’’حسن کی دیوی‘‘ میرا کا دعویٰ، ایشوریا اور مادھوری بھی پیچھے رہ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
پاکستانی فلم انڈسٹری کی سابقہ ہیروئن میرا نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں ایسے دعوے کیے ہیں کہ جسے سن کر ایشوریا رائے اور مادھوری ڈکشٹ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ہوگا۔
خبروں میں رہنے کا گُر جاننے والی میرا نے کہا کہ جب وہ بھارت میں کام کرنے گئی تھیں، تو ان کے حسن کا موازنہ بالی ووڈ کی ان دو دیویوں سے کیا گیا تھا۔ اب اگر ایشوریا اور مادھوری نے یہ بات سن لی ہو، تو شاید وہ اپنے میک اپ روم میں جا کر رو رہی ہوں گی!
میرا نے انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ انہیں کبھی کسی کرکٹر میں دلچسپی نہیں رہی، اور نہ ہی انہوں نے کبھی کسی سے پیار کیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے شادی کےلیے دلہا تلاش کر لیا ہے، تو میرا نے پراسرار انداز میں جواب دیا، ’’کچھ کچھ ہے‘‘۔ یعنی، دلہا تلاش کرنے کا معاملہ ابھی تک ’’انڈر پروسیس‘‘ ہے۔ شاید وہ کسی شہزادے کا انتظار کر رہی ہیں جو ان کے حسن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے!
میرا نے بتایا کہ وہ اس وقت ایک فلم اور ڈرامے کی شوٹنگ میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ جلد ہی ’مائی ڈیئر ہسبینڈ‘ نامی منصوبے کا آغاز کرنے والی ہیں۔ شاید یہ منصوبہ ان کی شادی کی تیاریوں کا حصہ ہو، کیونکہ ’’کچھ کچھ ہے‘‘ والی بات تو انہوں نے کر ہی دی ہے۔
میرا نے یہ بھی بتایا کہ بھارت میں ان کی پرانی فلم ’سمرن‘ کو دوبارہ ریلیز کیا گیا ہے، اور بھارتی مداح اسے کافی پسند کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ڈسٹری بیوٹرز نے انہیں بتایا کہ فلم پورے بھارت میں ہٹ ہو رہی ہے۔ لگتا ہے میرا کا حسن نہ صرف ان کے چہرے پر، بلکہ ان کی فلموں پر بھی جادو کر رہا ہے۔
میرا کے ان دعوؤں پر سوشل میڈیا صارفین نے دلچسپ تبصرے کیے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’میرا کی بات سن کر ایشوریا رائے اور مادھوری ڈکشٹ نے خودکشی کرلی ہوگی!‘‘ دوسرے صارف نے لکھا، ’’میرا نے تو بالی ووڈ کو بھی اپنے حسن کے سامنے ہار منوا دی۔‘‘ کچھ صارفین نے مزید لکھا، ’’اب تو میرا کو ’ملکۂ حسن‘ کا خطاب دے دینا چاہیے۔‘‘
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: اور مادھوری بتایا کہ
پڑھیں:
سائنسدانوں کا ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ
سائنس دانوں نے ایک نیا رنگ دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو اس سے قبل کسی انسان نے نہیں دیکھا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق محققین نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ریٹینا میں مخصوص خلیات متحرک کرکے نیلے اور سبز رنگ کا مشاہدہ کیا جسے سائنس دانوں نے ’اولو‘ کا نام دیا جب کہ کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ نئے رنگ کی موجودگی پر مزید بحث ہو سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر اور سائنسی جریدے میں شائع اس تحقیق کے شریک مصنف نے پیش رفت کو ’قابل ذکر‘ قرار دیا اور اس خیال کا اظہار کیا کہ نتائج کی بنیاد پر ممکنہ طور پر کلر بلائنڈنس پر مزید تحقیق کی جاسکتی ہے۔
نئے رنگ کی دریافت کے تجربے میں حصہ لینے والے 5 افراد میں شامل پروفیسر این جی نے کہا کہ ’اولو کسی بھی رنگ سے زیادہ بھرا ہوا ہے جسے آپ حقیقی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں‘۔
ٹیم کے تجربے کے دوران محققین نے ہر شرکا کی ایک آنکھ کی پتلی میں لیزر بیم چمکائی، اس مطالعے میں 5 افراد شامل تھے جن میں سے چار مرد اور ایک خاتون تھیں۔
تحقیقی مقالے کے مطابق شرکا نے نئے رنگ کو او زیڈ نامی ڈیوائس میں دیکھا جو شیشے، لیزر اور آپٹیکل ڈیوائسز پر مشتمل ہے، اس سے قبل اس آلے کو یو سی برکلے اور واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ڈیزائن کیا اور اس مطالعہ میں استعمال کے لیے اسے اپ ڈیٹ کیا گیا۔
ریٹینا آنکھ کے پیچھے ٹشو کی ایک ہلکی حساس پرت ہے جو بصری معلومات کو وصول اور پروسیس کرتی ہے، یہ روشنی کو برقی سگنل میں تبدیل کرتی ہے ، جو پھر بصری اعصاب کے ذریعے دماغ میں منتقل ہوتی ہے ، جس سے ہمیں دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔
ریٹینا کون خلیات پر مشتمل ہوتا ہے، یہ خلیات رنگ کو سمجھنے کا کام کرتے ہیں، آنکھ میں 3 اقسام ایس ، ایل اور ایم کے کون خلیات ہوتے ہیں، اور ہر ایک بالترتیب نیلے ، سرخ اور سبز کے مختلف ویو لینتھ کے لیے حساس ہوتا ہے۔
تحقیقی مقالے کے مطابق نارمل ویژن میں کوئی بھی روشنی جو ایم کون سیل کو متحرک کرتی ہے اسے اس کے پڑوسی ایل اور / یا ایس کونز کو بھی متحرک کرنا چاہیے کیونکہ اس کا فنکشن ان کے ساتھ مل جاتا ہے۔
تاہم اس تحقیق میں بی بی سی نے اخبار کے حوالے سے بتایا کہ لیزر نے صرف ایم کونز کو متحرک کیا جو اصولی طور پر دماغ کو رنگین سگنل بھیجے گا جو قدرتی بصارت میں کبھی نہیں ہوتا، اس کا مطلب ہے ’اولو‘ کو حقیقی دنیا میں کسی شخص کی ننگی آنکھوں سے مخصوص محرک کی مدد کے بغیر نہیں دیکھا جاسکتا۔
تجربے کے دوران دیکھے گئے رنگ کی تصدیق کرنے کے لیے ہرفرد نے کنٹرول ایبل کلر ڈائل کو ایڈجسٹ کیا اور ’اولو‘ کا مشاہدہ کیا۔