ماہ مبارک میں ایک بہترین کتاب کا انتخاب
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس کتاب کی تین خاصیتیں ہیں، جو باقی تمام کتب سے اسے ممتاز کرتی ہے۔ پہلی خاصیت یہ ہے کہ دین اسلام ایک اجتماعی مسلک و مکتب ہے۔ یعنی اسلامی معارف اور فکری نظام، محض ذہنی تصور نہیں بلکہ ایک اجتماعی عملی ذمہ داریوں کا مجموعہ ہے، جو انسان کی اجتماعی زندگی پر مبنی ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے کہ اسلام میں انسانی زندگی کیلئے کیا منصوبہ ہے۔؟ اس کا کیا مقصد ہونا چاہیئے اور اس مقصد تک پہنچنے کیلئے کیا طریقہ ہے۔؟ اس کتاب میں موصوف نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.
اچھی کتاب کا انتخاب بھی ایک ہنر ہے۔ یہی ہنر دسیوں انسانوں کو باہنر بنا دیتا ہے۔ اس ہنرمندی کے مرحلے تک پہنچنے کے لئے بھی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماہ مبارک رمضان اس ہنرمندی کے لئے ایک بہترین ماحول ہے۔ جس میں خداوند عالم نے انسان کی خود سازی، فکر سازی اور ذہن سازی کے لئے ایک بہترین اور لاریب کتاب بھیجی ہے۔ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے، جس کی تلاوت، تدبر اور اس کی عبارتوں کی طرف نگاہ کرنا بھی عبادت ہے اور خداوند متعال نے اسی مہینے میں ہی اس کتاب کو نازل کیا ہے۔ ہر انسان جس کا تعلق اسلام ہے، وہ ماہ مبارک رمضان میں اس کتاب شریف کی حتماً تلاوت کرتے ہیں۔ اس کی تفسیر اور اس کے ترجمے کا بھی مطالعہ کرتے ہیں اور کماحقہ کرنا بھی چاہیئے اور ساتھ اس پر تفکر، تعقل اور تدبر کرنا چاہیئے، کیونکہ تدبر و تفکر خود ستر سال کی عبادت سے افضل ہے۔
ہم میں سے اکثر عربی زبان سے نابلد ہیں۔ جس کی وجہ سے قرآن کریم کی تلاوت کے علاؤہ کماحقہ استفادہ نہیں کر پاتے ہیں۔ لہذا ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر کچھ کتابیں، کچھ تراجم، کچھ تفاسیر اور کچھ اخلاقی اور ایک خاص کتاب کی تجویز آپ قارئین کے خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ماہ مبارک رمضان میں جس کا بھی آپ مطالعہ کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں۔ اگر آپ میں سے کوئی قرآن کے ترجمے کا مطالعہ کرنا چاہے تو شیخ محسن علی نجفی، علامہ ذیشان حیدر جوادی اور ڈاکٹر اسرار احمد کے ترجمے کا مطالعہ کریں۔ اگر تفسیر کی طرف مراجعہ کرنا چاہیں تو تفسیر تسنیم، تفسیر نمونہ، شہید صدر کی لکھی ہوئی تفسیر سورہ حمد، روح اللہ خمینی کی لکھی گئی تفسیر سورہ حمد اور آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی تفسیر سورہ حمد و تفسیر سورہ برائت میں سے کسی ایک کا مطالعہ کریں۔
اگر باقی کتابوں کی طرف مراجعہ کرنا چاہیں تو سرفہرست نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ ہیں، جن کا ترجمہ مفتی جعفر حسین نے کیا ہے، ان کا مطالعہ کریں۔ اگر اخلاقی کتب کی طرف مراجعہ کرنا چاہیں تو چہل حدیث امام خمینی، معراج السعادہ ملا نراقی اور شہید مطہری کی کتاب انسان کامل کی طرف مراجعہ کریں۔ ان کتب کے بعد ہماری طرف سے ایک خاص کتاب کی تجویز ہے، جس کتاب کے لکھاری نے قرآن و حدیث، نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ سے استنباط کرکے ایک ایسے موضوع پر لب کشائی کی ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کے درمیان مہجور شدہ موضوع ہے۔ وہ موضوع کرہ ارض پر حاکمیت اسلام کا موضوع ہے۔ یہ کتاب انسانوں کے اندر ایک انقلاب پیدا کرتی ہے۔ ایک تحول ایجاد کرتی ہے۔
اس عصر میں اسلام ناب محمدی کے لئے ایک فکری بنیاد بن گئی ہے۔ جس کتاب پر حاشیہ لکھے جا رہے ہیں۔ دروس دیئے جا رہے ہیں۔ اس کتاب کا نام فارسی میں "طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن " ہے، جبکہ اردو میں "قرآن میں اسلامی طرزِ فکر کے بنیادی خدوخال" کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب دراصل ایک کلامی کتاب ہے۔ غیبت کبریٰ سے لیکر اب تک علمائے تشیع نے دین اسلام کو چند حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دور میں دین کو نقلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کی بہترین مثال شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی کتاب الاعتقاد ہے۔ دوسرے دور میں دین کو کلامی و عقلی انداز میں دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ جس کی بہترین مثال شیخ مفید علیہ الرحمہ کی کتاب تصحیح الاعتقاد ہے۔ تیسرے دور میں دین کو فلسفی انداز میں دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ جس کی بہترین مثال نصیرالدین طوسی کی کتاب تجرید الاعتقاد ہے۔
چوتھے دور میں دین کو اجتماعی نگاہ سے دیکھا اور بیان کیا گیا ہے۔ جس میں بالا بیان شدہ تمام جہات کو جمع کرکے صرف نظری نگاہ سے دیکھنے کے بجائے عملی طور پر معاشرے میں تطبیق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس کا آغاز سید جمال الدین افغانی، شیخ محمد عبدہ، علامہ اقبال سے لے کر علامہ طباطبائی و امام خمینی اور ان کے شاگرد خاص طور پر شہید مطہری، شہید بہشتی، علامہ تقی مصباح، علامہ جوادی آملی، علامہ تقی جعفری اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے حاکمیت دین کے نام سے بیان کیا ہے۔ حکومت اسلامی کے طور پر ایرانی معاشرے میں نافذ کی کوشش کی گئی ہے۔ اس نوع نگاہ کو رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اپنی کتاب "طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن" اردو میں "قرآن میں اسلامی طرز تفکر کے بنیادی خدوخال" میں بیان کیا گیا ہے۔
اس کتاب کی تین خاصیتیں ہیں، جو باقی تمام کتب سے اسے ممتاز کرتی ہے۔ پہلی خاصیت یہ ہے کہ دین اسلام ایک اجتماعی مسلک و مکتب ہے۔ یعنی اسلامی معارف اور فکری نظام، محض ذہنی تصور نہیں بلکہ ایک اجتماعی عملی ذمہ داریوں کا مجموعہ ہے، جو انسان کی اجتماعی زندگی پر مبنی ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے کہ اسلام میں انسانی زندگی کے لئے کیا منصوبہ ہے۔؟ اس کا کیا مقصد ہونا چاہیئے اور اس مقصد تک پہنچنے کے لیے کیا طریقہ ہے۔؟ اس کتاب میں موصوف نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ ثانیاً، دین اسلام ایک منظم اور مربوط اصولوں کا مجموعہ ہے۔ یعنی دین اسلام کی تمام تر فکری بنیادیں مربوط اور منظم انداز میں ایک وحدت کے طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
دین کے مجموعی نظام کا ایک جزو، اس مرکب کا ایک عنصر اور اس مضبوط عمارت کا ایک ستون ہے، جو دیگر اجزا و عناصر کے ساتھ ہم آہنگ اور باہم مربوط ہے۔ اس طریقے سے، ان اصولوں کے مجموعے سے دین کا ایک جامع اور ہمہ گیر نقشہ اخذ کیا جاسکے گا، جو ایک مکمل آئیڈیالوجی یا تصورِ حیات پر مشتمل ہے اور ایک ہمہ جہتی انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے ہم آہنگ ہے۔ تیسرا یہ کہ موصوف نے اسلامی اصولوں کے استنباط اور فہم دین میں دین کے بنیادی مصادر اور اساسی متون بالخصوص قرآن مجید کو اصل اور ماخذ قرار دیا ہے۔ اجتہادی اور تفسیری روش کے عین مطابق قرآنی مفاہیم کو جدید انداز میں پیش کیا ہے۔
اس میں نہ ذاتی رجحانات ہیں، نہ ہی انفرادی آراء ہیں، نہ دوسروں کے فکری ذخیرے سے استفادہ کیا ہے بلکہ دین کے مفاہیم اور مقاصد کے حصول کے لئے قرآن سب سے کامل اور مستند دستاویز ہے کہ جس میں کسی بھی سمت سے باطل داخل نہیں ہوسکتا اور جس میں ہر چیز کے لیے روشنی موجود ہے، بشرطیکہ ہم اس میں گہرے تدبر سے کام لیں، جیسا کہ خود قرآن نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔" آیئے اس کتاب سے استفادہ کرتے ہیں۔ موصوف نے قرآنی لہجے میں اسلام ناب محمدی کو بیان کیا ہے اور انسانوں کے اندر ایک تحول، طوفان اور انقلاب بپا کرکے اسلامی انقلاب کے لئے بنیاد فراہم کی ہے۔ چلیں اس جہت سے بھی ایک دفعہ دیکھتے ہیں۔ اس کتاب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لئے درج ذیل ایمیل پر رابطہ کریں۔
arifbaltistani125@gmail.com
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیا گیا ہے دور میں دین کو کی طرف مراجعہ ایک اجتماعی تفسیر سورہ کرنا چاہیں دین اسلام کا مطالعہ میں اسلام ماہ مبارک انسان کی موصوف نے کی کتاب اس کتاب نگاہ سے کتاب کی کرتی ہے کے لئے کیا ہے کا ایک دین کے اور اس
پڑھیں:
اسلام آباد میں ریڈزون کو کنٹینرز لگا کر سیل کر دیا گیا، حکومت کا جماعت اسلامی سے رابطہ
اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے ممکنہ غزہ مارچ کے پیشِ نظر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ریڈ زون اور ایکسٹینڈڈ ریڈ زون کے تمام داخلی و خارجی راستے کنٹینرز اور خاردار تاروں سے سیل کر دیے گئے ہیں۔
جماعت اسلامی نے اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں وحشیانہ بربریت اور قتل عام کے خلاف 20 اپریل کو اسلام آباد میں غزہ مارچ کا اعلان کیا تھا۔
منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا تھا کہ غزہ سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی مظالم کے خلاف 26 اپریل کو تاریخی ہڑتال ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ سیاست کا نہیں بلکہ غزہ والوں سے اظہار یکجہتی کا ہے اس لیے پوری قوم یکجا ہو کر ہڑتال کرے گی۔
جس کے بعد غزہ مارچ کے پیش نظر آج اسلام آباد میں ریڈ زون سیل کیا گیا ہے اور پولیس ذرائع کے مطابق شہر بھر میں چیکنگ سخت کر دی گئی ہے، مختلف حساس مقامات پر پولیس اور رینجرز کے گشت میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اضافی سیکیورٹی نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق، اسلام آباد میں کسی بھی غیرقانونی اجتماع یا احتجاج پر پابندی عائد ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ شہریوں کے امن کو متاثر کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
پولیس حکام نے واضح کیا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف ”پیس فل اسمبلی“ اور ”پبلک آرڈر ایکٹ“ کے تحت کارروائی کی جائے گی تاکہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھی جا سکے۔
فلسطین مارچ پر حکومتی رابطے، لیاقت بلوچ کا مؤقف دوٹوک
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے جماعت اسلامی کے سینئر رہنما لیاقت بلوچ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ گفتگو کا محور آج اسلام آباد میں ہونے والا ”یکجہتی فلسطین مارچ“ تھا، جس پر حکومتی موقف اور تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
جس کے بعد اپنے بیان میں لیاقت بلوچ نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کوئی حق نہیں کہ وہ فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے پرامن مارچ کو روکے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا مارچ مکمل طور پر پرامن ہوگا اور اس کا مقصد صرف مظلوم فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ رکاوٹیں کھڑی کر کے ریاست خود کو دنیا بھر میں بدنامی کا باعث بنائے گی۔ لیاقت بلوچ نے مطالبہ کیا کہ آج اسلام آباد میں ریلی روکنے سے اجتناب کیا جائے اور فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کسی علاقے کو ”نو گو ایریا“ نہ بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کویت کا اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان پوری امتِ مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی ہے، اور مسلم دنیا کو اسی طرح واضح اور جرات مندانہ مؤقف اپنانے کی ضرورت ہے۔
Post Views: 2