WE News:
2025-04-22@06:01:35 GMT

کابل، طالبان، حقانیہ: پرانے ساز اور  نئے نغمے

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

امریکا نے چاہا، امریکا آگیا۔ امریکا نے چاہا، امریکا چلا گیا۔ اس آنے جانے کے بیچ کئی زمانے ہیں۔ پہلا زمانہ تو وہ ہے جس میں امریکا نے افغانستان کی دائیں بازو کی جماعتوں کے الٹے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی۔ تب ساتھ آنے والے لوگ مجاہد، لڑاکے، زمین زادے اور فریڈم فائٹر کہلائے۔ ان کو پگڑیوں داڑھیوں اور بو بھری جرابوں کے ساتھ اوول میں خوش آمدید کہا گیا۔ کسی نائب صدر نے ان سے نہیں کہا کہ اوول آفس میں داخل ہونے کے بھی کچھ ادب آداب ہوتے ہیں۔

سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تو امریکا نے مجاہدین کی ایک پوری بریگیڈ کو گندے بچے کہہ دیا اور کابل کی چابیاں طالبان کے سیدھے ہاتھ پر رکھ دیں۔ تقریباً 9برس تک وہ سخت گیر اسلامی قوانین، اقلیت مخالف بیانیے اور عورت دشمن رویے کے ساتھ اقتدار میں رہے۔ دنیا کی ہزار شکایتوں کے باجود امریکا نے یہ سب ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا۔ ان کے اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے پاکستان میں جاری جہادی سرگرمیوں، رسائل و جرائد، جلسے جلوسوں، جنازے کی غائبانہ نمازوں اور عالمی چندہ مہم کو بھی برداشت کیا گیا۔

لیں جی نائن الیون ہوگیا۔ ماضی اور حال کے بیچ ایک گہری لکیر کھینچ دی گئی۔ اب دنیا یا تو نائن الیون سے پہلے تھی یا اب نائن الیون کے بعد ہے۔ اس نئے منظر نامے میں امریکا نے طالبان کو سرتاسر بدی کا محور قرار دے دیا ہے۔ طالبان غلط، ان کا سایہ غلط۔ان کے نام جیسے جن بچوں کے نام ہیں وہ بچے غلط، جس گلاس میں پانی پیا وہ گلاس غلط، خود پانی بھی غلط، زندہ رہنے کے لیے انہوں نے جو آکسیجن کھینچی وہ آکسیجن بھی غلط۔

مکمل غلط والے اس بیانیے کے تحت برسوں تک جنگ جاری رہی۔ وقت آیا کہ سورج نے بہت سہولت سے پلٹا کھایا اور دنیا کو بتایا کہ اب ہم طالبان کو 2مختلف دھڑوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک دھڑا گڈ ہے دوسرا دھڑا بیڈ ہے۔ بیانیہ ساز کارخانوں میں ابھی اس گڈ اور بیڈ کے مصالحے مکس ہو ہی رہے تھے کہ خبر آئی کہ چشم ساقی نے اب گڈ اور بیڈ کو بھی دو دو دھڑوں میں دیکھنا شروع کردیا ہے۔ زیادہ گڈ اور کم گڈ، زیادہ بیڈ اور کم بیڈ، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے والی اس  پوری صورتحال سے گزرتے ہوئے کہانی دوحہ مذاکرات تک آگئی۔

دنیا کی ہر بڑی اسکرین پر اب ایک ہی منظر ہے۔ صحافی طالب کا دامن نچوڑ رہا ہے اور امریکی نمائندے وضو کر رہے ہیں۔ طالبان کے پاپ دھل گئے، اور نائن الیون کے بعد افغانستان کا ریاستی اور سیاسی ڈھانچہ قائم رکھنے کے لیے جو سیاست دان، افسران، کماندان اور قوم قبیلے کام آئے تھے وہ سب غلط ہوگئے۔ امریکا نے ایسے ہی منہ موڑ لیا جیسے ان دنوں یو ایس ایڈ کے ذمہ داروں سے موڑا ہوا ہے۔ میسج ڈیلیور ہو رہا ہے، بلو ٹک بھی آرہا ہے مگر جواب نہیں آرہا۔

قطر کے ست ستارہ ہوٹلوں میں طالبان کے ساتھ مسلسل مذاکرات کے نتیجے میں امریکا نے باور کروا دیا کہ افغانستان کے دستخطی یہ ہوں گے۔ ان کو طاقت کے ٹیکے  بھی نہیں لگانے مگر انہیں مرنے بھی نہیں دینا ہے۔ طاقت کے کاروبار میں اسے کسی کے اختیار کو legitimacy  دینا کہتے ہیں۔

جیسے برطانیہ نے متحدہ ہندوستان سے نکلتے وقت اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایک سیاسی بندو بست کرنا ضروری سمجھا تھا، ٹھیک اسی طرح امریکا نے بھی ضروری جانا کہ جاتے جاتے کابل میں ایسی فیلڈنگ لگائی جائے جو خواستہ نخواستہ ہمارے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی رہے۔

برطانیہ جب بندوبست کر رہا تھا تو وہ پاکستان کو سوویت یونین کے آگے ریت کی بوری کی طرح دیکھ رہا تھا۔ جیسے کابل میں امیر عبد الرحمان یا امیر دوست محمد خان کی حکومتوں کو وہ سویت قوتوں کے سامنے ریت کی بوریاں بنا کر رکھتا تھا۔ افغانستان سے انخلا کے وقت امریکا طالبان کو ریت کی بوری بناکر روس اور چین کے سامنے رکھنا چاہتا تھا۔

امریکی ریاضی کے مطابق جب بندوبست مکمل ہوگیا تو امریکا نے سامان سمیٹا، طالبان کے لیے پچھلا دروازہ کھولا، بھاری اسلحہ چھوڑا، فون فلائٹ موڈ پر لگایا اور افغانستان سے نکل گیا۔ زمین و آسمان کی ساری نصرتیں طالبان کے ساتھ شامل حال ہوگئیں اور ایک کے بعد ایک علاقہ فتح کرتے ہوئے وہ کابل میں داخل ہوگئے۔

امریکا کا خیال تھا کہ اگر معاملات سیاسی قوتوں کے حوالے کردیے گئے تو افغانستان پڑوسی ممالک کے قریب چلا جائے گا۔ تاجکستان، اس سے آگے روس، پھر ایران اور چین سے افغانستان کا خوشگوار تعلق امریکا کو وارے میں نہیں پڑتا۔ یہ سوچ کر امریکا نے کابل کے دروازے طالبان پر کھول دیے کہ روس سے ملنے والے پرانے دکھ یہ کسی حد تک تو یاد رکھیں گے۔ دکھ درد سے کوئی تو تنازعہ جنم لے گا، اور ایک تنازعہ ہی تو ہے جو آٹو طریقے سے ہمارے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہا ہوتا ہے۔

امریکا کی روانگی کے بعد جب طالبان شہر در شہر چڑھے آرہے تھے تو افغان سیاست دان، مشران، امدادی کارکنان، موسیقار، صحافی و ادیب، خواتین کھلاڑی و صحافی، ہیلتھ ورکرز اور سول سوسائٹی کے نمائندے بین الاقوامی اداروں کے ملازم خوف کے مارے افغانستان سے فرار ہونے لگے۔ جو شہری طالبان کی سوچ اور عقیدے پر نہیں تھے وہ بھی اڑان بھرتے جہازوں کی دم سے لٹک گئے۔

اس پوری بھگدڑ میں سب سے پہلے ایک طالب دشمن اور امریکا نواز بزرگ کو بھی فرار ہونا چاہیے تھا۔ وہ کہیں بھی باآسانی فرار ہوسکتا تھا، مگر وہ کابل میں اپنے گھر کے پائیں باغ میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ قہوہ پیتا رہا۔ اس بزرگ نے صدر اشرف غنی کو بھی پیغام بھجوایا، دیکھو آسمانوں پر فیصلے ہوچکے ہیں، مزاحمت مت کرنا۔

طالبان کے نمائندوں کی ایوان صدر میں اشرف غنی سے ایک مختصر ملاقات ہوئی۔ سلام اور وعلیکم سلام کے بیچ  ہی شطرنج کی بساط پر مہرے بدل گئے۔ امر اللہ صالح نے پنجشیر کی راہ لی۔ اشرف غنی اڑن کٹولے پر بیٹھ کر لاہوت و لامکان کی طرف نکل گئے۔ کابل کا بزرگ اب بھی تسلی سے 30دانوں والی تسبیح پھیرتا رہا۔ آنے والوں کو آتے ہوئے اور جانے والوں کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

یہ مطمئن بزرگ کیوں نہیں بھاگا۔ اب کہاں ہے اور کیا سوچتا ہے؟ اگلی نشست میں بات کرتے ہیں!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فرنود عالم

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: نائن الیون امریکا نے طالبان کے کابل میں کے ساتھ کے بعد کو بھی کے لیے

پڑھیں:

اسحاق ڈار کا دورہ کابل، نائب وزیراعظم، وزیر خارجہ سے ملاقاتیں: پاکستان افغانستان کا بہتر روابط، مضبوط ٰتعلقات برقرار رکھنے پر اتفاق

کابل+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورہ پر کابل پہنچ گئے جہاں انکی اعلیٰ افغان حکام سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، اس موقع پر مشترکہ امن و ترقی کا عہد کیا گیا۔ نائب وزیرِ اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے افغانستان کے قائم مقام وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند، نائب وزیر اعظم ملا عبدالسلام حنفی، وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سمیت دیگر سے ملاقاتیں کیں جس میں سکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون پر بات چیت ہوئی۔ ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں برادر ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی تبادلوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان اہم مذاکرات میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ہوا اور مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ ملاقات میں دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت کو مثبت ماحول میں جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اسحاق ڈار نے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغان قیادت سے سکیورٹی، تجارت اور افغان مہاجرین کی واپسی پر بات ہوئی ہے، افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو اپنا تمام سامان بھی ساتھ لیجانے کی اجازت ہوگی۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی میں کوئی شکایت آئی تو فوری ازالہ کیا جائے گا، اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے اور رابطہ نمبرز بھی جاری  کررہے ہیں، وزارت داخلہ اس حوالے سے 48 گھنٹوں میں نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ افغان مہاجرین کی جائیدادیں نہ خریدنے کی بات درست نہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ 30  جون کو ٹرانزٹ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم فعال ہوجائے گا جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا اور تجارتی نقل و حمل میں تیزی آئے گی، خطے کی ترقی کیلئے افغانستان کے ساتھ ملکر کام کریں گے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے جبکہ پاکستان کی سرزمین بھی افغانستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔ ہمیں خطے کے امن اور ترقی کیلئے ملکر کام کرنا ہے۔قبل ازیں ہوائی اڈے پر افغان ڈپٹی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد نعیم وردگ، ڈی جی وزارت خارجہ مفتی نور احمد، چیف آف اسٹیٹ پروٹوکول فیصل جلالی نے اسحاق ڈار کا استقبال کیا۔ اس موقع پر افغانستان میں پاکستان کے ہیڈ آف مشن سفیر عبید الرحمان نظامانی اور سفارتخانے کے افسران بھی موجود تھے۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اسحاق ڈار کے ہمراہ وفد میں سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری ریلوے، وزارت خارجہ اور ایف بی آر کے سینئر افسران شامل ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم کسی کو اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے، افغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ پر بات ہوئی تجارتی سامان کی نقل و حمل کیلئے تبادلہ خیال ہوا صرف این ایل سی کافی نہیں مزید دو کمپنیاں شامل کیں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سے پاکستان اور افغانستان کو فائدہ ہوگا۔ افغانستان سے مذاکرات میں چار اصولی فیصلے ہوئے افغان قیادت سے پاکستان سے افغان میں مہاجرین کی واپسی پر بات ہوئی افغان مہاجرین کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا۔ پاکستان سے واپس جانے والوں کو اگر کوئی شکایت ہے تو رابطے کیلئے نمبر جاری کر رہے ہیں، افغان شہریوں کو اپنے اثاثہ جات واپس لے جانے کی اجازت ہے، حکومت نے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی کہ واپس جانے والے مہاجرین کی جائیداد نہ خریدیں واپسی پر کسی مہمان کے ساتھ صحیح برتاؤ نہیں ہو رہا تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے گا۔ نوٹس میں آیا ہے کہ واپس جانے والے کچھ مہاجرین کو جائیدادیں فروخت کرنے میں مشکلات ہیں۔ اگر افغان مہاجرین کو جائیداد سے متعلق کوئی مشکل ہے تو حل کیلئے کمیٹی قائم کر دی۔ خطے کی ترقی اور امن کیلئے ہمیں ملکر کام کرنا ہے طورخم بارڈر پر آئی ٹی سسٹم بھی جلد فعال کیا جائے گا 30 جون کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم فعال ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں پاکستان، افغانستان نے روابطہ برقرار رکھنے کا عزم کیا ہے۔ تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا، افغان وزیر خارجہ کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔ افغان عبوری وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں بہت مفید رہیں، بھرپور مہمان نوازی پر افغان قیادت کے مشکور ہیں۔ دونوں ممالک نے برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ میزبانوں سے کہا کسی کی سرزمین دوسرے کے خلاف دہشتگردی میں استعمال نہیں ہونی چاہئے، دونوں ملک اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال ہونے سے روکنے کے ذمے دار ہوں گے۔ اسحاق ڈار افغانستان کا دورہ مکمل کر کے واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاکستان اور افغانستان کا کابل ملاقات میں ہونے والے فیصلوں پر جلد عملدرآمد پر اتفاق
  • افغان سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دشمن سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوگی، کابل
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل، نائب وزیراعظم، وزیر خارجہ سے ملاقاتیں: پاکستان افغانستان کا بہتر روابط، مضبوط ٰتعلقات برقرار رکھنے پر اتفاق
  • اسحٰق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی اور امن و سلامتی سے متعلق مذاکرات شروع
  • اسحق ڈار اہم ترین دورے پر کابل چلے گئے،قائمقام وزیراعظم ،وزیرخارجہ سے ملیں گے
  • نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے۔