صوبائی وزیرمذہبی امور کا کہنا تھا کہ علماء اور مشائخ رواداری، اخوت اور تحمل کے جذبات کو فروغ دیں، سب کو مل کر اتحاد کی قوت سے ملک کو امن کا گہوارہ بنانا ہے، اوقاف کی زمینوں پر ناجائز قبضے ختم کرائے جائیں گے، ناجائز قابضین سے واگزار کرائی گئی اوقاف کی زمینوں پر صحت اور تعلیم کے ادارے بنائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی وزیر مذہبی امور پنجاب چودھری شافع حسین کا کہنا ہے کہ اسلام امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے، اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں، دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث عناصر انسانیت کے دشمن ہیں، دہشت گردوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملانے کیلئے تمام مکاتب فکر کے علماء اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ وہ لاہور میں دربار حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے سجادہ نشین دیوان حامدمسعود چشتی سے ملاقات کر رہےتھے۔ ملاقات میں سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری اور دیگر بھی موجود تھے۔

چودھری شافع حسین کا کہنا تھا کہ بزرگان دین اور صوفیاء کرام کے درباروں پر ملک بھر سے عقیدتمند اور زائرین آتے ہیں، جبکہ حکومت زائرین کو بہتر سے بہتر سہولیات کی فراہمی کیلئے پُرعزم ہے اور مقدس مزارات کی دیکھ بھال اور زائرین کی سہولیات کیلئے ہرممکن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مساجد اور درباروں کی صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوقاف کی زمینوں پر ناجائز قبضے ختم کرائے جائیں گے، ناجائز قابضین سے واگزار کرائی گئی اوقاف کی زمینوں پر صحت اور تعلیم کے ادارے بنائیں گے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ علماء اور مشائخ رواداری، اخوت اور تحمل کے جذبات کو فروغ دیں، سب کو مل کر اتحاد کی قوت سے ملک کو امن کا گہوارہ بنانا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اوقاف کی زمینوں پر کا کہنا تھا کہ

پڑھیں:

وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی

بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرتی رہتی ہے یہ نہ صرف مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن قرار دیتی ہے بلکہ مسلمانوں کو غیر ملکی بھی خیال کرتی ہے۔ برصغیر میں اسلام پھیلانیکا سہرا بزرگان دین کے سر ہے جن کی تعلیمات سے متاثر ہوکر غیرمسلم جوق در جوق مسلمان بنے۔ جہاں تک مسلمان بادشاہوں کا تعلق ہے۔ اسلام کو پھیلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔

حقیقت تو یہ ہے بی جے پی کے پروپیگنڈے کے قطع نظر ہندو مسلمان بادشاہوں سے اتنے مانوس تھے کہ جب 1857 میں انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو ختم کرنا چاہا تو ہندو ان کے ساتھ تھے اور وہ مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں سے لڑے۔

اگر انگریزوں کو ساورکر جیسے غدار ہندوستانی نہ ملتے تو وہ چند سالوں میں ہی ہندوستان سے نکال دیے جاتے مگر اس شخص نے نہ صرف انگریزوں کی غلامی کو قبول کیا بلکہ ان کی ہدایت کے مطابق ہندو مسلمانوں میں خلیج پیدا کی جس کی وجہ سے دونوں قوموں میں دوریاں پیدا کی گئیں۔ ہندو مسلمانوں میں نفرت کی وجہ سے انگریز ہندوستان پر ڈیڑھ سو سال تک حکومت کرتے رہے۔ اسی ساورکر کی وجہ سے ہندوستان میں کئی مسلم دشمن تنظیمیں وجود میں آئیں جن میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) بھی ہے۔

بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جو اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے اور مسلمانوں کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے ۔ چند سال قبل یہ متنازعہ شہریت بل متعارف کرا چکی ہے جس کے تحت بھارتی مسلمانوں کو بھارت میں اپنی شہریت ثابت کرنا ہے۔

مسلمانوں نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بالآخر بی جے پی حکومت کو اسے موخر کرنا پڑا۔ اسی بی جے پی نے بابری مسجد کو رام جنم بھومی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا اور بالآخر اپنی حکومتی طاقت کے بل پر اس قدیم مسجد کو مندر میں تبدیل کر دیا گیا۔ پھر گائے کاٹنے یا اسے ایذا پہنچانے کے الزام میں درجنوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔

پھر لَو جہاد کا مسئلہ کھڑا کیا اورکئی مسلم نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دھرم پری ورتن یعنی مذہب کی تبدیلی کی مہم چلائی گئی جس کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنانا شروع کیا گیا مگر یہ اسکیم کامیاب نہ ہو سکی اور اسے بند کرنا پڑا۔ اب مسلمانوں کو تنگ کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وقت کی زمینوں اور جائیدادوں میں مداخلت کی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں ایک بل پیش کر کے لوک سبھا میں پاس کرایا گیا ہے۔ اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے کئی سیکولر سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ لوک سبھا میں اس بل پر ووٹنگ میں اس کی حمایت میں 288 اور مخالفت میں 232 ووٹ آئے۔

ظاہر ہے کہ حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر اس متنازعہ بل کو پاس کرا لیا تھا۔ یہ بل پاس تو ہوگیا ہے مگر مسلمان اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ احتجاجی مسلمانوں پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے غنڈے حملے کر رہے ہیں تاکہ انھیں چپ کرا دیا جائے مگر مسلمان اس بل کو واپس لینے کے لیے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ بل کسی طرح بھی ہندوؤں یا ملک کے خلاف نہیں تھا، یہ ایک خالص مذہبی معاملہ ہے۔ زمینوں کا اللہ کی راہ میں وقف کرنا اور پھر انھیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنا ایک پرانا نظام ہے۔ وقف زمینوں کی دیکھ بھال ایک بورڈ کے ذمے ہوتی ہے جو وقف بورڈ کہلاتا ہے۔

ایسے وقف بورڈ بھارت کے ہر شہر میں موجود ہیں۔ ان زمینوں کو مدرسے، اسکول، اسپتال، قبرستان، مساجد اور عیدگاہ وغیرہ کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ وقف قانون میں پہلی دفعہ 1995 میں ترمیم کی گئی تھی اس کے بعد 2013 میں پھر کچھ تبدیلی کی گئی۔ اب نئی ترمیمات نے بل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ بی جے پی حکومت نے ان نئی ترمیمات کے ذریعے مسلمانوں کے اختیارات کو کم سے کم کر دیا ہے۔

اب نئی ترمیمات کے ذریعے دو غیر مسلم نمایندے بھی اس کا حصہ ہوں گے۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب یہ مکمل مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور صرف وہی اپنی زمینوں کو وقف کرتے ہیں تو ہندوؤں کو بورڈ میں شامل کرنے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔

اب نئے قانون کے تحت ہر ضلع کا کمشنر پراپرٹی کا سروے کرے گا اور ضلع کا اعلیٰ سرکاری عہدیدار فیصلہ کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف کی ہے یا نہیں۔ وقف کے معاملات میں مداخلت پر مسلمانوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملے میں حکومت جو چاہتی ہے سپریم کورٹ بھی وہی فیصلہ دیتی ہے۔

کچھ مسلمان یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ جب مسلمانوں کے معاملات میں ہندوؤں کو دخل اندازی کا موقع دیا جا رہا ہے تو پھر مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کے مندروں وغیرہ کی زمینوں کے ٹرسٹ میں شامل کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہے۔

یہی بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی ہے جس سے وہ انتخابات کے وقت سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے۔ وہ 15 برس سے مسلم کارڈ کے سہارے ہی حکومت پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ وقف جیسے مسلمانوں کے مذہبی معاملات پر زیادتی کے سلسلے میں لیاقت نہرو معاہدے کے تحت حکومت پاکستان بھارتی حکومت سے بات کر سکتی ہے مگر افسوس کہ ہماری حکومت بالکل خاموش ہے پھر سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے میڈیا نے بھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس زیادتی پر کچھ لکھا اور نہ کہا۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • علیمہ خانم اور بشریٰ بی بی پر شیر افضل مروت کی تنقید ناجائز ہے، عمر ایوب
  • پاکستان‘ افریقی ممالک میں سرمایہ کاری و تجارتی خلاء دور کرنا ہو گا: شافع حسین
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • آرمی چیف نے اوورسیز پاکستانیوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا؛ چودھری شجاعت حسین
  • پاکستان اور افریقی ممالک کے درمیان تجارتی حجم بڑھنا چاہیے: شافع حسین
  • چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کیلئے بلاسود قرضے دئیے جا رہے ہیں: شافع حسین
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی
  • چوہدری شافع حسین کی زیر صدارت اجلاس ،وزیر اعلیٰ آسان کاروبار فنانس ،آسان کاروبار کارڈ سکیموں پر پیش رفت کا جائزہ
  • چوہدری شافع حسین سے کینیڈا کے ایکٹنگ ہائی کمشنر کی ملاقات،دوطرفہ تجارت بڑھانے کے امور پر بات چیت