Express News:
2025-12-13@23:06:24 GMT

آپ کی تھوڑی سی مہربانی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں بھی آئی پوڈ‘ آئی پیڈ اور آئی فون استعمال ہوتا ہے وہاں سٹیو جابز کا نام ضرور لیا جاتا ہے‘اس شخص کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں جدت ‘ معیار اورنئے آئیڈیاز کی وجہ سے ٹیکنالوجی کا امام مانا جاتا ہے لیکن ہمارا موضوع اس وقت اس کی کام یابیوںسے زیادہ اس کا بچپن ہے‘ اسٹیو جابز 24فروری 1955کو سان فرانسیسکو میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد عبدالفتاح جندلی تھے‘یہ شام کے مسلمان تھے جب کہ ان کی والدہ سوئس نژاد امریکن تھی اور ان کا نام جو این شبلے تھا‘ دونوں نے باقاعدہ شادی نہیں کی تھی‘ یہ مغربی معاشرے میں ایک عام سی بات ہے‘جو این شبلے کے ہاں اسٹیو کی پیدائش ہوئی۔

 سماجی دباؤ کی وجہ سے جندلی اور جو این شبلے نے اسٹیوجابز کو کسی بے اولاد جوڑے کو گوددینے کا فیصلہ کیا‘ خوش قسمتی سے انھیں ایک جوڑا پال اور کلارا جابز کی صورت میں مل گیا‘ پال اور کلارا جابز نے اسٹیو کو گود لے لیا‘ اسٹیو اسی جوڑے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ جابز لکھتا ہے‘ پال اور کلارانے اسٹیو کو بھر پور محبت دی اور اس کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی‘ اسٹیو بڑا ہوا اور اپنی تخلیقی صلاحیت‘محنت اور جستجو کی وجہ سے تاریخ میں اپنا نام رقم کر گیا۔

آپ چند لمحوں کے لیے سوچیں اگر پال اور کلارا اسٹیو کو گود نہ لیتے تو شاید آج دنیا میں ایپل کمپنی ہوتی اور نہ ہی آئی فون‘ آئی فون اور اسٹیو کا نام ایک ساتھ آتا ہے تو جابز بھی لکھا جاتا ہے جو اصل میں اس گود لینے والی خاتون کے نام کا آخری لفظ ہے۔ کلارا جابز یوں پال اور کلارا جابز اپنے انسان دوست ہونے کی وجہ سے یاد رکھیں جائیں گے۔اللہ کا قانون یہی ہے وہ انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والوں کے نام کو زندہ رکھتا ہے۔

آپ اب ایک دوسری کہانی بھی ملاحظہ کیجیے۔ایڈ گر ایلن پو ادب کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے ۔یہ The Tell-Tale Heart اور The Black Cat جیسی کہانیوں کا تخلیق کار ہے‘پو بے شمار ایسی کہانیوں‘ نغموں اور ناولز کا ذخیرہ چھوڑ کر گیا جو انگریزی ادب کی دنیا میں لمبے عرصے تک پڑھے جائیں گے‘ ایڈ گر ایلن پو 1809 میں پیدا ہوا۔ دو سو سال ہو گئے ہیں اس کا لٹریچر اور نام زندہ ہے ۔ پو کے والدین تھیٹر ادا کار تھے لیکن وہ دونوں اس وقت انتقال کر گئے جب ایڈ گر ایلن پو صرف تین سال کا تھا۔والدین کے بعد جان ایلن اورفرانسس ایلن نے پو کو گودلے لیا۔

فرانسس ایلن کی کوئی اولاد نہیں تھی‘ اس نے پو کو محبت اور شفقت کے ساتھ پالا۔ پو پوری زندگی اپنی تحریروں میں گود لینے والی اپنی اس ماں کا ذکرکرتا رہا‘ جان ایلن نے بھی پو کی پرورش کے معاملے میں اپنی بیوی کا بھرپور ساتھ دیاتھا یوں یہ یتیم بچہ پلا‘ اس نے تعلیم حاصل کی اور بعدازاں اس نے بڑا ہو کر انگریزی ادب میں اپنانام اور مقام پیدا کیا۔ ایڈ گر ایلن پو میں ایلن لفظ اسی گو د لینے والے جوڑے کے نام سے لیا گیا ہے۔ سوچیں اگر ایڈ گر کو یہ خاندان سہارا نہ دیتا‘یہ اسے گود نہ لیتا تو کیا دنیا میں ایڈگر اور اس جوڑے کا نام لینے والا کوئی موجو د ہوتا؟ کسی انسان کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے اللہ کا قانون حرکت میں آیا اور یو ں یہ جوڑا اور اس کا نام امر ہو گیا ۔

ہمارے ملک میں لاکھوں بچے اچھی خوراک اور تعلیم سے محروم ہیں‘ دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے کاغذ اور سیاہی کی خوشبو سونگھنے سے محروم ہیں۔یہ دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے بھی سٹیوجابز اور ایڈگرایلن پو ہیں‘ ان میں کتنا ٹیلنٹ چھپاہوا ہے یہ صرف اللہ جانتا ہے ۔ ان بچوں کی تعلیم ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ اس وقت ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ یہ اس خوف ناک چیلنج سے ترجیحی بنیادوں پر نبٹ سکے چناں چہ پاکستان میں بہت سے لوگ انفرادی طور پر اورکئی ادارے اجتماعی طور پر تعلیم کے اس بحران کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ریڈ فاؤنڈیشن بھی ان اداروں میں سے ایک ادارہ ہے‘ میں گزشتہ کئی سالوں سے اس ادارے سے واقف ہوں‘میں ان کے ساتھ رضاکارانہ طور پر بھی کام کرتا ہوں۔ریڈفاؤنڈیشن تعلیم کے میدان میں کمال کررہی ہے۔ یہ 400 تعلیمی ادارے 120 لٹریسی سینٹر اور 59 گورنمنٹ آف پنجاب کے تعلیمی اداروں کا انتظام سنبھال چکی ہے۔ سوالاکھ بچے ان اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔

ان سوا لاکھ بچوں میں 30ہزار یتیم اور غریب بچے ہیں۔ یہ بچے فاؤنڈیشن کے کفالت پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ 8000 بچوں کو گھروں میں راشن کے لیے سپورٹ بھی دی جاتی ہے جب کہ 14000یتیم بچوں کی مکمل تعلیمی کفالت کی جاتی ہے۔ 16000 غریب بچوں کے لیے مفت تعلیم کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ان بچوں میں کئی اسٹیو جابز اور ایڈ گر ایلن چھپے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی سائنس دان ‘ انجینئر‘ ادیب اور بزنس مین موجود ہیں۔ ان میں ٹیلنٹ کا خزانہ ہے۔ اس ٹیلنٹ کو تھوڑا سا پالش کرنے‘ ان بچوں کی ہمت باندھنے اور ان کی طرف تھوڑا سا دست شفقت بڑھانے کی دیر ہے اور یہ بھی ایڈگرایلن اور سٹیوجابز کی طرح کمال کر سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے یہ توفیق بھی اللہ نے آپ کے حصے میں لکھی ہو۔

رمضان المبارک کے مہینے کا آ غاز ہوچکا ہے۔آپ اس مہینے میں اپنی زکوٰۃ اور فطرہ دیتے ہیں ۔مسلمان اس مہینے میں بھوکے رہ کر بھوک کا احساس کرتے ہیں۔ پیاسا رہ کر پیاس کا ذائقہ چکھتے ہیں جس کے بعد ان کے دل میں بھوک اور پیاس سے سسکتے انسانوں کے لیے احساس پیدا ہوتا ہے۔مسلمان ہر سال یہ پریکٹس کرتے ہیں ‘ اللہ نے رمضان کے روزے فرض کر کے اس احساس کو زندہ رکھنے کی تاقیامت یاد دہانی کا انتظام کر دیا۔ اس رمضان میں آپ اپنی زکوٰۃ ‘ فطرہ اور عطیات سے اپنے لیے صدقہ جاریہ کا اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں ۔آپ 48 ہزار روپے دے کر کسی ایک بچے کے لیے سال بھر تعلیم کا بندوبست کر سکتے ہیں‘ آپ نے سال میں ایک بار 48 ہزار روپے جمع کرانے ہیں اور اس سے مستفید ہونے والا بچہ سارا سال نئے کپڑے پہن کر کتابوں ‘کاپیوں‘ جوتوں اور فیس کی ادائیگی کے غم سے آزاد ہو کرا سکول جائے گا‘ اس کی خوشی کا احساس سارا سال زندہ رہے گا۔اس کی ماں کے ہاتھ سارا سال آپ کے لیے اٹھتے رہیں گے ۔

آپ کی معمولی سی رقم آپ کی عد م موجودگی میں آپ کے لیے دعا بن جائے گی‘ آپ کی ڈھال بن جائے گی اور آخرت میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے قرب کا ذریعہ بن جائے گی۔ آپ جو ں ہی کسی بچے کی کفالت کی ذمے داری لیں گے اور 48000 روپے سالانہ فاؤنڈیشن کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کریں گے تو فاؤنڈیشن کا نمائدہ آپ کو رقم کی رسید کے ساتھ بچے کی تفصیل آپ کو ارسال کردے گا۔ سال کے آخر میں آپ کو بچے کی پراگریس رپورٹ تازہ تصویر کے ساتھ ارسال کی جائے گی اور اگلے سال کے لیے یاد دہانی کروائی جائے گی یوں آپ اگر کفالت جاری رکھنا چاہیں گے تو سلسلہ مزید آگے چلتا رہے گا ورنہ کوئی دوسرا خوش قسمت شخص اس بچے کے لیے وسائل فراہم کرنا شروع کر دے گا۔

فاؤنڈیشن یہ کام 30 سالوں سے کررہی ہے۔ فاؤنڈیشن نے مخیر حضرات کے تعاون سے 200 اسکولز کی اپنی عمارتیں بنالی ہیںاور کئی مزید زیر تعمیر ہیں کئی لوگوں نے اپنے پیاروں کے نام سے مکمل اسکولز بھی تعمیر کیے ہیں۔ کئی مخیر حضرات نے اپنی زائد از ضرورت جائیدادیں فاؤنڈیشن کو عطیہ کی ہیں۔ یوں سیکڑوں لو گ اس کار خیر سے جڑ چکے ہیں۔ آپ اپنی زکوٰۃ‘ صدقات‘ عطیات اور فطرہ سے ان یتیم بچوں کی کفالت کر سکتے ہیں۔ ایک بچے کا سالانہ خرچ 48000 روپے ہے۔ آپ بچے کی ذمے داری نہ لینا چاہیںتو آپ جو بھی رقم دے سکتے ہیں وہ ارسال کر دیں۔ آپ کی یہ رقم یتیم بچوں کے لیے قائم پول فنڈ کے اکاؤنٹ میں جائے گی‘آپ اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق زیادہ بچوں کو بھی فنانس کر سکتے ہیں‘ میرے ایک مہربان دوبئی میں رہتے ہیں‘ یہ 250 بچوں کی کفالت کر رہے ہیں۔

میری اس کالم کے ذریعے آپ سے اپیل ہے آپ اپنا دست شفقت بڑھائیں‘ اپنی زکوٰۃ‘صدقات اور عطیات فاؤنڈیشن کو ارسال کریں ۔اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں آپ کی مدد فرمائے گا‘ آپ فاؤنڈیشن کے نمایندے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو آپ ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں‘ آپ کی سہولت کے لیے فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ اور ویب سائٹ کی تفصیل بھی درج کررہا ہوں۔آپ کی تھوڑی سی مہربانی سے کسی بچے اور اس کے خاندان کی زندگی تبدیل ہو سکتی ہے۔

میزان بینک‘اکاؤنٹ ٹائٹل:       READ FOUNDATION

اکاؤنٹ نمبر: 0 3 0 3 0 1 0 0 2 3 5 7 8 8

انٹرنیشنل بینک اکاؤنٹ نمبر:

PK57MEZN0003030100235788

 سوفٹ کوڈ:  MEZNPKKA

بینک برانچ: F-7مرکز، جناح سپر مارکیٹ ، اسلام آباد

رابطہ نمبرز: +92 (0) 314 5025 767

واٹس ایپ  :

     +92 (0) 334 9272 523

 ای میل ایڈریس:

[email protected]

ویب سائٹ:

www.

readfoundation.org

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

کھسیانی بلی، کھمبا نوچے

گزشتہ مئی میں پاکستان نے بھارت کے خلاف جو آپریشن بنیان مرصوص کیا اور اس کے نتیجے میں بھارت کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی اور مہینوں ایک نسبتاً بہت چھوٹی طاقت کے ہاتھوں ایک بڑی طاقت کی ایسی درگت کو دنیا بھر نے دیکھا، سنا، تبصرے کیے اور دھوم مچ گئی۔

ظاہر ہے اس ہزیمت نے بھارت کو جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا۔ خبریں آنے لگیں کہ بھارت دوسرا آپریشن سندور کرنے والا ہے جس میں پاکستان کو سبق بھی سکھا دیا جائے گا اور اس شکست کا انتقام بھی لے لیا جائے گا۔

شکست کو تو بھارت نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا تھا چنانچہ وہ اس جنگ میں اپنی فضائیہ کو پہنچنے والے نقصانات کے اعتراف سے کنی کترا رہا ہے اور کسی طور یہ ماننے کو تیار نہیں ہوا کہ پاکستان نے اس کو غیر معمولی نقصانات پہنچائے ہیں لیکن زخم تو لگے تھے، اب کھسیانی بلی کھمبا نوچ رہی ہے۔

چند ماہ بعد جب بھارت کے ارباب حل و عقد کی سانسیں بحال ہوئیں اور وہ حملہ وملا کرنے کے ارادوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے پرانے حربوں پر اتر آئے ہیں۔ اب وہ پاکستان کو خود شکست دینے کا خواب بالائے طاق رکھ کر اندر سے پاکستان کی خودکشی کی آس لگا بیٹھے ہیں۔

چنانچہ پچھلے دنوں بھارت کے وزیر ’’جنگ و جدل‘‘ راج ناتھ سنگھ گویا ہوئے کہ پاکستان میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ ہونے والی ہے اور یہ کہ صوبہ سندھ جس کا کلچر قدیم بھارتی ثقافت یعنی موئن جو دڑو کے مطابق ہے جلد ہی وہاں ثقافتی یلغار ہونے والی ہے۔

انھوں نے اپنی زبان میں کہا کہ ’’ پاکستان وجود میں تو آگیا مگر اصل چیز ثقافتی اور تہذیب اقدار ہیں جو باقی رہتی ہیں۔ رہی سرحدیں تو وہ تو بدلتی رہتی ہیں اور کسے پتا کہ کب پاکستان کی سرحدوں میں تبدیلی واقع ہو جائے۔‘‘

راج ناتھ سنگھ جی نے درست فرمایا مگر سندھ کی تہذیب کو دور دراز تک لے جا کر موئن جو دڑو کے کھنڈرات سے ملا کر اپنی امیدوں اور آرزوؤں کو اس دور دراز کی شے سے ہم آہنگ کرنا محض تکلف ہے۔ راج ناتھ جی نے یہ بات نظرانداز کر دی ہے موئن جو دڑو کے بعد سندھ کے دریا سے بہت پانی بہہ گیا ہے۔ سندھ کی تہذیب، اس کے لباس، اس کی زبان ، اس کے رسم الخط اور اس کی تہذیبی روایات اب مسلم ثقافت سے ایسی اور اتنی ہم آہنگ ہو چکی ہیں کہ انھیں اس سے دورکرنا بڑا مشکل کام ہے اور یہ محض آرزومندی تو ہو سکتی ہے ہوش مندی ہرگز نہیں۔

 سندھی زبان عربی (اسلامی) الفاظ سے مالا مال ہے، اس کا رسم الخط عربی رسم الخط ہے۔ سندھ مہمان نوازی اور بھائی چارے اور برداشت کی خوبیوں کا حامل صوبہ ہے۔ یہ وہی صوبہ ہے جس نے پاکستان میں شمولیت میں پہل کی تھی اور سب سے آگے بڑھ کر پاکستان کے وجود میں ضم ہوا تھا۔

اس لیے پاکستان کی اس کی علیحدگی کا تصور بھارتی آرزو مندی تو ہو سکتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔جاننے والے جانتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ہر صوبے میں اپنی اس آرزو کو آزماتا رہا ہے مگر اسے ناکامی اور نامرادی کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔ اب اس بار میدان جنگ میں ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد ایک بار پھر اپنی آرزو مندی کو بروئے کار لانے کے لیے سندھ کا انتخاب فرمایا مگر:

اے بسا آرزو کہ خاک شدی

لیکن ایک بات انھوں نے درست کہی کہ سرحدوں کا کوئی اعتبار نہیں، یہ بدلتی رہتی ہیں اور نہیں کہا جاسکتا کہ کب کون سی سرحد بدل جائے اور اس اصول کا اطلاق بھارت پر بھی تو ہو سکتا ہے۔ بھارتی پنجاب، بھارت سے اکتایا بیٹھا ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ کب بھارتی پنجاب کی سرحدیں ہی تبدیل ہو جائیں۔ادھر جنوبی بھارت میں وقفے وقفے سے علیحدگی کی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ آخر رام چندرجی نے لنکا کو بھارت کا حصہ بنا دیا تھا مگر آج لنکا ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، کل کو بھارت کا کوئی بھی اٹوٹ انگ اگر ٹوٹ پڑا توکیا ہوگا۔

پاکستان کی فکرکرنے کے بجائے راج ناتھ جی کو بھارت میں علیحدگی کی اٹھنے والی آوازوں کو غور سے سننا چاہیے۔ کہیں یہ آوازیں محض آوازیں نہ رہیں اور ان کے بیان کردہ اصول کے مطابق کہ سرحدوں کا اعتبار نہیں جانے کب بدل جائیں۔

آج ناتھ سنگھ نے جو بات اب واضح طور پرکہہ دی ہے وہ بھارتی لیڈر شپ کا اصول طرز فکر رہا ہے۔ پاکستان کی تخلیق سب جانتے ہیں کہ بھارت کی سخت مخالفت کے باوجود عمل میں آئی تھی چنانچہ اس کی تخلیق اس کے پہلے دن سے بھارت اس کے وجود کی مخالفت پر کمربستہ رہا ہے اور اس کی تباہی اور بربادی کا خواہش مند رہا ہے اور اس نے یہ بات چھپا کر نہیں رکھی ہے۔ جب بھی متوقع ملا اس نے کھل کر کھیلا بھی ہے۔

مگر اس بار وہ یہ موقع تلاش کرتا ہی رہ گیا اور انشا اللہ تلاش کرتا ہی رہے گا مگر کچھ نہ پا سکے گا۔ اب پاکستان بھی تجربات سے گزر کر دشمن کے ہتھ کنڈوں سے آگاہ ہو چکا ہے۔ اب پاکستانی قوم خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے اتحاد پر قائم رہنے کا عہد کیے ہوئے ہے اور بھارت کی ’’توقعات‘‘ سے بے خوف ہو کر حمایت ایزدی کے بل بوتے پر زندہ رہنے کے فن سے آشنا ہو چکی۔

متعلقہ مضامین

  • ایک عام سی بات
  • فضا علی کی ندا یاسر پر تنقید؛ یاسر نواز میدان میں آ گئے، ویڈیو وائرل
  • کوئٹہ: موسیٰ خیل میں ہیضہ سے6 بچوں سمیت 8 افراد جاں بحق
  • خاقان شاہنواز اور سبینہ سید کب شادی کر رہے ہیں؟
  • اللہ میاں کی Fan Following
  • چیٹ جی پی ٹی کے اکسانے پر بیٹے کی ماں کو قتل کرکے خودکشی؛ مقدمہ درج
  • چیٹ جی پی ٹی کا کمال، ماں کو قتل کرکےبیٹے کی خودکشی
  • امریکی شخص کی ماں کو قتل کرنے کے بعد خودکشی، چیٹ جی پی ٹی ذمہ دار قرار
  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • کھسیانی بلی، کھمبا نوچے