ٹرمپ کی اسرائیل کیلئے ریکارڈ توڑ امداد
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسوقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کو 2,000 پاؤنڈ کے آٹھ سو خطرناک بم بھیجنے نیز غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو نکالنے پر تل ابیب کے ساتھ مربوط موقف اختیار کرنے کے بعد ٹرمپ بالکل اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جو انہوں نے اپنی پہلی مدت کے دوران صیہونیوں کی خدمت کیلئے اختیار کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیطرف سے دوسری مدت صدارت کے آغاز میں 12 بلین ڈالر کی مالی امداد صرف چار دنوں میں اسرائیل کو دینا، اس بات کی علامت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اگلے چار سالوں میں اسرائیل کی اندھا دھند حمایت جاری رکھ کر گذشتہ تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دے گی۔ تحریر: سید رضا میر طاہر
ایک ایسے وقت جب امریکہ نے یوکرین کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کو اپنے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو 4 بلین ڈالر کے اسلحہ کا امدادی پیکج دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے سے اسرائیل کو فوجی ہتھیاروں کی فراہمی میں تیزی آئے گی۔ اس طرح، ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے اقتدار کے 40 دنوں میں اسرائیل کو 12 بلین ڈالر کی ہتھیاروں کی امداد فراہم کی ہے، جو یومیہ 300 ملین ڈالر کی امداد کے برابر ہے۔ پینٹاگون نے بھی اعلان کیا ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اسرائیل کو تقریباً 3 بلین ڈالر مالیت کے بموں، مسمار کرنے والے آلات اور دیگر ہتھیاروں کی ممکنہ فروخت کی منظوری دے دی ہے۔امریکی انتظامیہ نے ایک دیرینہ طریقہ کار کو نظرانداز کرتے ہوئے کانگریس کو فوری طور پر مطلع کر دیا ہے، جس سے ایوان اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹیوں کے چیئرمینوں اور اراکین کو فوری طور پر اس پیکج کا جائزہ لینے کا موقع ملے گا۔
اپنے ایک بیان میں روبیو نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ، جس نے 20 جنوری کو اقتدار سنبھالا، اسرائیل کو تقریباً 12 بلین ڈالر کے فوجی ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے چکی ہے۔ روبیو نے اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے دیرینہ عزم کو پورا کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل کا استعمال جاری رکھے گا۔ ان اقدامات میں سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے آلات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ انہوں نے اپنے ہنگامی اختیارات کا استعمال مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادی اسرائیل کو فوجی امداد کی فراہمی میں تیزی لانے کے لیے کیا ہے، کیونکہ اسرائیل اس وقت غزہ میں حماس کے ساتھ ایک نازک جنگ بندی کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں یہ دوسرا موقع ہے، جب ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت کی فوری منظوری دینے کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت کے ابتدائی ایام سے اپنے پہلے دور میں استعمال کیے گئے انداز کو دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں صیہونی حکومت کے لیے ان کی وسیع اور بے مثال حمایت تھی اور اسرائیل کی حمایت اور فلسطینیوں کی مخالفت میں کئی اہم قدم اٹھائے تھے۔ ان اقدامات اور مؤقف کو تل ابیب کی طرف سے مثبت جواب دیا گیا۔ ان اقدامات میں تل ابیب کو نئی فوجی امداد بھیجنا اور صیہونی حکومت کی جانب سے 15 ماہ کی تباہ کن جنگ کے بعد علاقے کی تعمیر نو کے بہانے غزہ کے باشندوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ غزہ پٹی میں جنگ کے بعد سے غزہ میں 46,600 سے زیادہ لوگوں کی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے بائیڈن نے اسرائیل کو 2,000 پاؤنڈ وزنی بموں کی فروخت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن ٹرمپ نے شروع ہی میں اس حکم کو منسوخ کر دیا۔
صحافیوں کے سامنے اس کارروائی کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ٹرمپ نے کہا کہ "اسرائیل نے اس کی قیمت ادا کی اور طویل انتظار کیا، اس طرح، ٹرمپ نے آٹھ سو کے قریب 2,000 پاؤنڈ والے بموں کی کھیپ اسرائیل کو بھیجنے کی اجازت دی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حال ہی میں گولہ بارود اور میزائلوں سمیت اسرائیل کو 7 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کے پیکج کی ترسیل کا اعلان کیا ہے، حالانکہ قانون کے مطابق جب امریکہ ایک مخصوص رقم سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تو اسے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور کانگریس کو مطلع کرنا ہوتا ہے اور ایوان اور سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹیوں کو معلومات فراہم کرتا ہے اور کانگریس کے سرکاری اعلان کے بعد اس کی منظوری دی جاتی ہے، لیکن اس مسئلے میں اس قانون کی پاسداری نہیں کی گئی۔
کانگریس نے پچھلی امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کے مقصد سے اسرائیل کو اربوں کے ہتھیاروں کی فروخت کو محدود کرے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت اور بھیجنے کے لیے ہنگامی حالت کا اعلان کرکے کانگریس کو مکمل طور سے نظرانداز کر دیا ہے۔بلاشبہ صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران، جنوری 2017ء سے جنوری 2021ء تک، ڈونلڈ ٹرمپ نے صیہونی حکومت کے حق میں بے مثال موقف اور اقدامات کو اپنایا۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی خصوصیات میں سے ایک اسرائیل کی غیر مشروط حمایت اور ان اقدامات پر عمل درآمد کے بارے میں ان کا موقف تھا، جو کہ سابق امریکی صدور نے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔
ان میں سب سے اہم قدس کو صیہونی حکومت کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنا، مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کو مقبوضہ فلسطین میں شامل کرنے کو درست قرار دینا، ڈیل آف دی سنچری پلان کی پیش کش (جو کہ صیہونی اور فلسطینیوں کو ان کے حتمی حقوق کی واپسی کے لیے بے مثال فوائد اور مراعات فراہم کرتا ہے) اور مغربی کنارے کے کچھ حصے کو مقبوضہ فلسطین کے ساتھ الحاق کرنے رضامندی ظاہر کرنا شامل ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کو 2,000 پاؤنڈ کے آٹھ سو خطرناک بم بھیجنے نیز غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو نکالنے پر تل ابیب کے ساتھ مربوط موقف اختیار کرنے کے بعد ٹرمپ بالکل اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں، جو انہوں نے اپنی پہلی مدت کے دوران صیہونیوں کی خدمت کے لیے اختیار کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دوسری مدت صدارت کے آغاز میں 12 بلین ڈالر کی مالی امداد صرف چار دنوں میں اسرائیل کو دینا، اس بات کی علامت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اگلے چار سالوں میں اسرائیل کی اندھا دھند حمایت جاری رکھ کر گذشتہ تمام حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ہتھیاروں کی فروخت ٹرمپ انتظامیہ نے کا اعلان کیا ہے نے اسرائیل کو صیہونی حکومت میں اسرائیل اسرائیل کی ان اقدامات بلین ڈالر انہوں نے حکومت کے 000 پاؤنڈ کرنے کا کیا تھا ٹرمپ کی کرنے کے کے ساتھ تل ابیب ڈالر کی کر دیا کے بعد کے لیے مدت کے
پڑھیں:
20 امریکی ریاستوں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایچ ون بی ویزا فیس کیخلاف مقدمہ دائر
20 امریکی ریاستوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ایچ ون بی ویزا فیس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے۔
امریکہ کی 20 ریاستوں نے وفاقی عدالت میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں ایچ ون بی ویزا درخواست دہندگان سے ایک لاکھ ڈالر فیس لینے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے امیر تارکین وطن کے لیے گولڈ کارڈ ویزا اسکیم متعارف کرادی
ریاستوں کا موقف ہے کہ یہ فیس بنیادی خدمات جیسے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
مقدمے کے مطابق یہ فیس وفاقی انتظامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ایگزیکٹو کے قانونی اختیارات سے تجاوز کرتی ہے۔ یہ مقدمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ (ڈی ایچ ایس) کے اُس قواعد کے خلاف ہے، جس کے تحت ایچ ون بی ویزا پروگرام کے تحت ہائر کیے جانے والے ہائی اسکِلڈ کارکنان کے لیے درخواست دینے پر آجروں سے فیس میں نمایاں اضافہ کیا گیا۔
ریاستوں نے کہا کہ ایچ ون بی سے متعلقہ فیس ہمیشہ ’انتظامی اخراجات‘ تک محدود رہی ہیں، اور اس پالیسی کی وجہ سے اسپتال، اسکول اور یونیورسٹیاں خاص طور پر مزدور کمی کا شکار ہوسکتی ہیں۔
مقدمہ کی قیادت کیلیفورنیا، میساچوسٹس، ایریزونا، کولوراڈو، کنیکٹیکٹ، ڈیلاویئر، ہوائی، الینوائے، میری لینڈ، مشی گن، منیسوٹا، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، نیو جرسی، نیو یارک، اوریگون، رہوڈ آئی لینڈ، ورمونٹ، واشنگٹن اور وسکونسن کر رہے ہیں۔
مالی سال 2024 میں تقریباً 17 ہزار ایچ ون بی ویزا صحت کے شعبے کے لیے منظور ہوئے، جن میں تقریباً 40 فیصد ویزے غیر ملکی ڈاکٹروں یا سرجنز کے لیے تھے۔ ریاستوں کے مطابق اس نئی پالیسی کے تحت 2036 تک تقریباً 86 ہزار ڈاکٹروں کی کمی ہو سکتی ہے۔
ایک لاکھ ڈالر کی فیس 21 ستمبر 2025 یا اس کے بعد جمع کرائی گئی درخواستوں پر لاگو ہوگی۔ ڈی ایچ ایس سیکریٹری کو چھوٹ دینے کا اختیار حاصل ہے، تاہم چھوٹ کے معیار ابھی واضح نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا غیر قانونی تارکینِ وطن کو ملک چھوڑنے پر 1000 ڈالر دینے کا اعلان
اس سے قبل ایچ ون بی ویزا کی فیس عام طور پر 960 ڈالر سے 7 ہزار 595 ڈالر تک ہوتی تھی، ناقدین کے مطابق یہ نئی فیس ابتدائی مقصد سے مکمل طور پر ہٹ کر ہے اور مہارت پر مبنی ورک فورس کو محدود امیگریشن کے ذریعے بدلنے کی کوشش ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ویزا پالیسی کا مقصد مقامی مزدوروں پر توجہ دینا ہے، جبکہ ریاستیں استدلال کرتی ہیں کہ ایچ ون بی صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کے لیے انتہائی تربیت یافتہ افراد فراہم کرنے کا لازمی ذریعہ ہے۔
یہ مقدمہ ایگزیکٹو کی ویزا فیس کے حوالے سے اختیارات کی حد کو چیلنج کرے گا، جس کے اثرات آجروں اور غیر ملکی پیشہ ور افراد پر ملک گیر سطح پر مرتب ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا تارکین وطن ڈونلڈ ٹرمپ ریاستیں مقدمہ وفاقی عدالت ویزا فیس