خیبر پختونخوا میں 54 ارب سے زائد کے 46 ترقیاتی منصوبوں کی منظوری
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
پشاور:
خیبر پختونخوا حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے فروغ کے لیے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے پی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس میں 54 ارب روپے سے زائد مالیت کے 46 ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دے دی ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد صوبے میں تعلیم، صحت، سیاحت اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔
صوبے کے سرکاری کالجوں میں بی ایس بلاکس کی تعمیر، اضافی کلاس رومز کی فراہمی اور سیکیورٹی سہولیات کی بہتری کے لیے منصوبوں کی منظوری دی گئی۔مزید برآں، ضم شدہ علاقوں میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے پرائمری، میڈل، ہائی اور ہائی سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کی فراہمی کے منصوبے کو بھی منظور کر لیا گیا۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے آبائی علاقے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں گرلز کیڈٹ کالج کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ یہ منصوبہ خواتین کو معیاری تعلیم اور فوجی تربیت فراہم کرنے کی جانب ایک بڑا قدم ثابت ہوگا۔
صوبے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے اہم سیاحتی تہواروں کے انعقاد کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے، جو نہ صرف مقامی سیاحت کو فروغ دے گا بلکہ معیشت پر بھی مثبت اثر ڈالے گا۔ اس کے علاوہ، نئے ضم شدہ اضلاع میں حادثات اور ایمرجنسی یونٹس کے قیام کی بھی منظوری دی گئی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا دباو، وفاق سے صوبائی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے ختم کرنے کا مطالبہ
آئی ایم ایف کا دباو، وفاق سے صوبائی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے ختم کرنے کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 22 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئندہ بجٹ میں صوبائی نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں کو وفاقی ترقیاتی بجٹ سے خارج کر دے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد جن ترقیاتی منصوبوں کا اختیار صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، ان پر وفاقی بجٹ سے اخراجات نہیں ہونے چاہئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اس وقت شدید مالی دبا کا شکار ہے اور مجبوری کے تحت آئندہ مالی سال کے بجٹ سے 168 صوبائی نوعیت کے ترقیاتی منصوبے نکالنے پر غور کر رہی ہے۔ ان منصوبوں کی مجموعی لاگت تقریبا 1100 ارب روپے بتائی گئی ہے، جن میں سے اب تک وفاق 300 ارب روپے خرچ کرچکا ہے۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے واضح طور پر ہدایت دی ہے کہ ان منصوبوں پر مزید اخراجات نہ کیے جائیں۔ اگر یہ منصوبے جاری رکھے جاتے تو وفاق کو مزید 800 ارب روپے خرچ کرنا پڑتے، جو موجودہ مالی صورتحال میں ممکن نہیں۔
وفاقی وزارتِ منصوبہ بندی کے ایک ذریعے نے تصدیق کی ہے کہ یہ تمام منصوبے صوبائی دائرہ کار میں آتے ہیں، اس لیے انہیں آئندہ صوبائی ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم محدود ہونے کے امکانات ہیں، تاہم مالیاتی اصلاحات کے تحت یہ قدم ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ آئینی اعتبار سے درست معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے عملی اثرات صوبوں پر دبا کی صورت میں سامنے آئیں گے، خاص طور پر ان منصوبوں پر جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرانٹرا پارٹی انتخابات: بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں تھے، پی ٹی آئی سربراہ کیسے بنے؟ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات: بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں تھے، پی ٹی آئی سربراہ کیسے بنے؟ الیکشن کمیشن سونے کی فی تولہ قیمت میں آج بھی ہوشرُبا اضافہ چائنا میڈیا گروپ کی جانب سے “گلوبل چائنیز کمیونیکیشن پارٹنرشپ”میکانزم کا قیام امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کی کاز لسٹ منسوخ سندھ پر 16 سال سے حکومت ہے، مراد علی شاہ اپنی کارکردگی بتائیں، عظمیٰ بخاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم