غیر مہذب وائٹ ہائوس اور امریکی میڈیا کی گرائوٹ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
امریکہ جو کبھی دنیا بھر میں اپنی سیاسی پختگی، اعلیٰ اخلاقی معیارات اور میڈیا کی آزادی کے لئے مشہور تھا آج اپنی ہی بنائی ہوئی اقدار کو پامال کرتا نظر آ رہا ہے۔ یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی کے وائٹ ہائوس کے دورے کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر اور امریکی میڈیا نے جو رویہ اختیار کیا وہ نہ صرف امریکہ کی سیاسی گراوٹ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی پتہ دیتا ہے کہ امریکی میڈیا کس قدر اخلاقی زوال کا شکار ہو چکا ہے۔یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی جو اپنے ملک کی روس کے خلاف جنگ میں قیادت کر رہے ہیں کو وائٹ ہائوس میں جس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی بھی بین الاقوامی سفارتی معیار سے گرا ہوا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز نہ صرف تحقیر آمیز تھا بلکہ ان کے الفاظ غرور اور تکبر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک کمزور ملک کے سربراہ سے نہیں بلکہ کسی معمولی ماتحت سے مخاطب ہوں۔’’ہم نے آپ کے ملک پر 350 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں، آپ کے تمام کارڈز ختم ہو چکے ہیں۔ آپ اس پوزیشن میں نہیں کہ ہمیں بتائیں کہ امریکا کو کیا کرنا ہے۔ آپ امریکا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہیں۔ ‘‘ یہ جملے نہ صرف یوکرین کے صدر کی توہین تھے بلکہ ایک ایسے ملک کی بے عزتی تھے جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ٹرمپ کا رویہ کسی مغرور بادشاہ جیسا تھاجو اپنی طاقت کے نشے میں دوسروں کی تذلیل کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خود کو خدا سمجھ رہے ہوں، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
وہ خدا بن کے بیٹھا تھا تختِ ستم پر
میں فریاد لے کر گیا بھی تو کس پر؟
ٹرمپ کے علاوہ نائب صدر جے ڈی وینس کا رویہ بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ انہوں نے زیلنسکی کے ساتھ نہایت سخت اور بے رخی سے بات چیت کی۔ ان کے الفاظ اور باڈی لینگویج دونوں ہی یوکرینی صدر کے لئے کسی عزت و احترام کے جذبات سے خالی تھے۔اگر صرف سیاسی قیادت ہی گراوٹ کا شکار ہوتی تو شائد یہ اتنا تشویش ناک نہ ہوتا لیکن امریکی میڈیا نے بھی اس موقع پر اپنی بے حسی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ ٹرمپ کے حمایتی صحافی برین گلین نے یوکرینی صدر سے انتہائی غیر ضروری سوال کیا۔ ’’آپ نے کوئی ڈھنگ کا سوٹ (تھری پیس یا پینٹ کوٹ)کیوں نہیں پہنا؟ آپ امریکا کے سب سے بڑے دفتر (صدارتی آفس) میں آئے ہیں اور آپ نے ڈھنگ کا سوٹ پہننا مناسب نہ سمجھا؟‘‘ یہ سوال نہ صرف غیر متعلق تھا بلکہ یوکرین کے صدر کی توہین کا ایک اور موقع تھا۔ زیلنسکی جو ایک جنگ زدہ ملک کے صدر ہیں نے اس سوال کا جواب بڑے تحمل سے دیا۔’’میں اس وقت سوٹ پہنوں گا جب جنگ ختم ہو جائے گی۔ شاید جو میں نے پہنا ہوا ہے اسی طرح کا، شاید جو آپ نے پہن رکھا ہے اس طرح کا یا شاید اس سے بھی بہتر، شاید سستا، میں نہیں جانتا دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔‘‘ یہ جواب زیلنسکی کی ذہانت اور حاضر جوابی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ سوال ان کی توہین کرنے کے لیے کیا گیا ہے مگر انہوں نے سفارتی سلیقے سے نہ صرف اس کی شدت کو کم کیا بلکہ امریکی میڈیا کی غیر سنجیدگی پر بھی طنز کیا۔ لیکن امریکی میڈیا نے اس موقع کو بھی ایک شو میں تبدیل کر دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صحافت کے بنیادی اصولوں سے کس قدر دور ہو چکا ہے۔امریکی میڈیا نے یوکرینی صدر کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ اس کے دوہرے معیار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جب کوئی مغربی لیڈر کسی ترقی پذیر ملک میں جاتا ہے تو اسے ’’مساوات اور سفارتی آداب‘‘کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی غیر مغربی لیڈر ان کے ہاں آتا ہے تو اس کے لباس، انداز اور حیثیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ جب امریکہ کسی ملک کو امداد دیتا ہے تو اسے احسان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن جب وہی ملک کچھ مطالبہ کرے تو اسے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی میڈیا اب ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارہ نہیں رہا بلکہ وہ سیاسی ایجنڈے اور طاقت کے مراکز کے تابع ہو چکا ہے۔امریکہ کی یہ سیاسی اور اخلاقی گراوٹ صرف اس کے داخلی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
یوکرین جیسے ملک جو روس جیسی طاقت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے کو امریکہ کی طرف سے جس طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑا وہ دنیا بھر میں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف امریکہ کے اتحادیوں کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی اشارہ دیتا ہے کہ امریکہ اب ایک قابل اعتماد اور مستحکم اتحادی نہیں رہا۔امریکی قیادت کا یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایسا ہی برتا کیا ہے۔ افغانستان میں اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد وہ طالبان سے معاہدہ کرکے نکل گیا اور افغان حکومت کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ عراق میں ’’جمہوریت‘‘کے نام پر تباہی مچائی لیکن جب وقت آیا تو وہاں سے بھی نکل گیا، بغیر یہ دیکھے کہ اس کی جنگ سے وہاں کیا حالات پیدا ہوئے۔ ویت نام سے لے کر مشرق وسطیٰ تک امریکہ نے ہمیشہ اپنی طاقت کے نشے میں دوسروں کی تذلیل کی مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسا غرور کبھی بھی دیرپا نہیں رہتا۔’’
تخت والے سنبھل کے بیٹھو یہاں
وقت انصاف کرتا رہا ہے سدا!
وائٹ ہائوس میں ہونے والی یہ بے عزتی صرف گفتگو تک محدود نہیں رہی، بلکہ جب ملاقات ختم ہوئی تو یوکرینی صدر کو محض رسمی جملوں کے ساتھ بددلی سے رخصت کر دیا گیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انہیں زبردستی برداشت کیا گیا ہو اور اب جلد از جلد نکال دینا ہی بہتر سمجھا گیا ہو۔ زیلنسکی کو رسمی مصافحے کے بغیر ہی دروازے تک پہنچایا گیا اور امریکی صدر نے ایک مغرور مسکراہٹ کے ساتھ انہیں الوداع کہہ دیا۔ وہ لمحہ دنیا بھر کے میڈیا کے کیمروں میں قید ہو گیا جہاں ایک ملک کا سربراہ بے بسی کے عالم میں وہاں سے روانہ ہو رہا تھا اور دوسرا طاقت کے نشے میں چور کھڑا تھا۔یہ واقعہ امریکہ کی سفارتی روایات پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ اگرچہ امریکہ ہمیشہ خود کو عالمی قیادت کا دعویدار کہتا ہے مگر اس کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ یہ رویہ اس کے اخلاقی دیوالیہ پن کو واضح کرتا ہے۔ طاقت کے نشے میں چور حکمران یہ بھول جاتے ہیں کہ عزت دینے سے ہی عزت ملتی ہے اور تاریخ ایسے مغرور حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ بقول شاعر:
یہ جو تخت و تاج کے کھیل ہیں
کبھی ہم کبھی تم، کبھی اور ہیں!
امریکی صدر ، نائب صدر اور وائٹ ہائوس کے عملے سمیت امریکی میڈیا کی اس بدتمیزی پر دنیا بھر سے امریکہ کے خلاف شدید رد عمل آ رہا ہے۔ برطانیہ، جرمنی، کینیڈا سمیت یورپی ممالک نے یوکرینی صدر سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔امریکہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ طاقت کا استعمال اور دوسروں کو نیچا دکھانا کبھی بھی دیرپا اثرات مرتب نہیں کرتا۔ اصل طاقت وہ ہے جو دوسروں کو ساتھ لے کر چلتی ہے، ان کی عزت کرتی ہے، اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرتی ہے۔ اگر امریکہ اپنی گراوٹ کو روکنا چاہتا ہے تو اسے اپنے اقدار اور اصولوں کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امریکی میڈیا نے طاقت کے نشے میں یوکرینی صدر وائٹ ہائوس امریکی صدر امریکہ کی میڈیا کی دنیا بھر ہے تو اس کرتا ہے رہا تھا جاتا ہے کے ساتھ تو اسے رہا ہے کے صدر
پڑھیں:
بھارت پر امریکی شہری کے قتل کیلئے انعام مقرر کرنے کا الزام، سکھ تنظیموں کی امریکہ سے مداخلت کی اپیل
امریکہ میں قائم سکھوں کی تنظیم ”سکھس فار جسٹس“ (SFJ) نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے ایک سینئر رہنما نے ایک امریکی شہری کے قتل پر 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کا انعام مقرر کیا ہے۔ یہ دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس 21 اپریل کو بھارت کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔
ایس ایف جے کا کہنا ہے کہ یہ مبینہ انعام ان کے مرکزی رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو نشانہ بنانے کے لیے رکھا گیا ہے، جسے تنظیم نے ٹرانس نیشنل ریپریشن یعنی سرحد پار جبر کا کھلا مظہر قرار دیا ہے۔
ایس ایف جے کے جنرل کونسل اور انسانی حقوق کے معروف وکیل گرپتونت سنگھ پنوں کی جانب سے نائب صدر وینس کو ارسال کردہ خط میں اس اقدام کو امریکی خودمختاری اور قومی سلامتی کے خلاف براہ راست مجرمانہ اقدام قرار دیا گیا ہے۔
خط میں نائب صدر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس مبینہ انعامی اعلان کو ریاستی سرپرستی میں ہونے والی بین الاقوامی دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرتے ہوئے بھارت کو کھلے الفاظ میں ممکنہ نتائج سے آگاہ کریں۔ ان نتائج میں امریکی وفاقی قوانین کے تحت قانونی چارہ جوئی، اقتصادی پابندیاں، اور ملوث عناصر کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینا شامل ہیں۔
ایس ایف جے نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ امریکی حکومت کو صرف سفارتی یا معاشی مفادات نہیں بلکہ جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کے تحفظ کو بھی ترجیح دینی چاہیے، خصوصاً اُن افراد کی سلامتی کے لیے جو خالصتان ریفرنڈم کے لیے سرگرم ہیں۔
Post Views: 3