ملک میں جی ڈی پی کی گروتھ بہت ہی کم ہو رہی ہے
اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے ہمارے ہاں جب بھی رمضان کا چاند چڑھے یا کوئی آئی ایم ایف کا چاند چڑھے، اس کے ساتھ مہنگائی نے لازمی آنا ہوتا ہے، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، یہ شرط ہے کہ چاند مہنگائی کے بغیر آیا ہی نہیں کرتا، اسے شاید ڈر لگتا ہے کہ پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ رمضان شروع ہوتے ہی پھل بھی مہنگے ہو جاتے ہیں، آئی ایم ایف کے وفد سے بھی مذاکرات جاری ہیں ابھی ایک وہ طوفان آنے والا ہے، اشرافیہ کو قیمتیں بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں سیدھا سیدھا طلب اور رسد کا فارمولا ہے ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، آج فروٹ جس ریٹ پر بک رہا ہے دس رمضان کے بعد اس کا ریٹ خود بخود گر جائے گا، بیس رمضان کے بعد اور گر جائے گا، یہ ہمیشہ سے ہے اس کو آپ روکنا چاہیں تو بھی نہیں روک سکیں گے،آپ طے کر لیں کہ ایک ہفتہ فروٹ نہیں کھانا فروٹ کھائے بغیر ہم اور آپ زندہ رہ سکتے ہیں۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مہنگائی کم نہیں ہوئی، ہمیں اپنے دیکھنے والوں اور سننے والوں پر یہ واضح کرنا چاہیے مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک سال پہلے ایک چیز جتنے کی تھی وہ سستی ہو گئی ہے، ملک میں جی ڈی پی گروتھ نہیں ہو رہی اگر ہو رہی ہے تو بہت ہی کم ہو رہی ہے، جب جی ڈی پی گروتھ کم ہو گی تو روزگار کے مواقع کم ہوں گے، بیروزگاری کی شرح ساڑھے نو فیصد ہے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ اگر مہنگائی چالیس فیصد تک بڑھ گئی تھی اور اب اگر وہ پانچ فیصد کے پاس آگئی ہے تو مہنگائی کا رکنا بھی آج کے دور میں سب سے بڑا تحفہ ہے، افراط زر اگر اٹھائیس فیصد سے ساڑھے پانچ فیصد پر آیا ہے تو یہ بھی ایک بہتری کی علامت ہے کہ اگر بڑھتا جاتا تو میں اور آپ تقریر کے علاوہ کیا کر سکتے تھے، ایشو یہ ہے کہ بہتری کی طرف سفر شروع ہے، مہنگائی کے بڑھنے میں کچھ رکاوٹ آئی ہے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ رمضان سے پہلے بھی انتظامیہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہ چیزیں کنٹرول نہیں ہوتیں، ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا جو گیپ ہے ادھر یہی ہوتا ہے، صرف پھل ہی نہیں، دودھ اور دہی کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے،حکومت نے دس ہزار روپے دینے کی جو مہم شروع کی ہے وہ ایک اچھا اقدام ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ ہو رہی
پڑھیں:
بیوروکریسی کی کارکردگی جانچنے کا نیا نظام منظور، ایف بی آر پر تجربہ کامیاب
ملک میں سول سروس کی کارکردگی اور استعداد میں اضافے کیلئے بڑی اصلاحات لائی گئی ہیں اور کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کیلئے ایف بی آر میں ایک نئی پرفارمنس مینجمنٹ اسکیم متعارف کرائی گئی جسے سینٹرل سپیریئر سروسز کی تمام سروسز اور کیڈرز تک وسعت دی جائے گی تاکہ کارکردگی کی جائزہ رپورٹس (پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹس) ’’پی ای آرز‘‘ کے موجودہ ناقص اور ہیرا پھیری پر مبنی نظام کو تبدیل کیا جا سکے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے اس سکیم کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ایف بی آر کے معاملے میں کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس (جسے انکم ٹیکس گروپ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے) کے 98 فیصد افسران کی سابقہ درجہ بندی کو ’’شاندار‘‘ اور ’’بہت اچھا‘‘ کے طور پر کم کر کے صرف 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔گزشتہ نظام کے تحت، کسٹمز اور انکم ٹیکس افسران کی 99؍ فیصد تعداد کو ان کی دیانتداری کے لحاظ سے بہترین (’’اے کیٹگری‘‘) قرار دیا جاتا تھا۔ نئے نظام کے تحت بہترین کارکردگی دکھانے والوں کو دوسروں کے مقابلے بہتر معاوضہ دیا جائے گا۔ کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملنے والے معاوضے کے پیکیج کا ہر 6 ماہ بعد جائزہ لیا جائے گا۔وزیر اعظم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے کہا ہے کہ وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کی دیگر تمام سروسز اور کیڈرز کیلئے ایف بی آر کے نئے پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کا جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کرے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نظام ملک کی سول سروسز کی کارکردگی اور اس کے موثر ہونے کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دے گا۔ نیا نظام موجودہ چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کا آئیڈیا ہے، جنہوں نے اپنی ٹیم کے تعاون سے پوری اسکیم کو ڈیزائن، اس کا تجربہ اور پھر کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے ہر افسر کے گزشتہ 6 ماہ کے جائزے کے دوران اسے کامیابی سے نافذ کیا۔ ماضی میں تقریباً ہر افسر کو اس کی ساکھ اور کارکردگی سے قطع نظر ’’شاندار‘‘ ’’بہت اچھا‘‘ اور ’’بہت ایماندار‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب نئے نظام کے تحت، ’’اے‘‘ کیٹیگری سے ’’ای‘‘ کیگٹری تک کی ہر کیٹیگری میں 20؍ فیصد افسران ہوں گے جن کا فیصلہ مکمل طور پر ڈیجیٹائزڈ کارکردگی کے نظام کی بنیاد پر کیا جائے گا اور اس میں افسران کے کام کے معیار اور ان کی ساکھ پر مرکوز رہے گی۔
نہ صرف ہر افسر کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام کسی بھی ممکنہ ہیرا پھیری یا مداخلت سے پاک ہے بلکہ بہتر گریڈ میں آنے والوں کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر معاوضہ بھی دیا جائے گا۔ ایف بی آر کے معاملے میں، اے کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو چار گنا زیادہ تنخواہ ملنا شروع ہوگئی ہے، بی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو تین گنا، سی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو دو گنا جبکہ ڈی کیٹگری کے 20 فیصد افسران کو ایک اضافی تنخواہ مل رہی ہے۔ای کیٹگری کے افسران کیلئے کوئی اضافی معاوضہ نہیں۔ اس اسکیم کا ہر 6؍ ماہ بعد انفرادی لحاظ سے کارکردگی کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے گا۔ ایف بی آر کے افسران کے معاملے میں شاید ہی چند ارب روپے کا ہی اضافی بوجھ ہو۔ کارکردگی جانچنے کے اس نئے نظام کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں نہ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ہو سکتی ہے نہ اس میں مداخلت کی جا سکتی ہے۔ کسی فرد، سینئر حتیٰ کہ حکمرانوں کی خواہشات کو بھی پورا کرنا ممکن نہیں۔ اس سسٹم کے تحت، پہلے ہی کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو سروس کے 1500 سے زائد افسران پر تجربہ کرکے اسکیم پر عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ ہر افسران کا 45 ساتھیوں (سینئرز، جونیئرز، سول سروس کے ساتھیوں اور بیچ میٹ) کے ذریعے ہر 6 ماہ بعد گمنام انداز سے فورسڈ رینکنگ سسٹم کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے۔ فورسڈ رینکنگ سسٹم اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ 5 کیٹگریز میں ہر ایک میں20 فیصد افسران تک محدود رکھا جائے۔
اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی سروس یا کیڈر میں 20 فیصد سے زیادہ ’’شاندار‘‘ کارکردگی والے افسران نہیں ہوں گے۔ 45 ساتھیوں کی شناخت کو مکمل طور پر گمنام رکھنے کیلئے جدید سائبر سیکیورٹی ٹولز کا استعمال کیا گیا ہے اور سسٹم کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔ سسٹم تک رسائی چیئرمین ایف بی آر اور ایف بی آر کے تین ممبران کو ہو گی تاہم ان میں سے کوئی بھی شخص کسی افسر کی رپورٹ کو تبدیل یا اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتا۔ ایف بی آر کے تینوں ممبران ڈیٹا تک صرف مشترکہ انداز سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں، اور ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے کسی بھی غیر مجاز حرکت یا سرگرمی کی اطلاع 5 مختلف افراد تک پہنچ جائے گی تاہم، رپورٹ میں تبدیلی پھر بھی ممکن نہیں ہوگی۔45 افراد کو منتخب کرنے کیلئے ایک چار سطحوں پر مشتمل ایک طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ایسے افراد کو منتخب کرتا ہے جو اُس افسر کو ممکنہ طور پر جانتے ہیں جس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ یہ لوگ دیانتداری پر نمبر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تکنیکی ٹیم افسر کے کام کے معیار کا بھی جائزہ لے گی۔تکنیکی پینل، جس میں ایف بی آر کے ریٹائرڈ افسران اور دیگر ٹیکس پریکٹیشنرز شامل ہیں، ڈیجیٹائزڈ سسٹم کے ذریعے بے ترتیب (رینڈم) انداز سے منتخب کردہ افسران کے کام کے معیار کا جائزہ لے گا۔ ایف بی آر نے نئی حکومت کے تحت گزشتہ 6 ماہ سے اپنے تمام افسران کا جائزہ (اسیسمنٹ) کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔