Express News:
2025-04-22@06:21:05 GMT

مشہور گلوکارہ اینجی اسٹون المناک کار حادثے کا شکار

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

گریمی ایوارڈ میں نامزد معروف گلوکارہ اینجی اسٹون ایک جان لیوا کار حادثے کا شکار ہوگئیں۔

اینجی کی کی بیٹی لادی ڈائمنڈ نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

اینجی اسٹون کا اصل نام لاورن براؤن تھا، جو 63 سال کی عمر میں ایک سڑک حادثے کا شکار ہوئیں۔

یہ واقعہ یکم مارچ کو صبح 4 بجے پیش آیا، جب وہ الاباما سے اٹلانٹا واپس جا رہی تھیں۔ ان کی گاڑی کا ایک 18 پہیوں والے ٹرک سے تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں یہ المناک حادثہ پیش آیا۔

اینجی اسٹون کو موسیقی کی دنیا میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ وہ اپنے ہپ ہاپ گروپ ’دی سیکوئنس‘ اور مشہور R&B گانوں جیسے ’وش آئی ڈڈنٹ مس یو‘ کی وجہ سے پوری دنیا میں پہچانی جاتی تھیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں 10 سولو البمز ریلیز کیے اور تین بار گریمی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئیں۔

ان کی بیٹی لادی ڈائمنڈ نے اپنی والدہ کے انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا، ’’میری ماں اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔‘‘

اینجی اسٹون 18 دسمبر 1961 کو کولمبیا، جنوبی کیرولینا میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہوں نے نہ صرف موسیقی بلکہ ٹی وی اور فلم کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اینجی اسٹون

پڑھیں:

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جام شورو: مسافر گاڑی کو المناک حادثہ، 16 جاں بحق، 30 زخمی
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • عمرہ زائرین کی بس خوفناک حادثے کا شکار، 5 پاکستانی عمرہ زائرین جاں بحق،متعدد زخمی
  • سعودی عرب میں عمرہ زائرین کی بس کو حادثہ، 5 پاکستانی جابحق ہوگئے
  • سعودیہ میں بس حادثہ، 5 پاکستانی جاں بحق
  • عمرہ زائرین کی بس حادثے کا شکار ہوگئی، 4 پاکستانی جاں بحق 9 زخمی
  • چشتیاں: زائرین کی بس حادثے کا شکار، خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق 9 زخمی
  • مشہور ریسلر رے مسٹیریوں سے متعلق بری خبر!
  • سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کیلئے فوڈ چین پر حملہ کیا: ملزمان کا عدالت میں بیان
  • اور ماں چلی گئی