امریکی جج نے ٹرمپ کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
واشنگٹن:
امریکہ کے ایک جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وفاقی نگران ادارے کے سربراہ، ہیمپٹن ڈیلنگر کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق واشنگٹن کے امریکی ڈسٹرکٹ جج ایمی برمن جیکسن نے فیصلہ سنایا کہ ڈیلنگر کو برطرف کرنے کی کوشش صدر کے اختیارات سے تجاوز کرتی ہے اور اس سے ایگزیکٹو برانچ کے عہدیداروں کو غیر قانونی دباؤ ڈالنے کا موقع ملے گا۔
جج جیکسن نے اس بات کو مسترد کیا کہ اس قانون کا اطلاق غیر آئینی ہے، اور کہا کہ یہ قانون وفاقی ملازمین اور خاص طور پر وسل بلورز کو تحفظ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ غیر قانونی سلوک کا مقابلہ کر سکیں۔
فیصلے کے بعد محکمہ انصاف نے اس کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے وکلا کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ ٹرمپ کے اختیارات کی حدود کو محدود کرتا ہے، لیکن جیکسن نے اس کے خلاف اپنے موقف میں کہا کہ اس فیصلے سے صدر کے اختیارات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
واضح رہے کہ واچ ڈاگ ایجسنی کے سربراہ ہیمپٹن ڈیلنگر کو سابق صدر جو بائیڈن نے 5 سال کے لیے تعینات کیا تھا، انہوں نے عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ وفاقی ملازمین کی قانونی تحفظ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے شہریوں کی جبری بیدخلی روک دی
امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری طور پر ملک بدر کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا ہے۔ یہ حکم وینزویلا کے متاثرہ تارکین وطن کی جانب سے دائر کی گئی مداخلتی استدعا پر جاری کیا گیا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بیدخلی کا سامنا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں بنیادی عدالتی عمل کے بغیر ملک بدر کیا جا رہا ہے، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن خطرناک گینگز سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس کو ہی حاصل ہوگی، تاہم انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد سے انکار کرے گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اب بھی مزید پچاس سے زائد وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری بیدخل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو سو سے زائد وینزویلا کے باشندوں سمیت متعدد افراد کو السلواڈور کی جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف امریکہ بھر میں مظاہرے
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اور ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیوں کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ واشنگٹن، شکاگو اور دیگر اہم شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، جب کہ نیویارک میں صدر ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں نے کی۔
مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ ان کے غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر پالیسیوں اور متنازع اقدامات سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
ان مظاہروں کی کال معروف تحریک ’ففٹی ففٹی ون موومنٹ‘ کی جانب سے دی گئی تھی، جس کا مقصد تمام پچاس امریکی ریاستوں میں بیک وقت مظاہروں کا انعقاد کرنا ہے تاکہ ایک منظم عوامی ردعمل دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔
Post Views: 3