گہرے پانی کی مخلوقات کا ساحل پر نمودار ہونا، کیا سمندر میں کچھ عجیب ہونے والا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
میکسیکو(نیوز ڈیسک)حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں زیرِ گردش رہیں کہ سمندر میں کچھ عجیب ہونے والا ہے اور اسے گہرے پانی کی نایاب مخلوق کے سطح سمندر یا ساحل پر نمودار ہونے سے منسلک کیا جارہا ہے۔
جنوری میں ہم نے دیکھا کہ نایاب اینگلر فش کو پہلی بار سطح سمندر میں دیکھا گیا جبکہ یہ مچھلی گہرے پانی میں 200 سے دو ہزار فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس مچھلی میں قدرتی طور پر روشنی کے لیے ایک بلب نما اعضا ’ڈورسل اپینڈیج‘ موجود ہوتا ہے جو معدوم ہوچکا تھا۔ یہ بلب اینگلر فش کے لیے باعثِ مسرت ہوتا ہے اور اسی سے وہ شکار کو اپنی جانب کھینچتی ہے، یہی وجہ تھی کہ اس نے سمندر میں اوپر روشنی کی طرف سفر کیا مگر یہ مچھلی جلد ہی مر گئی کیونکہ یہ حالات اس کے زندہ رہنے کے لیے موزوں نہ تھے۔
اس کے علاوہ ایک اور غیر معمولی واقعہ میکسیکو کے ساحل پر اورفش کا نمودار ہونا تھا۔ یہ نایاب مچھلی 15 سے ایک ہزار میٹر سمندر کی گہرائی میں پائی جاتی ہے جسے انسان شاذو نادر ہی دیکھ پاتے ہیں۔ اس مچھلی کو ’ڈومس ڈے اورفش‘ بھی کہا جاتا ہے جو جاپان میں زلزلوں اور سونامی سے پہلے ساحل پر پائی جاتی تھی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلوں کا اورفش کے نمودار ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔
جاپانی کہاوت کے مطابق اورفش ’خدا کا پیغام لاتی ہے‘۔ چند سوشل میڈیا صارفین میں یہ تاثر پایا جارہا ہے چونکہ 2011ء میں جاپان میں فوکوشیما خوفناک سونامی سے قبل یہ مچھلی ساحل پر آئی تھی اس لیے اس بار بھی سمندر میں کچھ عجیب ہونے جارہا ہے اور سمندر ہمیں اس حوالے سے اشارے دے رہا ہے۔
اس کے علاوہ دو ہفتے قبل آسٹریلوی ساحلوں پر 150 سے زائد ویلز مردہ حالت میں ساحل پر پائی گئی ہیں۔ ان تمام عناصر نے سوشل میڈیا پر ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے جبکہ کچھ لوگ اسے لیوی ایتھن کی دوبارہ آمد سے منسلک کررہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا
سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں سرینگر اور دیگر علاقوں میں شہریوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ علاقے میں پائی جانے والی خاموشی کو ہرگز امن کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں نے جبر و استبداد کی کارروائیوں کے ذریعے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم کر رکھا ہے، قابض بھارتی اہلکار طاقت کے بل پر لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کے خلاف اپنی پرتشدد مہم میں تیزی لائی، میڈیا پر قدغیں عائد کیں اور صحافیوں کو سچائی سامنے لانے سے روکا۔ شہریوں نے کہا کہ علاقے میں اس وقت جو خاموشی کا ماحول نظر آ رہا ہے اور جسے بھارت امن کا نام دے رہا ہے یہ دراصل امن نہیں بلکہ خوف و دہشت ہے جو طاقت کے بل پر یہاں پھیلایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف ”یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کا استعمال، این آئی اے اور ایس آئی اے جیسے بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے ڈرانے دھمکانے کی کارروائیاں یہاں پائی جانے والی خاموشی کا اصل سبب ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ بھارت جبر و ستم کی کارروائیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں آزادی کی آوازوں کو خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور خوف و دہشت کو امن کا نام دے رہا ہے۔ ایک سابق پروفیسر نے انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”یہ وحشیانہ فوجی طاقت کے ذریعے قائم کی گئی خاموشی ہے، لوگ پہلے کی طرح سب کچھ محسوس کر رہے ہیں لیکن انہوں نے ڈر کے مارے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چھوڑ دیا ہے۔“