جائے۔

مستقبل کے خطرات:
۱۔ امریکہ اور اسرائیل اپنی شکست کو چھپانے کے لئے دوبارہ سے جنگ کا آغاز کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ لبنان میں مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطین کے مسئلہ کو فراموش نہ ہونے دیں اور پہلے ہی کی طرح بھرپور قوت کے ساتھ فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھیں۔ عوامی سطح پر جو کام ہم کرسکتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ فلسطین کاز کی حمایت میں زیادہ سے زیادہ اجتماعات کا انعقاد اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا۔
۲۔ امریکہ سمیت اسرائیل اور ہر اس کمپنی کی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنا، جو براہ راست یا بالواسطہ غزہ میں جاری نسل کشی کی ذمہ دار ہیں۔
۳۔ غزہ کے عوام کو ریلیف پہنچانے کے لئے ہر ممکن مالی امداد کو یقینی بنانا۔
۴۔ مزید ایسے تمام اقدامات، جن کے ذریعے فلسطین کاز کو اجاگر کرنے کا موقع ملے، بغیر کسی سستی اور کوتاہی کے جاری رکھنا۔

امید ہے کہ ہم ان تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے اپنے طور پر بھرپور کوشش کریں گے۔ اس عنوان سے علمائے کرام اور مشائخ سے گزارش ہے کہ اپنے تمام تر اجتماعات میں مسئلہ فلسطین سے متعلق ان اقدامات کو خصوصی اہمیت دیں اور عوام تک اس پیغام کو پہنچا کر اپنا دینی اور انسانی فریضہ انجام دیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غزہ جنگ بندی کے بعد ماہ رمضان المبارک ہم سب کی ذمہ داری مظلوم فلسطینیوں غزہ جنگ کے دوران جنگ بندی معاہدے فلسطینی مزاحمت فلسطین کاز کو فلسطین کاز کی صیہونی حکومت مسئلہ فلسطین دنیا بھر میں غاصب صیہونی سات اکتوبر اور فلسطین جاری رکھیں فلسطین کا فلسطین کے ہوچکا ہے کی حمایت کا ا غاز ہے کہ ہم حصہ لیا دنیا کو نے اپنی کے ساتھ عوام نے کے عوام غزہ کے غزہ کی دیا ہے کے لئے لیا ہے رہی ہے

پڑھیں:

اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟

اسرائیل میں امریکہ کے نئے سفیر مائیک ہکابی نے فلسطینی تنظیم “حماس” پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کرے جس کے تحت تباہ حال غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے۔

ہکابی نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ “ہم حماس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا معاہدہ کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد ان لوگوں تک پہنچائی جا سکے جنہیں اس کی شدید ضرورت ہے”۔

انھوں نے مزید کہا کہ “جب ایسا ہو جائے گا، اور یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا ، جو کہ ہمارے لیے ایک فوری اور اہم معاملہ ہے، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ امداد کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی، اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ حماس اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے”۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب “حماس” نے جمعرات کو اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ ایک عبوری جنگ بندی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس تجویز میں قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ اور امداد کی فراہمی شامل تھی۔ “حماس” کے ایک اعلیٰ مذاکرات کار کے مطابق، ان کی تنظیم صرف مکمل اور جامع معاہدے کی حامی ہے، جس میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا اور تعمیر نو شامل ہو۔

قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی سے جنوری 2024 میں ایک عبوری جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہونے والی پندرہ ماہ سے زائد طویل جنگ کو وقتی طور پر روک دیا تھا۔

معاہدے کا پہلا مرحلہ تقریباً دو ماہ جاری رہا، جس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ تاہم دوسرے مرحلے پر اختلافات کے باعث یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اسرائیل اس کی توسیع چاہتا تھا، جب کہ حماس چاہتی تھی کہ بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہو، جس میں مستقل جنگ بندی اور فوجی انخلا شامل ہو۔

18 مارچ کو اسرائیل نے دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے اور امداد کی ترسیل روک دی۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس امداد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے، جب کہ حماس نے یہ الزام مسترد کر دیا۔ اقوامِ متحدہ نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا کہ غزہ اس وقت جنگ کے آغاز سے بد ترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔

اس سے قبل امریکی نیوز ویب سائٹ axios یہ بتا چکی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم نیتن یاہو سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جنگ بندی، یرغمالیوں کے معاہدے اور ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات پر گفتگو کی جا سکے۔

یہ فون رابطہ ایسے وقت متوقع ہے جب “حماس” نے اسرائیل کی ایک اور عارضی جنگ بندی تجویز کو رد کر دیا ہے … اور ایران و امریکہ کے درمیان روم میں نئی جوہری بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
  • کوئٹہ، ملی یکجہتی کونسل کا فلسطین کی حمایت میں 26 اپریل کو احتجاج کا اعلان
  • جے یو آئی بلوچستان کا فلسطین کے حق میں ملین مارچ نکالنے کا اعلان
  • فضل الرحمان حافظ نعیم ملاقات: فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے ’مجلس اتحاد امت‘ کے نام سے فورم بنانے کا اعلان
  • مسئلہ فلسطین پر اُمت کو مشترکہ موقف اپنانا ہوگا، علامہ جواد نقوی
  • نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی، غزہ میں جارحیت جنگ کا ’نازک مرحلہ‘ قرار، حماس کی جنگ بندی شرائط مسترد کردیں
  • فلسطین  پر امت کوفیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے: ایاز صادق
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
  • فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کو فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے ،اسپیکر ایاز صادق
  • فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کو فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے ، ایاز صادق