آخر کون بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھے گا ؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
جاوید محمود
بلوچستان کے حوالے سے عالمی سطح پر شائع ہونے والی خبریں دنیا بھر میں آباد محب وطن پاکستانیوں میں بے چینی پیدا کر دیتی ہیں۔ ایسی خبریں جس میں گمشدہ افراد اور ہلاک کرنے کے واقعات پڑھ کر ایک ہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہاں جنگل کا قانون ہے؟ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کا سر اٹھانا ایک انتہائی لمحہ فکریہ ہے اور حکومت پاکستان کو بلوچستان کے مسائل حل کرنے پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی۔ تصور کریں اگست 2016 میں بلوچستان کے موجودہ وزیر خارجہ سرفراز بگٹی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت 13575 افراد کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا ،2015 میں سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے اعتراف کیا کہ اس سال 9000 سے زائد مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ۔2004 میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ نے 4000بلوچوں کو گرفتار کرنے کا اعتراف کیا۔ واضح رہے تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق بلوچوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ 2000 ء سے اب تک شورش کے باعث تقریبا 4608 شہری مارے جا چکے ہیں۔ بلوچستان کی شورش کے بارے میں اضافی معلومات کے مطابق 1973سے 1977کے درمیان 6000 سے زیادہ شہری مارے گئے جبکہ 2004اور 2005میں تقریبا 140,000لوگ بے گھر ہوئے ۔بلوچستان میں گرفتاریوں اور اغوا ہونے کے واقعات کے بعد شدید رد عمل دیکھنے میں ا رہا ہے، خبروں کے مطابق بلوچستان کی سڑکوں پر ہزاروں افراد احتجاجاً بیٹھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے کچھ علاقے ایسے ہیں، جہاں پر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے اپنا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ دنیا سمجھتی ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے سونا چاندی اورتانبا ہے جبکہ ہمارے پیروں کے نیچے نہ سڑک ہے نہ پیٹ میں خوراک ہے اور نہ ہی ہمارے پاس صحت اور تعلیم کی سہولت ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق اور وسائل کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم بلوچ یکجہتی کمیٹی نے چند روز قبل احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس سے قبل گوادر میں تنظیم کے دھرنے کے دوران پرتشدد واقعات ہوئے تھے جس کے بعد منتظمین کی جانب سے اگلے احتجاج کے لیے دالبدین کا انتخاب کیا گیا تھا۔
بلوچوں میں احساس محرومی بڑھنے کی بہت سی وجوہات ہیں، ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ زمین سے نکلنے والی قدرتی معدنیات کا فائدہ باہر کے لوگ اٹھا رہے ہیں جبکہ یہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ان کا دعویٰ ہے کہ یہاں پر جتنے سیاست اور پارلیمنٹ سے جڑے ہوئے لوگ ہیں انہوں نے لوگوں کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا ہے ،بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے احتجاج کے لیے دالبندین کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ علاقہ اس خطے میں آتا ہے جہاں سیاسی سرگرمیاں خاصی محدود رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ عرصہ دراز سے معاشی استحصال کا سامنا کرتا آ رہا ہے۔ سرحد سے منسلک ہونے کی وجہ سے لوگوں کی جبری گمشدیوں کے ساتھ جبری بے دخلی کا بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے ۔اس وجہ سے ہم نے یہاں کا انتخاب کیا۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ساڑھے سو کلومیٹر کے فاصلے پر چاغی کا ضلع ہیڈ کوارٹر دالبندین واقع ہے یہاں آر سی ڈی شاہراہ آتی ہے جو ایران کی سرحد میں بھی داخل ہوتی ہے ۔اس شہر کے ایک طرف افغانستان اور دوسری جانب ایران کی سرحد واقع ہے ۔یہ ضلع پہاڑی اور میدانی علاقوں اور صحراؤں پر مشتمل ہے۔ پاکستان نے ایٹمی تجربہ کرنے کے لیے بھی اسی علاقے کا انتخاب کیا تھا جس کے بعد چاغی دنیا بھر میں خبروں کی سرخیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق ضلع چاغی کی آبادی پونے تین لاکھ کے قریب ہے اور اس کے بڑے بڑے شہروں میں دالبندین نو گنڈی اور تافتان شامل ہیں ۔یونیسیف کے 2023کے سروے کے مطابق ضلع میں 31فیصد بچوں کو دائمی غذائی قلت کا سامنا ہے ۔اسی سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ 57فیصد گھرانے ایسے ہیں، جنہیں شدید بھوک کا سامنا ہے۔ ضلع چاغی کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 50سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ یہاں با رائی زمینیں ہیں یعنی کھیتی باڑی کا دارومدار بارشوں پر ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو اکثر قحط سالی کا سامنا رہتا ہے ۔اس ضلع میں شرح خواندگی صرف 27 فیصد ہے حکومت بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ ضلع چاغی میں بچوں کی اکثریت ہوٹلوں، ورکشاپ ،ٹیلرنگ بڑیوں ویلڈروں کی دکانوں پر کام کرتی ہے۔ یا پھل اور سبزیاں فروخت کرتی ہے ۔
سروے میں بتایا گیا ہے کہ اسکول کی دستیابی میں مسائل پانی اور بیت الخلا جیسی سہولیات کے فقدان کا تعلیمی اداروں میں ہونے والی انوائرمنٹ پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات پر صوبے کا حق تسلیم کیا گیا تھا ۔صحافی اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایسا نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت غیر ملکی کمپنیوں سے بلوچستان حکومت کی جگہ ڈیل کرتی ہے ۔اس کی وجہ سے صوبائی حکومت کی کمزوری یا اہلیت کا فقدان ہے۔ ریکوڈک سے سونا اورتانبہ نکالنے کے لیے حکومت پاکستان نے کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ سے معاہدہ کیا۔ حکومت پاکستان نے سب سے پہلے 1993میں آسٹریلوی کمپنی بی ایچ ایس کے ساتھ ریکوڈک کا معاہدہ کر دیا تھا۔ تاہم بی ایچ پی نے یہ پروجیکٹ ٹیتھیان کاپر کمپنی کے حوالے کر دیا جو کہ چلی کی اینٹوفاکسٹا اوربیرک گولڈ کارپوریشن کا مشترکہ منصوبہ تھا ۔حکومت بلوچستان کا یہ کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کا یہ واضح موقف ہے کہ قدرتی وسائل کے شعبے میں جو بلوچستان کا حق بنتا ہے وہ اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ معدنیات میں جو صوبوں کا حصہ ہے ،وہ آئین میں واضح ہے جس سے قوم پرست جماعتیں بھی اتفاق کرتی ہیں۔ کمپنیوں کے دعووں کے باوجود مقامی لوگوں کو شکوہ ہے کہ انہیں روزگار نہیں مل رہا ہے۔ مقامی لوگوں کی قسمت میں دیہاڑی کی مزدوری اور سیکیورٹی گارڈ کی ملازمتیں ہی ہیں۔ باقی بڑے عہدوں پر غیر مقامی لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے ۔سہولیات اور تعلیم کا معیار خراب ہونے کے سبب یا ڈاکٹر یا انجینئر نہیں ہیں ۔اسی طرح یہاں ٹیکنیکل تعلیم کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ سے بنا کر سینک اور ریکوٹک جیسے ادارے کہتے ہیں کہ آپ کے پاس مطلوبہ تعلیم نہیں ہے، اب نوجوانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بلوچوں نے
پاکستانی حکومت پر صوبے کی ترقی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کے وسائل کا استحصال اور فائدہ اٹھانے کا الزام نہیں لگایا ہے یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کہلانے والے کئی ارب ڈالر کے منصوبے کا بھی ایک اہم حصہ ہے لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بلوچ عوام کو اس منصوبے کے ذریعے پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع نہیں ملیں گے۔ بلوچستان کی موجودہ صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مبصرین کا خیال ہے کہ بلوچستان میں تنازع کو حل کرنا پاکستان کے سیاسی اور معاشی مفاد میں ہیں لیکن وہ اس بات کی بہت کم امید رکھتے ہیں جبکہ بلوچ لیڈر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حکومت برسر اقتدار آئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ماورائے عدالت قتل جاری رہیں گے۔ اس پر قیادت کو کبھی بھی حقیقی تشویش نہیں رہی۔ المیہ یہ ہے کہ بلوچستان کی انتہائی کشیدہ صورتحال کا فی الحال کسی کے پاس کوئی حل دکھائی نہیں دیتا اور یہ بڑی تشویش ناک بات ہے آخر کون بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکھے گا؟
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: بلوچستان میں بلوچستان کے بلوچستان کی کا انتخاب کی وجہ سے کے مطابق لوگوں کو کا سامنا کہ بلوچ کیا گیا کے بعد کے لیے
پڑھیں:
پولیو کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، وزیراعظم
حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے
وزیراعظم نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر 7روزہ انسداد پولیو کا آغاز کر دیا
وزیراعظم شہباز شریف نے ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے عزم کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پولیو کے انسداد کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ، معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔انہوں نے یہ بات پولیو مہم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی جو رواں سال پولیو کی دوسری مہم تھی۔قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلا کر سات روزہ قومی پولیو مہم کا باقاعدہ افتتاح کیا، یہ مہم 21 اپریل سے 27 اپریل تک ملک بھر میں جاری رہے گی جس کا مقصد پاکستان سے پولیو وائرس کے مکمل خاتمے کو یقینی بنانا ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ پولیو جیسا موذی مرض صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرے کا باعث ہے اور اس کا خاتمہ صرف حکومتی کوششوں سے ممکن نہیں بلکہ والدین، اساتذہ، علمائے کرام، میڈیا، سول سوسائٹی اور ہر شہری کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ حکومت پولیو کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت نہ صرف گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا رہے ہیں بلکہ پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ وہ بلا خوف و خطر اپنی قومی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔وزیراعظم نے انسداد پولیو کے لیے خدمات انجام دینے والے تمام فیلڈ ورکرز، رضاکاروں اور محکمہ صحت کے عملے کو خراج تحسین پیش کیا جن کی شبانہ روز محنت کی بدولت پاکستان میں پولیو کے کیسز میں نمایاں کمی ہوئی ہے ۔انہوں نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن، یونیسف و دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے مسلسل تعاون فراہم کیا اور ہر مشکل گھڑی میں حکومت پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔وزیراعظم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلوائیں کیونکہ ایک قطرہ نہ صرف ان کے بچے کو عمر بھر کی معذوری سے بچا سکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بھی ہے ۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت پاکستان پولیو کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھے گی اور ہر قیمت پر بچوں کے روشن اور محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیر اعظم نے وفاقی وزیر صحت سید مصطفی کمال اورفوکل پرسن برائے انسداد پولیو عائشہ رضا سمیت پولیو مہم کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔