Express News:
2025-04-23@00:28:20 GMT

کوچۂ سخن

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

غزل 
اگلے پل ہی سامنے پھر کھینچ لاتا ہے مجھے
اتنی جلدی آئنہ کیا بھول جاتا ہے مجھے
وار میرا آج بھی کاری ہے لیکن کیا کروں
بَین کرتی عورتوں سے خوف آتا ہے مجھے
ایک تو ہے وقت کی زد پر فصیلِ جسم بھی
دوسرا اک غم کہیں اندر سے کھاتا ہے مجھے
رات بھر کرتا ہوں اپنے آپ کو تعمیر میں
کون ہے جو صبح دَم پھر سے گراتا ہے مجھے
جاں فشانی کا برا ہو، پوچھتے ہیں لوگ بھی
جُز محبت اور کیا کیا کام آتا ہے مجھے
وصل کی امید پر خود کو بھلا دیتا ہوں میں
ہجر آ کے آخرش مجھ سے ملاتا ہے مجھے
جانتا ہوں موت سے بچنے کا گُر لیکن اسد ؔ
دیر ہو جاتی ہے جب وہ یاد آتا ہے مجھے
(اسد رحمان۔ پپلاں)

غزل
لہکی ہوئی شاخوں پہ گل افشاں نہ ہوا تھا
یوں جشنِ طلب، جشنِ بہاراں نہ ہوا تھا
وہ زخم مجھے طوقِ گلو جیسا لگا ہے
جو زخم بھی پیوستِ رگِ جاں نہ ہوا تھا
اس بار ملا کیا کہ جدائی ہی جدائی
ہوتا تھا مگر یوں بھی گریزاں نہ ہوا تھا
قاتل کی جبیں پر بھی پسینے کی شکن ہے
ہیبت سے کبھی ایسی پریشاں نہ ہوا تھا
کچھ بات تو دامن کو لگی گل کی مہک میں
کانٹوں سے یونہی دست و گریباں نہ ہوا تھا
کیوں سیلِ بلا خیز بہا کر نہ گیا غم
کیوں شکوہ کم ظرفیِ طوفاں نہ ہوا تھا
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)

غزل
حوصلہ دیتے اشارے سے الگ ہونے لگا
میں ترے دھوپ کنارے سے الگ ہونے لگا
کیا ملا ہجر حویلی کی لپائی کر کے
سوکھے گارے کے تغارے سے الگ ہونے لگا
اس افق پار بلاوے کی کرن دمکی تھی
عہد باندھے ہوئے تارے سے الگ ہونے لگا
خواہشِ نفع میں کیا سانس شماری کرتا
روز کے بڑھتے خسارے سے الگ ہونے لگا
اپنی ہی ذات میں چھپنے کا عمل دیکھنا تھا
جیتنے والے سے، ہارے سے الگ ہونے لگا
تیری کشتی سے یونہی سا تھا تعلق میرا
اب میں تنکے کے سہارے سے الگ ہونے لگا
میں مداراتِ دل و جاں میں لگا ہوں طاہرؔ
نفس کے پھولے غبارے سے الگ ہونے لگا
(قیوم طاہر۔ راولپنڈی)

غزل
خوف کچھ پرچھائیوں سے اس قدر کھاتا ہوں میں
اپنے اندر جھانکتا ہوں اور ڈر جاتا ہوں میں
دوستو دیکھو یہ دنیا ہے اُسی جانب رہو
آئینے سے جھانکتے لوگوں کو سمجھاتا ہوں میں
اس کی آنکھوں سے پرے بیٹھا ہوں سو وہ دیکھ لے
دیکھیے اب کب تلک اس کو نظر آتا ہوں میں
پہلے برسوں کی ریاضت سے جلاتا ہوں میں آگ
آگ جلنے سے ذرا پہلے ہی بجھ جاتا ہوں میں
دل بھٹک جاتا ہے بچے کی طرح بازار میں
اس کو انگلی سے پکڑ کے گھر تلک لاتا ہوں میں
(احمد اویس۔ فیصل آباد)

غزل
ننی دیوار میں بھی تجھ سے دریچہ نہ بنا
اس لیے تو مرے دل تک ترا رستا نہ بنا
قد سے چھوٹے ہیں مگر مجھ سے بڑی نفرت ہے
پیڑ کو کہتے ہیں اس کے لیے سایا نہ بنا
اتنے تو یار ترے ہم بھی چلن جانتے ہیں
باغ یہ سبز دکھا کر ہمیں صحرا نہ بنا
روز مجھ سے یہ اداکاری نہیں ہو سکتی
اس لیے میرا جہاں بھر میں تماشا نہ بنا
تو نے بے کار ہیولا سا بنا ڈالا ہے
ایک حصہ بھی مرے خواب کا پورا نہ بنا
زندگی کیا ہے بتانا تھا کسی کو میں نے
لکھنے بیٹھا ہوں تو اس پر کوئی جملہ نہ بنا
کتنی نسلیں یہی کہتے ہوئے مر جائیں گی
اگلے لوگوں سے کبھی اچھا زمانہ نہ بنا
آئنہ سامنے ہوتے ہوئے اُن سے عادسؔ
کوئی چہرہ نہ بنا،کوئی شناسا نہ بنا
(امجد عادس۔راولاکوٹ)

غزل
اسے رہگزر کوئی کھا گئی یا بچھڑ کے اپنے ہی گھر گیا
''وہ جو عمر بھر کی رفاقتوں کا تھا مدعی وہ کدھر گیا''
وہ جو خواب تھے وہ بکھر گئے وہ جو آس تھی وہ سمٹ گئی
مجھے خوف جس کا تھا ہر گھڑی، مرا ہم نوا وہی کر گیا
یہ نئے زمانے کی ریت ہے تری کیا خطا تجھے کیا کہوں
تجھے دل سے جس نے لگایا تھا وہی تیرے دل سے اتر گیا
نہیں سہل عشق کی رہگزر،میں الم نصیب و خطا سرشت
اے نئے نئے سے مسافرو! جو چلا تو چل کے بکھر گیا
کبھی صحنِ دل میں اداسیاں جو بڑھیں تو ساز میں ڈھل گئیں
کبھی غم جو میری اساس ہے مری چشمِ تر میں ٹھہر گیا
مری ذات مشتِ غبار ہے ترا اختروں میں شمار ہے
ذرا یہ بتا کہ بچھڑکے تو،کہاں رفعتوں پہ ٹھہر گیا!
میں پھروں ہوں بارِجفا لیے کبھی اس ڈگر کبھی اُس نگر
کہ ثمرؔ یہاں کا رواج ہے جو بھی چپ رہا وہی مر گیا
(ثمریاب ثمر۔سہارنپور،اترپردیش، بھارت)

غزل
پھول کے ساتھ یوں ملائے پھول
پھول لائے ہیں ہم برائے پھول
اُس کی نرمی کا کیا بیاں کریے
وہ جو کھانے میں صرف کھائے پھول
من کا آنگن ہوا معطر تب
اُس نے ہنس ہنس کے جب کھلائے پھول
اُن کو دیکھا تو خوش ہوئی تتلی
اُن کو دیکھا تو مسکرائے پھول
اُن سے بنتی ہے سارے گلشن کی
مان لیتے ہیں اُن کی رائے پھول
یاد آیا وہ شبنمی چہرہ
پھول والے نے جب دکھائے پھول
آپ کے ہونٹ تھے تصور میں
ہم نے کاغذ پہ جب بنائے پھول
کون رکھتا ہے اپنے گلداں میں
اے مرے ہم نفس پرائے پھول
آپ جائیں گے جان سے اپنی
ہم نے بالوں میں گر سجائے پھول
تھی زمستانی چال موسم کی
رات بھر اوس میں نہائے پھول
جاگ اُٹھی ہماری محرومی
جب کسی کے لیے بھی آئے پھول
ہم نے تکیہ نہیں کیا اُس پر
خود ہی جا کر خرید لائے پھول
اے خدا میری خیر ہے لیکن
وہ سدا مہکے اور پائے پھول
(ماہم حیا صفدر۔فیصل آباد)

غزل
ہے موج آب عبث، آبشار لایعنی
ترے بغیر مرے گل! بہار لایعنی
مقیم گل وہ مرا کنج اضطراب میں ہے
ہے اس کے واسطے باغ قرار لایعنی
پروں کی ضرب سے دشت خلا لرز اٹھے
مرے لیے ہے فلک کا حصار لایعنی
نکل گیا وہ کسی اور سمت یار مرے
سمندِ وقت کا ہے انتظار لایعنی
یہ دشت ہو ہے بھلا کون ادھر سے گزرے گا؟
مجھے تو لگتی ہے یہ رہ گزار لایعنی
کوئی نگاہ نہ اٹھے اگر تری جانب
ترے وجود کا ہر انتشار لایعنی
قیام نور کا ہے کوئے بے نیازی میں
یہ عز و جاہ، یہ تاجِ وقار لایعنی
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی ،انڈیا)

غزل
رہ رہ کے کوئی زخم تو موجود ہے مجھ میں 
جو شاعری کی شکل میں بارود ہے مجھ میں
کب سے مری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے 
لگتا ہے کہ ہر جذبہ ہی مفقود ہے مجھ میں 
بارش کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا کوئی دن 
اب یوں ہے کہ بس گرد ہی مسدود ہے مجھ میں 
سو بار سمیٹی ہے خیالات کی گتھی 
وحشت کی مگر اب بھی اچھل کود ہے مجھ میں
میں اپنی خطاؤں میں اکیلا نہیں شامل 
اکسانے پہ اک اور بھی مردود ہے مجھ میں 
ہر ایک قدم پر ہیں امیدیں مری رب سے
بس ایک یہی منزلِ مقصود ہے مجھ میں 
(امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد) 

غزل 
دامنِ چاک کہاں سے لاتے
دلِ بیباک کہاں سے لاتے
عشق کی رمز سمجھ آ جاتی
اتنا ادراک کہاں سے لاتے
روح کے زخم چھپایا کرتی
ایسی پوشاک کہاں سے لاتے
ایک خواہش کی تلافی کے لیے
یار افلاک کہاں سے لاتے
تیرے کاسے کی طلب بھرنے کو
چشمِ نمناک کہاں سے لاتے
ہجر نے کاٹ لیا تھا شوزب
اس کا تریاق کہاں سے لاتے
(شوزب حکیم۔ لاہور) 

غزل
نت نیا اک عذاب خوابوں کا
زندگی ہے سراب خوابوں کا
میرے سینے پہ اس کا سر ہے اور
میرے سر اضطراب خوابوں کا
اس کے پہلو میں مجھ کو آتے ہیں
کیا کروں ان خراب خوابوں کا
جن کی تعبیر ہی نہیں کوئی
کون دے گا جواب خوابوں کا
موت سے انتظار بد تر ہے
بد سے بدتر عتاب خوابوں کا
داورِحشر لے نہ لے مجھ سے 
روز محشر حساب خوابوں کا
تیرے قائم کی سرخ ّآنکھوں سے
بہہ رہا ہے چناب خوابوں کا
(عبدالعزیز قائم۔ خوشاب)

غزل
سبھی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے 
حصولِ محبت، ہمیشہ نہیں ہے 
مرے بد گماں کو بتا دے یہ کوئی 
کہ ایسا ہے وہ اور ایسا نہیں ہے
فنا و بقا کے جو مابین ہے کھیل
ہر اک فیصلہ منصفانہ نہیں ہے
میں یکسانیت سے بہت تھک گیا ہوں
رمق زندگی میں بقایا نہیں ہے
 حسابِ حیاتِ بلا وجہ کے بعد
اسے جھیلنے کا ارادہ نہیں ہے 
(عبیداللہ عبدی۔ لاہور)

غزل
گرچہ تم روح میں نہاں بھی ہو 
پر مرے زخم سے عیاں بھی ہو 
جس طرح ہے یہاں، وہاں بھی ہو 
میری جنت میں میری ماں بھی ہو 
اے خدا اس قدر وہ میرا ہو 
وہ میرا لفظ ہو بیاں بھی ہو 
ہم نہیں مانتے کسی صورت 
ظلم جس پر بھی ہو جہاں بھی ہو 
اس سے بڑھ کر مجھے ستائے وہ 
اس سے بڑھ کر جو مہرباں بھی ہو 
(عاطف خان ۔خورہ آباد، ڈھکی ،ضلع چارسدہ)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے مجھ میں تا ہے مجھے نہ ہوا تھا تا ہوں میں خوابوں کا نہیں ہے پھول ا کبھی ا کے لیے بھی ہو

پڑھیں:

کوہ قاف میں چند روز

کچھ مقامات صرف جغرافیہ نہیں ہوتے وہ خواب ہوتے ہیں، وہ وہم و گمان کی دھند میں چھپی ہوئی ایسی حقیقتیں ہوتے ہیں جو اچانک سامنے آ کر دل کو چھو جاتی ہیں۔ آذربائیجان کا پہلا سفر، خاص طور پر باکو کی سرزمین پر پہلا قدم میرے لیے ایک ایسا ہی خواب تھا۔ ایک ایسا خواب جو ہر لمحہ، ہر منظر، ہر لمس میں حقیقت بنتا گیا۔ جس میں پہاڑوں کی پرچھائیاں تھیں، تاریخ کی سانسیں، ہوا میں گھلی محبت، اور آنکھوں میں بس جانے والے مناظرتھے۔

باکو کے سفر کا سبب بنا پی آئی اے جس کی پہلی پرواز نے لاہور سے باکو کے لیے اُڑان بھری،چار گھنٹے تیس منٹ کی پرواز کے بعد طیارے نے باکو کی سرزمین کو چھوا تو دل میں جیسے کوئی پُرانا ترانہ بج اٹھا۔ ائر پورٹ پر مسافروں کا والہانہ استقبال کیا گیا ۔ باکو ائر پورٹ کے ڈائریکٹر کے علاوہ پاکستان کے سفیر محترم قاسم محی الدین بھی موجود تھے۔

ہوائی اڈے سے باہر نکلتے ہی جس شے نے مجھے اپنی گرفت میں لیا وہ باکو کی خنک ہوا تھی، وہ ہوا جس میں نمکین بحیرہ کیسپین کی خوشبو بھی تھی اور کوہ قاف کی برفوں کی ٹھنڈک بھی تھی۔باکو شہر میں ایک طرف وہ تاریخی دیواریں ہیں جن کے اندر صدیوں پرانی ثقافت اور تہذیب سوئی نہیں ہے بلکہ سانس لیتی ہے۔ اور دوسری طرف جدید عمارات ہیں۔

 باکوکا پرانا شہر ایک جیتی جاگتی داستان ہے۔ نظامی کے علاقے میں پتھریلی گلیوں میں چلتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے ہر دیوار، ہر دروازہ کوئی پرانا راز سنانا چاہتا ہے۔ یہاں کے بازار،  عمارتیں اور گلیاں صدیوں پرانی محبت کی گواہی دیتی ہیں۔پڑھتے اور سنتے آئے تھے کہ کوہ قاف کے بلند بالا پہاڑوں سے پریاں اترتی ہیں، باکو میں ان پریوں کو دیکھ بھی لیا ۔اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو حسن ِ بے نیاز سے نوازا ہے۔ باکو وہ مقام ہے جہاں آسمان زمین کو چھوتا ہے۔

جہاں خاموشی بولتی ہے اور ہوا خوشبو بن کر آپ کے وجود میں اترتی ہے۔ آذربائیجان کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے مگر افسوس کہ یہاں پر آذان کی آواز سنائی نہیں دیتی، سوویت یونین کے اثرو رسوخ کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ سیکولر آذربائیجان میں ہر طرح کی آزادی ہے۔ مسجدیں بھی ہیں اور مے خانے بھی جا بجا کھلے ہیں۔

صفائی ستھرائی کا اعلیٰ ترین نظام ہے۔ کہیں کوئی گندگی نظر نہیں آتی ۔ وسیع وعریض شاہراہیں ہیں، ٹریفک نہایت منظم انداز سے رواں رہتی ہے۔سیکیورٹی کے مسائل بالکل بھی نہیں ہیں، سیاح بے خوف و خطر سفر کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے سیاحتی سفر کیے ہیں، دنیا کے ہر ملک میں ٹیکسی اور پبلک ٹرانسپورٹ مہنگی ہے لیکن باکو میں ٹیکسی ، بسوں اور ٹرین کا سفر انتہائی سستا ہے۔ یہاں کے لوگ ملنسار ہیں، یہ اس درخت کی مانندہیں جن کی جڑیں زمین میں ہیں اور شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں۔

سادہ مہمان نواز اور دل سے بات کرنے والے ہیں۔ گو کہ انگریزی زبان سے نابلد ہیں، ان کی زبان اگرچہ آذری ہے مگر دل کی زبان میں کوئی ترجمہ درکار نہیں ہوتا۔ جب میں نے کسی دکاندار یا راہ چلتے بزرگ کو بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں تو چہرے پر جو روشنی آئی وہ لفظوں میں نہیں سماتی۔وہ ہر جگہ پاکستان کا ذکر عزت سے کرتے ہیں اور ہر موقع پر بھائی چارے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک شکرگزاری ہوتی ہے،شاید اس لیے کہ پاکستان نے ان کی آزادی کے دنوں میں پہلا ساتھ دیا اور آج تک دیا ہے۔پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی مختلف جگہوں پر لہراتا ہوا نظر آتا ہے۔

آذری کھانوں کی بات نہ کی جائے تو یہ داستان ادھوری رہے گی ۔ڈولما،قُتب ،شاشلک اور ان کے مختلف ذائقوں والے پلاؤ ہیں۔ یہ صرف کھانے نہیں،ایک ثقافتی تجربہ ہوتے ہیں خاص طور پر جب یہ روایتی آنگنوں میں تانبے کے برتنوں میں اور آذری موسیقی کے ساتھ پیش کیے جائیں۔ آذری چائے ایک رواج ہے، ایک رسم ہے اور ایک محبت کا اظہار ہے۔ ہر ملاقات ہر وداع،ہر سفر، اور ہر جذبہ چائے کے ایک شیشے کے جام میں سمو دیا جاتا ہے۔ اکثر چائے کے ساتھ لیموں اور مقامی مٹھائیاں بھی پیش کی جاتی ہیں، جیسے محبت کے الفاظ کسی میٹھے ذائقے میں گھول دیے گئے ہوں۔

ترک ثقافت کا بھی گہرا اثر ہے ۔ آذری زبان ترکی سے ملتی جلتی ہے۔ یہاں روسی زبان بھی کثرت سے بولی جاتی ہے۔ رات کا وقت، باکو کا ساحل اور سامنے فلیئم ٹاورز کی روشنی میں ناچتی ہوئی شعلہ نما عمارات یہ منظر کسی خواب سے کم نہیںہے، ہر لمحہ ایک اور کہانی سناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری کائنات نے اپنے رنگ یہاں انڈیل دیے ہوں۔شہر میں جدیدیت ہے، مگر بے روح نہیں ہے ،ہر عمارت میں فن ہے، ہر گلی میں کوئی ساز ہے ۔ یہاں جدیدیت بھی ثقافت کی جھلک لیے ہوئے ہے، اور ہر شخص فخر سے اپنے ماضی سے جڑا ہوا ہے۔

میرا یہ دورہ ایک سیاحتی سفر سے کہیں بڑھ کر تھا۔ میں نے دیکھا، سنااور محسوس کیا وہ تعلق جو دونوں ملکوں کے درمیان محض کاغذی نہیں بلکہ جذباتی ہے۔ آذربائیجان میں جب بھی پاکستان کا نام آیا وہ صرف ایک ملک نہیں ایک بھائی کی حیثیت سے لیا گیا۔ کشمیر ہو یا کاراباخ دونوں اقوام نے ہمیشہ ایک دوسرے کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ واپسی کی شام تھی۔ باکو کی روشنیاں مدھم ہو رہی تھیں۔ ہوا میں ایک الوداعی اداسی گھلی ہوئی تھی۔ ائر پورٹ پرمیرے ہاتھ میں آذری چائے کا آخری جام تھا اور دل میں ایک وعدہ کہ یہ کوہ قاف کے خوبصورت لوگوں سے پہلی ملاقات ہے مگر آخری ہرگز نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جو نام ہم بھجواتے وہ جیل انتظامیہ قبول نہیں کرتی، نعیم حیدر
  • سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
  • کوہ قاف میں چند روز
  • وقف بورڈ قانون کو لیکر مجھے سپریم کورٹ پر بھروسہ ہے، ڈمپل یادو
  • بھارت، طلبہ نے امتحانی کاپیوں میں جوابات کے بجائے پاس کرنے کیلئے فرمائشیں لکھ دیں
  • لگتا تھا طلاق ہوگئی تو مرجاؤں گی، عمران خان کی سابق اہلیہ کا انکشاف
  • ہسپتال میں 77 سالہ بزرگ پر ڈاکٹر کا بہیمانہ تشدد ، ویڈیو وائرل
  • بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘، سکھ رہنما کی نائب امریکی صدر سے دورہ بھارت میں معاملہ اٹھانے کی درخواست
  • ’بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘،گرپتونت سنگھ پنوں کا امریکی نائب صدر کو خط
  • کومل میر کی کاسمیٹک سرجری اور وزن میں اضافے پر لب کشائی