Express News:
2025-04-22@18:56:36 GMT

تعلیم اور سماجی تعلقات

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

عمومی طور پر تعلیم معاشروں کی تشکیل کرتی ہے۔اس تشکیل میں ایک بنیادی نقطہ سماجی تعلقات کا بھی ہے۔سماجی تعلقات سے مراد کہ تعلیم کا نظام یا تربیت ہم پر اس طرح سے اثر انداز ہو کہ ہم اس تعلیم کو بنیاد بنا کر معاشرے میں رہنے والے مختلف فریقین کے ساتھ اپنے سماجی سطح کے تعلقات کو بھی مضبوط بناسکیں۔

ان سماجی تعلقات میں خاندان اور خاندان سے باہر کے افراد سب شامل ہوتے ہیں۔یعنی ہم اپنے نجی حوالے سے جہاں جہاں حرکت میں آتے ہیں وہیں ہمارے سماجی تعلقات کی نوعیت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

ہم تعلیم کو بنیاد بنا کر سماجی سطح پر انصاف،رواداری اور برابری کی بات کرتے ہیں۔اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہمارے سماجی تعلقات کی نوعیت سماجی انصاف ہی کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے۔یعنی ہم سماجی رشتوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکیںاوران کو برابری کے اصول پر پرکھا جائے تاکہ تفریق و تعصب کو پہلو نمایاں نہ ہو۔

لیکن ہماری تعلیم سماجی تعلقات میں سب کو یکجا کرنے کے بجائے تقسیم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔مذہبی بنیادوں پر، فرقہ وارانہ بنیادوں پر، لسانی بنیادوں پر، علاقائی بنیادوں پر زبان کی بنیاد پر، اور سیاسی بنیادوں پر لوگ تقسیم ہو رہے ہیں۔تقسیم کا یہ عمل برا نہیں یقینی طور پر لوگ اپنی اپنی سوچ اور فکر رکھتے ہیں۔

لیکن اگر تقسیم کا یہ عمل لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں تعصب اور نفرت کو پیدا کر رہا ہے یا ان میں دوری یا ان کے سماجی تعلقات کو متاثر کررہا ہے تو یہ عمل معاشرے میں ایک ہیجانی کیفیت کو پیدا کرتا ہے۔

گھریا خاندان کے نظام کوہی لے لیں تو یہ بھی بہت زیادہ سماجی تعلقات میں بگاڑ کا سبب پیدا کر رہا ہے۔گھر اور خاندان کا نظام نہ صرف اکٹھے مل کر چلنے کے لیے تیارنہیں بلکہ وہ مل کر ساتھ رہنے کے لیے بھی تیار نہیں۔یعنی ہمارا تعلیمی نظام یا تعلیمی نصاب نئی نسل کو یہ سمجھانے کے لیے ہی تیار نہیں ہے کہ انھیں مختلف رشتوں کی سطح پر اپنے سماجی تعلقات کو کیسے استوار کرنا ہے اور کیسے ان کوآگے بڑھانا ہے۔

ان رشتوں میں سماجی رابطے کیسے مضبوط بنانے ہیں اور کیسے ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔یہ جو سماج میں ایک دوسرے کے بارے میں لاتعلقی کا احساس پیدا ہو رہا ہے یا ہم ایک دوسرے سے فاصلے بڑھاتے جا رہے ہیں۔اسی طرح اس کی کیا وجوہات ہیں اور کیوں ہم اس کا علاج موجودہ تعلیمی نظام میں اصلاح کے حوالے سے تلاش نہیں کرسکے۔یہ جو سماج میں میاں بیوی کے رشتوں میں ابتدا ہی سے بگاڑ پیدا ہورہا ہے یا ان میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اس کی تعلیم و تربیت کا عمل کہاں کھوگیا ہے اوریا بچوں اور بچیوں کی شادی کے بارے میں آگاہی کے فقدان کا ذمے دار کون ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام آج بھی بہت زیادہ پرانے خیالات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔دنیا بھر میں جو نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور سماج میں جس انداز سے نئی تشکیل ہو رہی ہے اس کا ادراک ہمارے تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب میں نظر نہیں آتا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ تعلیم اور نصاب کا نظام اور سماج ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں بلکہ مختلف نظر آتے ہیں۔سماجی تعلقات کا عمل اسی صورت میں ہی مضبوط ہوتا ہے جب ہم ایک دوسرے کی قبولیت کو یقینی بناتے ہیں۔یہ جو معاشرے میں ایک طبقاتی سوچ اور فکر کا غلبہ ہے یعنی ایک بڑا طبقہ خود کو بڑا اور اور دوسروں کو کمتر یا چھوٹا طبقہ سمجھتا ہے اس نے معاشرے کے اندر برابری کے پہلو کو نقصان پہنچایا ہے۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم سب برابر ہیں لیکن عملی طور پر جب ہم خود اس کی نفی کرتے ہیں تو اس عمل سے معاشرے میں تقسیم کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔یہ عمل محض معاشرے میں چند افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست اور حکمرانی کے نظام میں بھی اس کی بدترین شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو یہاں لسانی سیاست اور فرقہ وارانہ سیاست سمیت مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی کے پہلو نمایاں طور پر مضبوط ہیں۔اسی طرح سے مذہبی اقلیتوں سمیت عورتوں کے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں ہے۔

ریاست اور حکمرانی کے نظام کو جس طرح سے معاشرے کے کمزور طبقات پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے تھی اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔بلکہ کئی مواقعوں پر یہ احساس غالب ہوتا ہے کہ یہ مسائل ریاست کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہے۔

آپ کسی بھی نجی محفل میں چلے جائیں چاہے وہ خیر رسمی ہو یا رسمی علمی ہو یا فکری ہمارے ہاں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت زیادہ متعصب یا منفی رویے رکھتے ہیں۔ایک بات سمجھنی ہوگی اگر لوگوں کو معاشرے میں سیاسی سماجی اور معاشرتی انصاف نہیں ملے گا تو اس سے ان میں رد عمل کی سیاست پیدا ہوگی۔رد عمل کی یہ سیاست ان میں انتہا پسندانہ رجحانات کو جنم دیتی ہے۔

ہمارے ہاں عمومی طور پر بہت سی مسائل کا ذمے دار نئی نسل کو قرار دیا جاتا ہے۔لیکن یہ سب بھول جاتے ہیں کہ جب تک آپ نئی نسل کے لوگوں کو معاشرے کے قومی دھارے میں شریک نہیں کریں گے تو ان نوجوانوں کو ریاست کے نظام کے ساتھ جوڑنا ممکن نہیں ہوگا۔

جب ڈھائی سے تین کروڑ بچہ اسکول جانے سے محروم ہو تو وہاں سماجی انصاف کی باتیں مذاق لگتی ہیں۔بنیادی طور پر تعلیم اور سماجی تعلقات کا گہرا تعلق ہے اور اس تعلق کو مضبوط بناکر ہم ایک ذمے دارانہ اور مہذہب معاشرے کی تشکیل نو کرسکتے ہیں۔لیکن یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اجتماعی طورپر اپنے تعلیمی اور معاشرتی نظام کی اصلاح کریں ۔یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا بلکہ جو بھی زمہ دار ہیں ان کام بھی کرنا ہوگا اور جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سماجی تعلقات تعلیمی نظام کے بارے میں بنیادوں پر بہت زیادہ ایک دوسرے اور سماج نہیں ہے پیدا ہو کے نظام کے ساتھ میں ایک یہ عمل

پڑھیں:

وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت

شیعہ علما کونسل گلگت کے جنرل سیکرٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا کہ کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل ضلع گلگت کے جنرل سکریٹری شیخ علی محمد عابدی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مورخہ 19 اپریل 2025ء کو جاری ہونے والی مشیر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان مولانا محمد دین کی پریس ریلیز محض ایک بیان نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے کی شناخت پرامن بقائے باہمی، مذہبی رواداری اور اجتماعی شعور ہے۔ ایسے میں کسی حکومتی نمائندے کی جانب سے تند و تیز، ذاتی نوعیت اور غیر شائستہ انداز میں گفتگو نہ صرف قابلِ افسوس ہے بلکہ اس سے خطے کی حساس فضاء کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ہمارا سوال ہے کہ کیا مشیر موصوف کی یہ پریس ریلیز آپ کی منظوری سے جاری کی گئی؟ اگر ہاں، تو یہ طرز حکمرانی پر سوالیہ نشان ہے کہ ایک حکومت اپنے عوام سے اس انداز میں مخاطب ہو رہی ہے جو نفرت، تقسیم اور اشتعال کو ہوا دے رہا ہے۔ اور اگر یہ بیان آپ کی اجازت یا علم کے بغیر جاری کیا گیا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ اور نالائق مشیروں کو فوراً برطرف کریں تاکہ حکومت کی نیک نامی، شفافیت اور سنجیدگی پر عوام کا اعتماد قائم رہ سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ مشیر موصوف نے خطیب جامع مسجد امامیہ گلگت جناب آغا سید راحت حسین الحسینی جیسے محترم، سنجیدہ اور باوقار عالم دین کے خلاف جو زبان استعمال کی، وہ گلگت بلتستان کے مہذب سیاسی و سماجی کلچر سے متصادم ہے۔ ان کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اختلاف رائے کو ذاتی حملے سمجھتے ہیں اور سنجیدہ تنقید کا جواب اخلاقیات کے دائرے سے باہر نکل کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور سوال اٹھانا ہر باشعور شہری، خصوصاً اہل علم کا آئینی، اخلاقی اور سماجی حق ہے۔ اگر حکومت کی پالیسیاں واقعی عوامی مفاد پر مبنی ہیں تو دلیل و حکمت سے عوام کو مطمئن کیا جائے، نہ کہ ان پر الزام تراشی کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی جائے۔ مشیر موصوف کا یہ کہنا کہ "دین کو سیاست سے الگ رکھا جائے" نہ صرف فکری گمراہی کی نشانی ہے بلکہ اس قوم کے نظریاتی اساس سے انحراف بھی ہے۔ پاکستان کا قیام ہی کلمہ طیبہ ”لا الہ الا اللہ“ کے نام پر ہوا تھا، اور اس ملک کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب دین اور سیاست کو ہم آہنگی سے مربوط کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • اداکارہ امر خان کو ڈانس کی ویڈیو شیئر کرنا مہنگا پڑ گیا
  • چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے  کے تصور پر عمل کیا ہے، وزارت خارجہ
  • نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون
  • عالمی چلینجز اور سماجی تقسیم کو ختم کرنے کیلیے علامہ اقبال کی تعلیمات مشعل راہ ہیں، وزیراعظم
  • وزیر اعلیٰ کے مشیر کا بیان خطے کے سیاسی و سماجی ماحول پر ایک سنگین سوال ہے، شیعہ علماء کونسل گلگت
  • کوئٹہ میں افغان مہاجرین کی تذلیل کی جا رہی ہے، سماجی و سیاسی رہنماء
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟