Express News:
2025-04-22@05:59:24 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط دوم)

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

پہلی عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں بالفور ڈیکلریشن کے نتیجے میں فلسطین پر برطانوی قبضے کے بعد یورپی یہودیوں نے جس بے فکری سے فلسطینی ساحلوں پر اترنا شروع کیا۔اس کے سبب صدیوں سے آباد فلسطینی عربوں اور نووارد قبضہ گروپ کے درمیان خونی لکیر کھنچنا ناگزیر تھا۔گزشتہ مضمون میں ہم نے انیس سو بیس اور اکیس کے فسادات کا بالتفصیل ذکر کیا۔ ہر نیا فساد گزشتہ سے زیادہ شدید ہوتا گیا اور پھر انیس سو انتیس کا خونی سنگِ میل آ گیا۔اسے عبور کرنے کے بعد برطانیہ کی زیرِ نگرانی خانہ جنگی کا ایک طویل دور شروع ہوا اور اختتام بشکلِ اسرائیل اس خطے کے سینے میں مغربی استعماری میخ گڑنے پر ہوا۔

فلسطین کی عرب سیاسی قیادت نے انیس سو بیس کے عشرے میں یہ برطانوی تجویز قبول کر لی کہ مستقبل کے سیاسی ڈھانچے میں آبادی کے ہر طبقے کو حصہ بقدرِ جثہ ملنا چاہیے۔مگر چھ فیصد یہودیوں کی قیادت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ ایک قاش کے بجائے پورا سیب لینا چاہتی تھی۔

اگرچہ انیس سو اکیس کے فسادات کے بعد قابض برطانوی انتظامیہ نے امیگریشن کو محدود کرنے کے علاوہ مقامی زمینوں کی بلااجازت خرید و فروخت پر بظاہر پابندی عائد کر دی مگر چور دروازے سے دونوں کام جاری رہے اور برطانوی انتظامیہ نے یوں ظاہر کیا گویا اسے چور دروازے کا علم ہی نہ ہو۔

چھ اگست انیس سو انتیس کو تل ابیب میں مسلح یہودی ملیشیا ہگانہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے چھ ہزار حامیوں کا جلسہ ہوا جس میں انیس سو اٹھائیس میں ہونے والے اس فیصلے کو مسترد کر دیا گیا کہ پورا اقصی کمپاؤنڈ مسلم اوقاف کی ملکیت ہے اور عبادت کے خواہش مند غیر مسلم صرف طے شدہ جگہ تک ہی جا سکتے ہیں اور اپنے ساتھ کوئی ایسی شے نہیں لا سکتے جس سے جارحیت کا احتمال ہو۔

چودہ اگست کو یروشلم میں کمپاونڈ کی مقدس مغربی دیوار تک لگ بھگ سات ہزار یہودی جلوس کی صورت میں پہنچے اور وہاں بعض مقررین نے اردن تا ساحلِ بحیرہِ روم ارضِ اسرائیل کے نعرے لگا کے کشیدگی کئی گنا بڑھا دی۔دوسری جانب سے بھی اعلانِ جہاد ہو گیا اور پمفلٹ تقسیم ہونے لگے کہ یہودی پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہ رہے ہیں۔چھرے نکل آئے اور املاک کو آگ لگنے لگی۔

ایسے حالات کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی انتظامیہ کے پاس افرادی قوت مضحکہ خیز حد تک کم تھی۔پورے فلسطین میں سو سے بھی کم برطانوی فوجی ، پانچ سے چھ جنگی طیارے اور چھ بکتر بند گاڑیاں تھیں۔پولیس کی نفری لگ بھگ ڈیڑھ ہزار تھی۔اس میں تقریباً پونے دو سو برطانوی افسر اور سپاہی تھے۔

برطانوی انتظامیہ نے یہودیوں کے تحفظ کے لیے اٹھارہ سابق یہودی فوجیوں ، اکتالیس یہودی پولیس کانسٹیبلوں اور ساٹھ سویلینز کو ڈنڈے اور دیگر ہتھیار رکھنے کی اس شرط پر خصوصی اجازت دی کہ یہ طاقت صرف املاک پر حملے سے دفاع میں استعمال ہو گی۔جب کہ عرب اکثریت کو اپنے تحفظ کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی۔مگر جس طرح سے یہ مسلح طاقت استعمال ہوئی۔اس کے صرف چار دن بعد ہی انتظامیہ نے یہ اسلحہ واپس لے لیا۔

انیس سو انتیس کے فسادات کے بعد جو برطانوی تحقیقاتی کمیشن جسٹس والٹر شا کی سربراہی میں بنا اس کے مطابق فساد کی فوری وجہ چودہ اور پندرہ اگست کو یروشلم کے قدیم شہر میں مسجدِ اقصی کمپاؤنڈ کی مغربی دیوار تک عبادت کے لیے جانے والے یہودی جلوس کی جانب سے ہیکل سلیمانی کو بحال کرنے کے لیے اشتعال انگیز نعرے تھے۔

نیز انیس سو پچیس میں طے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین اپنے ساتھ کرسیاں بھی لائے اور عورتوں اور مردوں کو الگ کرنے والی ایک پارٹیشن بھی کی۔اس کے سبب عربوں کا یہ خدشہ بدظنی میں بدل گیا کہ یہودی بتدریج پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہتے ہیں۔عرب قیادت نے بھی تحمل و بردباری دکھانے کے بجائے اس طرح کے پمفلٹ تقسیم کیے کہ یہودی مسجدِ اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنے آ رہے ہیں۔

 افواہوں کے بازار نے یروشلم سے باہر دیگر قصبات تک پھیل کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔پہلے سے بھرے بیٹھے لوگوں کو تشدد کا موقع مل گیا۔کمیشن کے مطابق برطانوی انتظامیہ نے بھی امن و امان کے بگڑتے آثار دیکھنے کے باوجود تشفی بخش پیشگی انتظامات نہیں کیے۔پولیس میں ڈسپلن کی کمی دیکھی گئی۔شا کمشن نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ یورپ سے پناہ گزینوں ( یہودیوں ) کی مسلسل آمد نے مقامی عرب آبادی کو معاشی اور زمینی محرومی کے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان خدشات کا ازالہ کیے بغیر حالات مزید بگاڑ کی طرف جا سکتے ہیں۔

تئیس تا انتیس اگست کے خونی ہفتے میں سرکاری طور پر ایک سو تینتیس یہودی ہلاک اور تین سو انتالیس زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک سو سولہ عرب ہلاکتوں اور دو سو بتیس زخمیوں کا شمار کیا گیا۔مگر عرب قیادت کا دعوی تھا کہ ایک سو سولہ تو صرف پولیس نے مارے ہیں۔لگ بھگ پچاس دیگر عرب یہودیوں کے ہاتھوں مرے۔

ان فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک سو چوہتر عربوں اور ایک سو نو یہودیوں پر قتل اور اقدامِ قتل کی فردِ جرم عائد ہوئی۔ان میں سے چالیس فیصد عرب اور تین فیصد یہودی ملزموں کو ہی سزائیں سنائی گئیں۔

بدترین واقعہ ہیبرون ( الخلیل ) میں پیش آیا۔جب چوبیس اگست کو مشتعل عرب ہجوم کے حملے میں چھ سو میں سے پینسٹھ یہودی ہلاک اور اٹھاون زخمی ہوئے۔گزشتہ روز جافا میں ایک یہودی پولیس کانسٹیبل اور اس کے ساتھیوں نے ایک مقامی امام سمیت خاندان کے چھ افراد کو مسجد سے متصل گھر میں گھس کے قتل کر دیا۔یروشلم میں ایک یہودی گروہ نے نبی عکاشہ مسجد اور مزار کو آگ لگا دی۔انتیس اگست کو سفید نامی قصبے میں عرب ہجوم نے اٹھارہ تا بیس یہودیوں کو ہلاک اور لگ بھگ اسی کو زخمی کر دیا۔ رفتہ رفتہ حالات قابو میں آ گئے۔مگر یہ امن نہیں تھا بلکہ اگلے بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔

اس سے پہلے کہ ہم انیس سو چھتیس تا انتالیس کے پہلے عرب انتفادہ ( شورشِ عام ) کی ہڑبونگ میں داخل ہوں۔ایک عرب رہنما عز الدین القسام کا ذکر ضروری ہے۔ القسام نے عرب مزاحمتی نفسیات کو انیس سو تیس کے عشرے میں ایک نیا رخ دیا۔( جاری ہے )۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: برطانوی انتظامیہ نے کمپاو نڈ اگست کو میں ایک کرنے کے کے بعد کر دیا ایک سو کے لیے

پڑھیں:

کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر شہری ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی

اسٹیل ٹاؤن گلشن حدید میں ڈاکوؤں نے مزاحمت پر شہری کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔

کراچی کے علاقے ڈسٹرکٹ ملیر میں ڈاکوؤں نے پیر کی شب مزاحمت پر ایک شخص کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا جبکہ دوپہر میں اسی تھانے کی حدود گلشن حدید میں ڈاکوؤں کی فائرنگ سے کار شوروم کا مالک جاں بحق ہوا تھا اور اس قتل کے خلاف اہلخانہ اور علاقہ مکینوں نے پانچ گھنٹے تک نیشنل ہائی وے کے دونوں ٹریک پر دھرنا دیکر ٹریفک معطل کر دیا تھا۔

اسٹیل ٹاؤن کے علاقے گلشن حدید فیز 3 فلٹر پلانٹ کے قریب موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے لوٹ مار کی دوسری واردات کے دوران مزاحمت پر 33 سالہ اویس احمد کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔

مضروب کو ٹانگ پر گولی لگی تھی جسے چھیپا کے رضا کاروں نے فوری طبی امداد کے لیے جناح اسپتال پہنچایا۔

متعلقہ مضامین

  • زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی امانت ہے: مریم نواز
  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر ( حصہ پنجم )
  • کراچی: ڈکیتی مزاحمت پر شہری ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی
  • ملک میں نفرت انگیز مہمات؛ یہودی، یہودیوں کو ماریں گے، اسرائیلی اپوزیشن لیڈر نے خبردار کردیا
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب رضوی کیلیے عالمی ایوارڈ
  • ایم کیوایم کا گلگت بلتستان انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ
  • بھگوڑا یوٹیوبر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں
  • یہودیوں کا انجام
  • غزہ میں مزاحمت کاروں نے اسرائیلی ٹینک کو اڑا دیا، ایک افسر ہلاک، کئی زخمی
  • جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی