'بھٹو ازم کے لیے طیارے کا اغوا‘
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مارچ 2025ء) 45 سال قبل تین مارچ 1981 کے روز کراچی سے پشاور جانے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 326 میں 135 مسافر سوار تھے۔ پشاور لینڈنگ سے قبل 3 نوجوانوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے جہاز اغوا کر لیا ہے۔ اس گروپ کی قیادت کرنے والے نوجوان سب مشین گن لہراتا ہوا کاک پٹ میں داخل ہو گیا۔ جہاز اغوا کرنے کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کی فوجی حکومت کے ہاتھوں سزائے موت کا بدلہ لینا تھا۔
ہائی جیکرز کا پائلٹ سے اصرار تھا کہ طیارہ کابل لے کر جائے۔ طیارے نے جیسے ہی کابل ایئرپورٹ پر لینڈ کیا، افغان سکیورٹی نے طیارے کو گھیرے میں لے لیا۔ کنٹرول ٹاور سے ریڈیو کے ذریعے گفتگو جاری تھی اور ہائی جیکر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا، ''وی آر فائٹنگ فار بھٹو ازم‘‘میں جہاز بم سے اڑا دوں گا۔(جاری ہے)
مسافر خوف زدہ تھے بچے رو رہے تھے۔
کابل ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد ہائی جیکرز کا لیڈر کاک پٹ کی کھڑکی سے سب مشین گن لہرا کر نمودار ہوا اور کہا کہ اس کا نام عالمگیر ہے۔
جہاز پیپلز پارٹی کی ذیلی تنظیم الذوالفقار نے اغوا کیا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر اس کے مطالبے پر پاکستان کی جیلوں میں قید پیپلز پارٹی اور ''پی ایس ایف‘‘ پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے 100 سے زائد افراد کو رہا نہیں کیا گیا تو وہ مسافروں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دے گا۔ جیسے ہی عالمگیر نامی اس دہشت گرد کی تصویر سامنے آئی تو پاکستانی حکام کو معلوم ہوا کہ یہ تو کراچی کے علاقے ناظم آباد 2 نمبر کا رہائشی اور پی ایس ایف کا کارکن سلام اللہ عرف ٹیپو ہے۔ اس کے دیگر دو ساتھیوں میں ناظم آباد کے رہائشی ناصر جمال اور ارشد علی بھی شامل تھے۔ یہ لوگ اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک رہنما حافظ اسلم کو کراچی یونیورسٹی میں فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے واقعے میں پولیس کو مطلوب بھی تھے۔پولیس اور خفیہ ادارے حرکت میں آئے۔ ٹیپو کے والد اور ناصر جمال کے بھائی کو حراست میں لے لیا گیا۔ ایس پی الطاف علی خان مرحوم اور اس وقت کے ڈی ایس جمشید کوارٹر وسیم احمد جو خود بھی ناظم آباد کے رہائشی تھے نے فوجی حکام کو مشورہ دیا کہ وہ مسرور احسن المعروف استاد سے بات چیت کریں۔
مسرور احسن کو پی ایس ایف کا اصل گرو اور ماسٹر مائنڈ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد جیل میں استاد مسرور احسن سے رابطہ کیا گیا۔حکومت کو اس ہائی جیکنگ کی سنگینی کا اندازہ اس وقت ہوا جب سلام اللہ عرف ٹیپو نے جہاز میں سوار میجر طارق رحیم کو شناخت کے بعد 6 مارچ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور پھر ان کی لاش کابل ایئرپورٹ کے رن وے پر پھینک دی۔
فلائٹ پی کے 326 آٹھ مارچ کو دمشق کی جانب پرواز کر گئی۔ دمشق میں میر مرتضی بھٹو نے ہائی جیکرز کا استقبال کیا اور اسے اپنی تنظیم کی بڑی کامیابی قرار دیا۔ بارہ مارچ کو سلام اللہ ٹیپو نے بہ ذریعہ کنٹرول ٹاور ریڈیو کے زریعے پاکستانی حکام کو وارنگ دی کہ اگر 24 گھنٹوں میں فہرست کے مطابق اس کے ساتھیوں کو رہا کرکے دمشق یا لیبیا نہ بھیجا گیا تو وہ جہاز میں سوار تین امریکی شہریوں کو ہلاک کر دیں گے۔اس کے بعد مسرور احسن کا پاسپورٹ بنانے کے انتظامات کیے گئے اور انہیں بتایا گیا کہ وہ ہائی جیکرز سے مذاکرات کے لیے رحمت اللہ انجم اور اکرم قائم خانی کے ساتھ دمشق جائیں گے، مگر استاد مسرور احسن نے دمشق جانے سے انکار کر دیا، بلکہ وہ ہائی جیکرز کے مطالبہ پر پاکستان چھوڑ کر جانے سے بھی انکار کرتے رہے۔ بعد میں سلام اللہ ٹیپو کے زیر حراست والد اور ناصر جمال کے بھائی کو دمشق بھیجا گیا، مگر وہ دونوں بھی ٹیپو کو آمادہ نہ کر سکے۔
ہائی جیکرز نے خواتین، بچوں اور کچھ بیمار مسافروں کو کابل ایئرپورٹ پر رہا کر دیا تھا۔ ساتھ ہی ایئر ہوسٹسس کو بھی رہا کرنے کی پیشکش کی تھی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔
میجر طارق رحیم کے قتل کے بعد جنرل ضیا کی حکومت نے ہائی جیکرز کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ملک کی مختلف جیلوں میں قید پیپلز پارٹی اور پی ایس ایف کے کارکنوں کو جو مبینہ طور پر دہشت گردی، قتل غارت گری اور ملک دشمنی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار تھے کراچی سینٹرل جیل منتقل کر دیا۔
13 اور 14 مارچ 1981 کی درمیانی شب طویل مذاکرات کے بعد صرف 54 افراد کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا اور ان تمام افراد کو ایک خصوصی پرواز سے دمشق بھجوا دیا گیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان 54 افراد کو اپنی رہائی کی خوشی تھی مگر ان میں سے بیشتر ملک سے نہیں جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے جانے سے انکار بھی کیا تھا، مگر حکومت نے انہیں زبردستی روانہ کیا۔
مرحوم ایس پی الطاف علی خان اور اس وقت کے ڈی ایس پی جمشید کوارٹر وسیم احمد (جو بعد میں آئی جی سندھ اور ڈی جی ایف آئی اے بنے) اس ہائی پروفائل قافلے کی حفاظت کر رہے تھے تمام ملزمان کو ایئرپورٹ پہنچایا گیا۔ ڈپٹی کمشنر ایسٹ ملک شاہد حامد مرحوم اس آپریشن کے نگراں تھے۔
رہا کیے گئے افراد کے طیارے نے جیسے ہی دمشق میں لینڈ کیا، ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو، ناصر جمال اور ارشد علی طیارے سے باہر آئے۔
بین الاقوامی میڈیا کے سامنے وکٹری کا نشان بنا کر کہا کہ وہ بھٹو ازم کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کی تنظیم الذوالفقار کے سربراہ میر مرتضی بھٹو ہیں اور طیارہ بھی ان کی ہدایت پر اغوا کیا گیا تھا۔دوسری جانب جب پی آئی اے کے طیارے کے اغوا کی تحقیقات شروع ہوئیں تو ہائی جیکنگ کے الزام میں سلام اللہ ٹیپو، اس کے دیگر دو ساتھیوں کے علاوہ طیارے کے اغوا کی منصوبہ بندی کرنے والے پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ہائی جیکرز کے سہولت کاروں کے خلاف بھی مقدمہ الزام نمبر 11/81 درج کیا گیا۔
ہائی جیکروں کے سہولت کار کے طور پر پنجابی پختون اتحاد (پی پی آئی) کے ملک سرور اعوان کے صاحبزادے ملک ایوب اعوان، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سائیں سیف اللہ خالد، عیسی بلوچ اور پاکستان اسٹیل کے ڈرائیور ناصر بلوچ کو گرفتار کیا گیا۔ عدالت نے تمام ملزمان کو سزائے موت سنا دی مگر بعد میں ملک ایوب اعوان کے والد ملک سرور اعوان اور سائیں سیف اللہ خالد کے والد محمد علی جوہر نے جنرل ضیا الحق تک رسائی حاصل کر کے سزائے موت 25 سال عمر قید میں تبدیل کرا دی۔
ڈرائیور ناصر بلوچ نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پھانسی سے چند روز قبل ناصر بلوچ نے جیل میں استاد مسرور احسن سے ملاقات کی۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں اور اس نے استاد مسرور سے پوچھا، ''میں نے سنا ہے کہ ملک ایوب اعوان اور سیف اللہ خالد پھانسی سے بچ گئے ہیں؟ میں غریب ڈرائیور ہوں میری کوئی سفارش نہیں ہے اس لیے مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔
‘‘پی ایس ایف کے ایک کارکن نے بتایا کہ استاد مسرور خاموش رہے۔ پھر ناصر نے استاد مسرور سے پھر مخاطب ہوکر کہا، ''تم دیگر ساتھیوں کو صرف یہ پیغام دے دو کہ پھانسی گھاٹ جاتے ہوئے جب میں 'جئے بھٹو‘ کا نعرہ لگاؤں تووہ جواب ضرور دیں۔‘‘ جیل حکام بتاتے ہیں کہ ناصر بلوچ نے پھانسی گھاٹ جاتے ہوئے نعرہ تو لگایا مگر جوابی آواز وہ نہ سن سکا، کیونکہ جیل حکام نے ناصر بلوچ کی پھانسی سے قبل 'پی ایس ایف‘ کے کارکنوں اور پارٹی کے بیشتر رہنماؤں کو سندھ کی دیگر جیلوں میں منتقل کردیا تھا۔
بے نظیر بھٹو جب دوسری مرتبہ 1993 میں وزیراعظم بنیں تو ان کی مرضی کے برخلاف میر مرتضی بھٹو معروف صحافی کامران خان کو انٹرویو دینے کے بعد 3 نومبر 1993 کو کراچی پہنچ گئے۔ مرتضیٰ بھٹو کو شاید یہ گمان ہوگیا کہ اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہو گئی ہے۔ تاہم وطن واپسی پر مرتضیٰ بھٹو کو کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرتے ہی گرفتار کر کے جیل پہنچا دیا گیا۔
تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد انہیں ضمانت پر رہائی ملی۔مرتضی بھٹو نے اپنی بہن کے مشورے کو نظرانداز کر کے پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی بنیاد رکھی۔ دونوں بھائی بہن کے درمیان خلیج مزید بڑھ گئی۔ مرتضی بھٹو کا جارہانہ رویہ جاری رہا۔ پھر مرتضی بھٹو کے الذوالفقار کے ساتھیوں نے جب اسٹیٹ کی رٹ کو چیلنج کیا گارڈن سی آئی اے پر مسلح حملہ کیا تو شاید اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی برداشت ختم ہو گئی۔
پھر 20 ستمبر 1996 کی ایک شام مرتضی بھٹو اپنے والد کی آبائی قیام گاہ 70 کلفٹن کے باہر پولیس کے ساتھ پراسرار جھڑپ میں اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ ہلاک ہوگئے۔پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرنے والے اور اس کی منصوبہ بندی کرنے والے پیپلز پارٹی کے بہت کم جانثار کارکن پارٹی میں جگہ بناسکے۔ ان میں سے کچھ تو اس دنیا سے کسمپرسی کے عالم میں رخصت ہو گئے اور کچھ جو زندہ بچ گئے وہ گمنامی میں چلے گئے۔
ہائی جیکرز کے مطالبے پر دمشق بھیجے 54 افراد میں سے چند کے سوا کسی کو کہیں سیاسی پناہ نہیں ملی۔ خود پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان عناصر کو شدت پسند قرار دے کر اپنے آپ سے علحیدہ کرلیا۔ بیشتر لوگ جو ملک بدر نہیں ہونا چاہتے تھے وطن واپس آ گئےگرفتار ہوئے اور عدالتوں سے بری ہو گئے یا پھر سزا پوری کرکے اپنے آپ کو کنارہ کش کرلیا۔ہائی جیکر سلام اللہ ٹیپو کو افغانستان میں ایک تنازعہ پر شنواری قبیلہ نے قتل کر دیا جبکہ ٹیپو کے دو ساتھی ہائی جیکر ارشد علی اور ناصر جمال خاموشی سے بیرون ملک زندگی گزار رہے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہائی جیکرز کے پیپلز پارٹی استاد مسرور مرتضی بھٹو پی ایس ایف کرنے والے ہائی جیکر ناصر جمال ناصر بلوچ انکار کر کیا گیا اغوا کی ہلاک کر کے ساتھ کے بعد پی آئی کے لیے اور اس آئی اے کر دیا
پڑھیں:
یہودیوں کا انجام
دنیا ایک بار پھر ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں حق اور باطل کی جنگ واضح ہو چکی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر بہنے والا معصوم خون، بچوں کی لاشیں، ماں کی آہیں اور بے گھر ہوتے خاندان ہمیں ایک بار پھر اس یاد دہانی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اللہ کی پکڑ بھی قریب آ جاتی ہے۔ آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور ایمانی آزمائش بھی ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق یہودیوں کا ماضی، حال اور مستقبل واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی سرکشی، ان کی نافرمانیاں اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے ساتھ ان کے سلوک کا بارہا ذکر آیا ہے۔ ان کی فطرت میں دھوکہ، فریب، اور سازش شامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف اللہ کے انبیا ء کو جھٹلایا بلکہ انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک وقت کی نشاندہی فرمائی ہے جب یہودیوں کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ اس وقت حق اور باطل کا آخری معرکہ ہو گا جسے ’’ملحمہ کبریٰ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس معرکے میں مسلمان غالب آئیں گے اور اللہ کے وعدے کے مطابق زمین پر عدل اور انصاف قائم ہو گا۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کر لیں، اور مسلمان انہیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے مگر وہ درخت اور پتھر بھی پکار اٹھیں گے: اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آئو اور اسے قتل کرو، سوائے ’’غرقد‘‘ کے درخت کے، کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔(صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث نہ صرف مستقبل کے ایک یقینی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ یہودیوں کا انجام عبرتناک ہو گا۔ وہ جہاں بھی چھپیں گے قدرت انہیں بے نقاب کر دے گی۔یہ حدیث ہمیں نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کا انجام تباہی ہو گا بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ اس معرکے میں اللہ کی قدرت براہِ راست کام کرے گی۔ یہاں تک کہ جمادات(درخت اور پتھر) بھی بول اٹھیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک الہامی سچائی ہے جس پر ہمیں کامل یقین رکھنا ہے کیونکہ یہ بات بات دنیا کے سب سے عظیم ، سچے انسان اور خاتم النبیین جناب محمد الرسول اللہ نے ارشاد فرمائی ہے۔
فلسطین میں ہونے والی نسل کشی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب بن چکی ہے۔ ہزاروں بچوں، عورتوں اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام، ہسپتالوں، مساجد اور سکولوں پر بمباری، اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ ایمانی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ وہ طاقت کب، کہاں اور کیسے مسلمانوں کو حاصل ہو گی جس کے ذریعے وہ یہودیوں کو شکست دیں گے؟ اس کا جواب بھی قرآن اور سنت میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں’’ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم‘‘ (سورۃ محمد: 7)
ترجمہ: اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔یعنی جب مسلمان دین اسلام پر مکمل عمل پیرا ہوں گے، جب وہ فرقوں، تعصبات، اور دنیاوی لالچ سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تب ہی اللہ کی نصرت نازل ہو گی۔میرا رب وہ ہے جو تقدیر بھی بدلتا ہے اور حالات بھی۔ غم کا موسم کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں رہتا۔ مگر یہ معرکہ جسے ہم دیکھ رہے ہیں اس نے نہ صرف دشمن کو بے نقاب کیا ہے بلکہ ہمارے اپنے مسلمان حکمرانوں کو بھی۔ وہ حکمران جن کی زبانیں خاموش، ضمیر مردہ اور آنکھیں بند ہیں۔ جن کے محلات تو چمک رہے ہیں مگر ان کے دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہودیوں کے سامنے اس لیے جھک چکے ہیں کیونکہ انہیں مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں نہیں بلکہ اپنی بادشاہتیں، اپنی دولت اور دنیاوی آسائشیں عزیز ہیں۔یہی معرکہ ہم عام مسلمانوں کے ایمان کا بھی امتحان ہے۔ اربوں کی تعداد میں ہم مسلمان دنیا بھر میں بستے ہیں مگر افسوس کہ ہمارا طرزِ زندگی، ہماری خریداری، ہماری ترجیحات سب اسرائیل کی مدد کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ہم ان ہی یہودی مصنوعات کو خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیل کے فوجی بجٹ میں شامل ہوتا ہے۔ہم میں سے کتنے ہی افراد روزانہ یہودی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہی کمپنیوں کی چیزیں خریدتے ہیں جن کا منافع اسرائیلی فوج کے اسلحہ اور بارود پر خرچ ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی، غفلت یا لاپرواہی کے باعث اس ظلم میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہم خود اپنے ہاتھوں سے ان ظالموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں جو ہمارے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔افسوس، صد افسوس! کہ ہم صرف سوشل میڈیا پر پوسٹس اور احتجاج تک محدود ہو چکے ہیں جبکہ عمل کے میدان میں ہماری موجودگی ناپید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب سے پہلے خود کو بدلیں، اپنی ترجیحات کو ایمان کی روشنی میں دیکھیں، اور ہر وہ قدم اٹھائیں جو ظالم کی طاقت کو کمزور کرے۔اللہ کی مدد صرف انہی کو حاصل ہوتی ہے جو خود کو اس کے دین کے لیے وقف کرتے ہیں۔ ہمیں آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم صرف باتوں سے نہیں، بلکہ عمل سے اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اپنے گھر سے، اپنی خریداری سے، اپنی دعائوں سے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوں گے۔دنیا اس وقت ظلم، فتنہ اور نفاق کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر جو خون بہایا جا رہا ہے جو لاشیں گرائی جا رہی ہیں اور جو بچے ماں کی گود سے چھینے جا رہے ہیں تاریخِ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک منظم نسل کشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور دنیا بالخصوص مسلم حکمران تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔یہودیوں کا انجام اللہ کے فیصلے کے مطابق ہونا ہے۔ مگر وہ دن کب آئے گا؟ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم مسلمان کب جاگتے ہیں؟ کب ہم دنیا کی محبت اور موت کے خوف کو ترک کر کے اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں؟ کب ہم قرآن کو صرف ثواب کے لیے نہیں بلکہ رہنمائی کے لیے پڑھنا شروع کرتے ہیں؟یقین رکھیں! وہ وقت ضرور آئے گا جب ہر درخت اور پتھر بھی گواہی دے گا، اور مظلوموں کے آنسو ظالموں کے لیے آگ بن جائیں گے۔یہودیوں کا انجام طے شدہ ہے لیکن اس انجام کو لانے کے لیے ہمارا کردار کیا ہو گا؟ یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔