چند دن پہلے کہیں جاتے ہوئے گاڑی میں ریڈیو آن کیا تو اس پر بھی اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی جس موضوع پر مجھے آج ہی ایک پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا اور میرے دماغ میں یہ بات اٹک گئی۔
رمضان کی آمد مبارک ہو، خواتین کو چاہیے کہ وہ رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے مہینے بھر کی تیاری کر لیا کریں، اس کی تفصیل میں سارا ذکر اس بات کا ہے کہ وہ رمضان سے پہلے سحر اور افطار کے اوقات کے لیے کیا کیا بنا کر رکھ سکتی ہیں۔ اس میں سموسے ، رول اور کباب بنانے کے ساتھ ساتھ، سادہ، قیمے اورآلو کے نیم پکے پراٹھے… پورے مہینے کے لیے تیار کر کے فریزر میں رکھ لیں اور ہر رات سونے سے پہلے اتنے پراٹھے فریزر سے نکال کر رکھ دیں جتنے کہ سحری میں تیار ہونا ہیں۔ ( تصور کریں کہ اگر کسی گھر میں آٹھ افراد نے روزہ رکھنا ہو تو) کون کون سے مشروبات کے لیے پھل بلینڈ کر کے رکھ سکتے ہیں، لیموں کا رس نکال کر ٹکڑیوں میں فریز کر لیں۔ کئی کئی کلو چنے گلا کر، روزانہ کی چاٹ کے حساب سے پیکٹ بنا کر فریزر میں رکھ لیں۔ سبزیاں باریک باریک کاٹ کر پیکٹ بنا کر پکوڑوں کے لیے فریز کر لیں۔
ہاں بیسن میں بھی تو مسالے ملا کر تیار کرنا ہو ں گے تا کہ افطار کے وقت مسالہ ملا بیسن اور کٹی ہوئی سبزی نکال کر صرف پا نی ملا کر پکوڑوں کا مسالہ تیار ہو سکے۔ ایک ماہرہ نے تو یہاں تک مشورہ دیا کہ اگر رمضان سے پہلے کسی ایک دن کو وہ چٹنیاں بنانے کے لیے مختص کردے تو وہ املی، آلو بخارا، ٹماٹر، تل اور ہرے مسالے کی چٹنیاں وہ ایک ہی دن میں پورے رمضان کے لیے بنا کر رکھ سکتی ہیں۔ حلوہ جات تیار کر کے رکھ لے، پھلوں کو کاٹ کر، پلاسٹک کی تھیلیوں میں فروٹ چاٹ کے لیے محفوظ کرکے فریزر میں رکھ دے ۔
( جانے یہ ہاتھی کے سائز کا فریزر کہاں سے آئے گا؟) لہسن پیس کر رکھ لیں، پیاز تل کر رکھ لیں، ٹماٹر پیس کر یا ابال کر رکھ لیں ، آلو بھی ٹکڑیوں میں کاٹ کر ابال کر رکھ لیں، دو ہفتے تو فرج میں بھی نکال لیں گے۔ اتنے مفید مشورے مگر ان کے لیے دو ماہ کا وقت تو چاہیے نا ۔ ساری خواتین ایسی سگھڑ کہاں ہوتی ہیں ، کچھ تو میرے جیسی بھی ہوتی ہیں۔اگر یہ ساری تیاری کی ہو گی تو خاتون خانہ کو ہر گز فکر نہ ہو گی کہ رمضان میں کام کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ سن کر یوں لگتا ہے کہ جیسے قحط آنیوالا ہے یا ماہ رمضان سے پہلے یونہی ہے جیسی کہ کسی جنگ کی تیاری کرنا ۔
سب سے پہلا سوال تو یہی ہے کہ اگر مرد و زن دونوں پر ہی روزہ ایک ہی طرح فرض ہے اور روزے کی سختی بھی دونوں پر ایک ہی طرح ہے تو ایسا کیوں ہے کہ اضافی مشقت صرف عورتوں کے حصے میں ہو؟ اگر عورت خاتون خانہ ہے، ملازمت نہیں کرتی تو بجا، اس کے لیے گھر کے کام کار ہی ملازمت سماں ہیں اور اسے ان کا اجر بھی ملے گا۔ جو عورت اپنے گھر والوں، بچوں اور شوہر کے لیے کام کرتی ہے اور اس میں خوش بھی ہے تو اس کے لیے یقیناً اس کا اجر بھی ہے۔ ماہ رمضان میں جب کوئی عورت افطاری کے لیے کھانے کی تیاری کرتی ہے تو وہ روزے کی حالت میں ہوتی ہے، کھانا پکانے کی خوشبو سے بھوک میں ہر انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ کچھ چکھ سکے مگر ظاہر ہے کہ اس کی اجازت نہیں ۔ ایسے میں کھانا پکانے والی عورت اپنے نفس پر قابو پا کر گھر والوں کے لیے رنگ برنگے اور لذیذ پکوان تیار کرتی ہے ۔
اس کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ تھک جائے یا ہمت ہار جائے تو بھی اسے اپنے گھر والو ں کی بھوک اور تکان کو سمیٹنا ہوتا ہے ۔ کاروبار یا ملازمت کرنیوالا مرد جب گھر لوٹتا ہے تو اس کے بعد اسے آرام اور راحت کی طلب ہوتی ہے، رمضان میں تو یہ نزاکت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دفتر سے لوٹ کر ذہن سکون اور جسم بستر مانگتا ہے، نمازیں بھی بمشکل پڑھتے ہیں اور نڈھال ہو کر لیٹ جاتے ہیں، لیکن ملازمت کرنیوالی خاتون کے لیے یہ سب مختلف ہوتا ہے، اسے ایک اور دریا کے سامنا ہوتا ہے اک دریا کے پار اتر کر۔ اس کے لیے گھر کے افراد کی خدمت، بچوں کے اسکول کے کام ، یونیفارم دھونا ، ان کے ہوم ورک دیکھنا، اپنے دفترکے کام اور افطار اور سحر کی تیاری موجود ہوتی ہے۔
وہ نہ آرام کر سکتی ہے نہ آرام کی خواہش۔ مرد و زن کی برابری کا سوال نہیں مگر کیا وہ انسان بھی نہیں؟آپ کے ہاں تو سارا سال دن میں تین یا چار اوقات کے کھانے بنتے ہیں، ناشتہ، دوپہر کا کھانا، شام کی چائے اور رات کا کھانا۔ آپ کو جب کسی چیز کی کمی نہیں تو کیا وجہ ہے کہ رمضان میں آپ یوں کھانوں کھاجوں کی توقع کرتے ہیں جیسے کہ باقی سارا سال آپ کو کچھ کھانے کو نہیں ملتا۔ آج کے زمانے میں جب سائنس اور ماہرین خوراک بھی اس بات کی تعلیم کرتے ہیں کہ دن کے ایک طویل حصے میں اگر ہم اپنے معدے کو آرام کرنے کا وقت دیں، اس لیے کہ معدہ اس سارے کھائے پئے کو ہضم کر سکے جو کہ ہم دن کے وقت بنا بھوک یا بھوک سے کھاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ہر میل ملاقات کا اصل مقصد کھانا ہی ہوتا ہے خواہ وہ خوشی کا ہو یا غمی کا۔ ہم شادیوں، عیدوں، شب براتوں ، سالگرہوں اور مختلف تقاریب پر بھی کھاتے ہیں اور کسی کی مرگ ہو یا کوئی تکلیف بیماری… تب بھی ہمیں کھانا ہوتا ہے۔ جب ہم ہر وقت اور ہر جگہ کھاتے ہیں تو کیا اس ایک مہینے میں ہم اپنے تزکیہء نفس کے لیے قربانی نہیں دے سکتے؟ اپنے حصے کا رزق یا کھانا کسی اور کو دے کر ان کے گھر کا چولہا ایک ماہ جلتا رہے ۔ کسی غریب گھرانے کو ایک ماہ کے لیے کھانا برابر اور وافر ملتا رہے۔
روزے کی اصل روح کو ہم سحری اور افطاری کے وقت کھانوں کی تہیں لگا کر ہی ماردیتے ہیں۔ ہم یہی کچھ اپنے بچوں کو بھی سکھا رہے ہیں کہ رمضان میں اگر آپ نے دن کو اپنے نفس پر قابو پایا ہے تو شام کو اس کو بے نتھے بیل کی طرح چھوڑ دیا جائے۔ بچوں کو اسی عمر سے سکھائیں اور نہ صرف رمضان بلکہ عید پر بھی انھیں قربانی کا درس دیں۔ اپنے حصے کی عیدی، اپنے حصے کا کھانا اور اپنے حصے کے کپڑوں میں سے آپ کسی غریب کی خوشی کی خاطر کچھ کریں تو اس پر دل خوش ہونا چاہیے ۔ روز مرہ کے معاملات میں اگر ہم سادگی اختیار کریں تو ہر روز کسی ایک غریب کو کھانا دیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر رکھ لیں کی تیاری اپنے حصے ہوتا ہے سے پہلے تیار کر کے لیے
پڑھیں:
پیکر کردار مثالی لوگ
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اچھی بات دین اسلام کی گمشدہ میراث ہے ۔کیوں نہ ہو کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ انسانوں کے اخلاق سنوارنے کے لئے ہی تو مبعوث فرمائے گئے تھے ۔پوری انسانیت آج بھی میرے نبی آخرالزمان ﷺ کے جادہ اخلاق پر چل کر ہی دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوسکتی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا ہو۔عمر رفتہ کی ساٹھویں دہائی میں اچانک سے کسی صالح اور پیکر حسن اخلاق دوست کا مل جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں اس پر مستزاد یہ کہ وہ ایک درد مند مسیحا بھی ہو ۔ڈاکٹر محمد بلال ماہر اطفال ہیں، ایک عمر آئرلینڈ بسر کرنے کے بعد پاکستان آئے ہیں یہاں آنا اور یہاں کا ہورہنا بھی جان جوکھوں سے کم نہیں وہ ذہنی اور جسمانی سطح پر ہی نہیں روحانی سطح پر بھی یہاں کے ماحول سے لڑتے بھڑتے مہ وسال بسر کرنے میں لگے ہیں ۔
یہاں کی فضا ان کے مزاج کے لئے ساز گارنہ سہی مگر وہ بہرصورت نبرد آزماہیں اور ہارنے والے نہیں لگتے ۔انہوں نے ہمسایہ ملک کے ایک ریٹائرڈ افسر(جو صدر ڈاکٹر عبدالکلام کے دور میں ان کے سیکرٹری تھے) کے ایک ٹی وی انٹر ویو کے کچھ حصے انگریزی میں مجھے مرحمت فرمائے ہیں جنہیں اپنے حلقہ احباب تک پہنچانا ایک فرض اور قرض گردانتا ہوں ، کہ شائد رلادینے والے اس انٹر ویو کا خلاصہ ہمارے ارباب بست و کشاد میں بھی کوئی ایسا جذبہ بیدار کردے ۔یہ تحریر شائد کچھ لوگوں کے لئے دہرائی ہوئی ہو مگر پھر دہرائی جانے کے قابل ہے کہ ایسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ،جن کے واقعات ہر بار سننے کے لائق ہوتے ہیں ۔ دنیا کے ہر ملک کے سربراہ ملکوں ملکوں دورے کرتے ہیں اور یہ ایک دیرینہ روایت رہی ہے کہ جس ملک بھی جاتے ہیں اس ملک کی طرف سے انہیں بیش قیمت تحائف پیش کئے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالکلام کو بھی بیرونی دوروں پر تحائف دیئے جاتے اور وہ لینے سے انکار نہ کرتے کہ یہ ان کے ملک کے وقارکا تقاضا تھا،مگر وطن واپسی پر وہ ان تحائف کی تصاویر کھنچواتے ،فہرست بنواتے اور انہیں راشٹرپتی بھون کے آرکائیوز میں جمع کروادیتے ۔حتیٰ کہ صدارتی محل چھوڑتے وقت بھی ایک پنسل تک اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔2002 ء میں رمضان المبارک آیا تو روایت کے مطابق افطار پارٹی کی تیاریاں ہونے لگیں ،ڈاکٹر کلام نے اپنے سیکرٹری مسٹر نائرسے کہا ’’ہم ان لوگوں کو کیوں کھلائیں جوپہلے ہی کھاتے ہیں‘‘ معلوم ہوا کہ اس پر 22لاکھ روپے خرچ اٹھے گا،ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ یہ رقم یتیم خانوں میں کھانا ،کپڑے اور کمبل دینے پر لگا دی جائے۔ مزید یہ کہ اپنے ذاتی بچت سے ایک لاکھ روپے کا چیک دیا اور کہا ’’کسی کو نہ بتانا‘‘۔ ڈاکٹر کلام جی حضورکہنے والوں کے سخت خلاف تھے ،ایک بار چیف جسٹس کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحب نے رائے دی اور مسٹر نائر سے پوچھا ’’تم متفق ہو ؟‘‘ مسٹر نائر بولے ’’نہیں سر میں متفق نہیں ہوں‘‘ چیف جسٹس ششدر رہ گئے ۔ڈاکٹر کلام بعد میں وجہ پوچھتے اور اگر دلیل میں وزن ہوتا تو99 فیصد اپنی رائے بدل لیتے۔ڈاکٹر کلام نے اپنے پچاس کے قریب رشتہ داروں کو دہلی بلوایا،ایک نجی بس کا انتظام کیا ،جس کا کرایہ خود ادا کیا ۔تمام اخراجات کا حساب ہوا، دو لاکھ روپے اور وہ بھی اپنی جیب سے ادا کئے ،حتی کہ اپنے بڑے بھائی کے ایک ہفتہ تک کمرے میں قیام کا کرایہ بھی دینا چاہا۔مگر عملے نے کہا ’’سریہ تو حد ہوگئی‘‘ جب مسٹر کلام کی مدت صدارت ختم ہوئی ،ہر ملازم نے آکرالوداع کہا۔ مسٹر نائر کی اہلیہ کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی ۔ڈاکٹر کلام نے خبر سنی تو اگلے دن ان کے گھر پہنچے ،ان کی اہلیہ کی مزاج پرسی کی اور کچھ وقت ساتھ گزارا ۔مسٹر نائر کہتے ہیں ’’دنیا کے کسی ملک کا صدر سرکاری ملازم کے گھر یوں نہیں آتا‘‘ ڈاکٹر عبدالکلام کی کل ملکیت 6پتلون ( 2ڈی آر ڈی آو کی یونیفارم )4 قمیص (ڈی آر ڈی کی یونیفارم ) 3سوٹ ،2500کتب 1فلیٹ(عطیہ کردیا) 1پدم شری۔1۔پدم بھوشن ۔1بھارت رتن۔16 ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں۔1۔ویب سائٹ 1۔ٹیوٹراکائونٹ۔1ای میل آئی ڈی۔نہ کوئی گاڑی ،نہ زیور،نہ زمین ،نہ بنک بیلنس۔حتیٰ کہ اپنی آخری 8سال کی پنشن بھی گائوں کی ترقی کے لئے دے دی۔