جے ڈی سی کے تحت کراچی میں سحری، گورنر سندھ اور فاروق ستار شریک
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: جے ڈی سی کے دستر خوان پر تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سحر و افطار کرتے ہیں، اہل سنت، اہل تشیع سب اپنے اپنے وقت پر روزہ رکھتے اور افطار کرتے اور انہیں انتہائی منظم اور بہترین طریقے سے گرما گرم کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس ماہ رمضان کے آغاز میں پہلی رمضان المبارک کی سحری میں گورنے سندھ کامران خان ٹیسوری بھی شریک ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے شرکاء میں سحری تقسیم کی۔ متعلقہ فائیلیںاسلام ٹائمز۔ ماہ رمضان شروع ہوگیا ہے، رحمتوں اور برکتوں کے اس ماہ میں ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کار خیر میں حصہ لے کر برکتوں کے حصول میں اپنا حصہ ڈال سکے۔ کراچی دنیا کے ان بڑے شہروں میں سے ہے جہاں رمضان المبارک میں سب سے زیادہ سحر و افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، چھوٹی بڑی تمام فلاحی تنظیمیں پورے ماہ شہر کی مختلف سڑکوں پر روزہ داروں کیلئے افطاری کا اہتمام کرتی ہیں۔ جی ڈی سی فاؤنڈیشن نے افطار کے ساتھ سحری کا بھی منفرد اہتمام گذشتہ کچھ سالوں سے کراچی میں کرنا شروع کیا ہے۔ نمائش چورنگی پر قائم دستر خوان امام حسن علیہ السلام کے عنوان سے جے ڈی سی کے تحت ہزاروں شہریوں کو بلاتفریق سحری و افطاری کرائی جاتی ہے۔ ساتھ ہی اگر آپ افطاری یا سحری گھر والوں کیلئے لے جانا چاہیں تو اس کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کے جے ڈی سی کے دستر خوان پر تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سحر و افطار کرتے ہیں، اہل سنت، اہل تشیع سب اپنے اپنے وقت پر روزہ رکھتے اور افطار کرتے اور انہیں انتہائی منظم اور بہترین طریقے سے گرما گرم کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔ اس ماہ رمضان کے آغاز میں پہلی رمضان المبارک کی سحری میں گورنے سندھ کامران خان ٹیسوری بھی شریک ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے شرکاء میں سحری تقسیم کی۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جے ڈی سی کے افطار کرتے
پڑھیں:
دہائیوں پرانے کیسز میں تازہ گرفتاریوں سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے، میرواعظ عمر فاروق
میرواعظ کشمیر کا کہنا ہے کہ ہزاروں کشمیری نوجوان جیلوں میں دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے دہائیوں پرانے کیسز کے سلسلے میں کشمیر بھر میں تازہ گرفتاریاں انجام دینے پر تشویش کا اظہار کیا۔ میرواعظ عمر فاروق نے کہا کہ ان گرفتاریوں نے ان خاندانوں میں گہری بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا کر دی ہے جو سمجھتے تھے کہ ان کا ماضی اب پیچھے رہ چکا ہے اور وہ ایک نئی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میرواعظ کشمیر نے کہا کہ لوگ 1990ء کی دہائی کے کیسز میں اچانک کارروائیوں سے پریشان ہیں۔ عوام میں ان گرفتاریوں پر گہری تشویش پائی جا رہی ہے، ایسے کیسز جو دہائیوں پرانے واقعات سے متعلق ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق نے گرفتاریوں کی وجہ سے گرفتار شدہ افراد کے اہل خانہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال خاص طور پر ان افراد اور ان کے خاندانوں کے لئے شدید تشویش کا باعث بن گئی ہے جنہوں نے طویل عرصے پہلے اپنے ماضی سے خود کو دور کر لیا تھا۔
میرواعظ عمر فاروق کا یہ بیان دو سینیئر علیحدگی پسند رہنماؤں کی 29 سالہ قدیم کیس میں گرفتاری کے پیس منظر میں سامنے آیا ہے۔ دو دن قبل سیکورٹی ایجنسیز نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF) رہنما اور سابق عسکریت پسند جاوید احمد میر اور سینیئر علیحدگی پسند کارکن شکیل احمد بخشی کو 1996ء کے تشدد کے ایک کیس کے سلسلے مہیں گرفتار کر لیا۔ یہ کیس جولائی 1996ء کا ہے جب دونوں ملزمان سمیت سات دیگر افراد پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ سرینگر میں فوت ہوئے ایک دہشتگرد کمانڈر ہلال بیگ کے جنازے کو ایک بڑے جلوس کی صورت میں برآمد کر رہے تھے، جس دوران احتجاج، فساد اور پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان سات افراد پر عوام کو تشدد بڑھکانے اور انہیں پولیس پر پتھر پھیکنے کے لئے مائل کرنے کی پاداش میں رنبیر پنل کوڈ، غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ اور آرمز ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔
پولیس کی جانب سے درج کیس میں کے مطابق، ان (سات افراد) نے ایک ہجوم کو اکسایا، اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں ناز کراسنگ پر سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس کیس میں درج بعض ملزمان اب فوت ہوچکے ہیں، جن میں حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین سید علی گیلانی، عبدالغنی لون اور محمد یعقوب وکیل شامل ہیں۔ دو دیگر ملزمان، شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان اس وقت تہاڑ جیل میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے کیسز میں بند ہیں۔
جاوید میر 1980ء کی دہائی کے اواخر میں محمد یاسین ملک (جو اس تہاڑ جیل عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے) کے ساتھ جے کے ایل ایف کے اولین کارکنان میں شامل تھے اور سینیئر عسکری کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ جاوید میر کو 1994ء میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس (BSF) نے گرفتار کیا تھا اور جیل سے چھوٹنے کے بعد انہوں نے بھی یاسین ملک کی طرح تشدد کا راستہ ترک کرکے آزادی پسند سیاست میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایک اہلکار نے کہا کہ 1996ء کے کیس کو "مفرور ملزمان کو الزامات کا سامنا اور انصاف فراہم کرنے" کے لئے دوبارہ کھولا گیا۔
میرواعظ عمر فاروق کا کہنا ہے کہ نئی گرفتاریوں سے کشمیری عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے، جو پہلے ہی طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری قیدی جیلوں میں برسوں، کچھ تو دہائیوں سے قید ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کو بے پناہ تکلیف اور مشکلات کا سامنا ہے۔ میرواعظ عمر فاروق کے مطابق گرفتاریوں کا یہ نیا سلسلہ لوگوں کے دکھ اور غم میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کشمیر سے باہر کشمیری شہریوں کو جیلوں میں بند رکھنے سے پیدا ہونے والی انسانی اور قانونی پیچیدگیوں پر پھر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی تدابیر اکثر عدالت کی کارروائیوں میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں اور خاندانوں کے لیے ملاقاتوں کا عمل انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ میراعظ عمر فاروق نے کہا کہ یہ انسانیت کے بنیادی اصولوں اور قدرتی انصاف کے خلاف ہے۔