’’ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
جب کھلاڑیوں کو یہ باورکرا دیا جائے کہ ’’ تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ تو چیمپئنز ٹرافی میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کو برا کہنے والے لاکھوں تماشائی اور کروڑوں پاکستانی کون ہوتے ہیں؟
یقینا پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی سکت کے مطابق 241 رنزکا اسکور کھڑا کر دیا تھا، اب اگر بھارتی کھلاڑی اسے خاطر میں نہیں لائے اور انھوں نے جارحانہ کھیل پیش کرتے ہوئے تیزی سے رنز بنائے اور پھر ان کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی نے جو پچھلی چیمپئنز ٹرافی میں فلاپ ہوگیا تھا اب موقع غنیمت جان کر ایک سنچری بنا ڈالی تو اب بھارتی کھلاڑیوں سے کیا گلہ کیا جائے؟ جب انھیں اپنی مرضی کے مطابق نرم ٹیم ملی تو وہ کیوں فائدہ نہ اٹھاتے۔ انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ بھی ایسا کہ پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی سے باہر نکلنے کی بنیاد رکھ دی۔
ہمارے وزیر اعظم نے انھیں نصیحت کی تھی کہ ’’ دیکھو بھارتی ٹیم کو پچھاڑ کر ہی واپس آنا‘‘ مگر کھلاڑیوں نے ان کے فرمان کے برعکس ہی کیا لیکن شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ جب کرکٹ کے کرتا دھرتا یعنی منتظم اعلیٰ جن سے کھلاڑیوں کا براہ راست واسطہ تھا وزیر اعظم کی نصیحت سے ہٹ کر یہ مشورہ دیں کہ ’’ تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ تو وہ کیونکر ان کا کہنا ٹالتے۔
پھر دوسری طرف بھارت کو ہرا کر کیوں بھارتیوں کا دل توڑتے اور اگر بھارتی ٹیم ہار جاتی تو اس کی تو شامت ہی آ جاتی کیوں کہ بھارتی کھیلوں کے وزیر سے لے کر کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیدار نے بھی انھیں بتا دیا تھا کہ پاکستان سے ہارنا سخت منع ہے، چنانچہ انھوں نے اپنے منتظمین کے کہنے پر عمل کیا، ورنہ بھارت پہنچ کر ان کی وہ رسوائی اور کھنچائی ہوتی کہ اور کہا جاتا کہ تم سب سے ہارتے مگر پاکستان سے کیوں ہارے؟ جب کہ دوسری طرف پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔
اس میں شک نہیں کہ کرکٹ کا کھیل گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے ،کبھی کسی ٹیم کی طرف پلڑا جھک جاتا ہے تو کبھی دوسری کی طرف۔ ہمارے کھلاڑی اتنے سیدھے سادھے نکلے کہ وہ کرکٹ کے پیچ و خم سے ہی واقف نہ نکلے کہ کس وقت کیسی بیٹنگ کرنا ہے اور کیسی بالنگ کرنا ہے۔
تاہم یہ بات تمام کھلاڑیوں پر صادق نہیں آتی ہے، البتہ بالکل نووارد اور سفارشیوں پر ضرور لاگو ہوتی ہے۔ وہ بھی تو کھلاڑی تھے جنھوں نے گزشتہ چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے اور شکست سے دوچار کردیا تھا۔
افسوس کہ 2025 کی چیمپئنز ٹرافی میں ان میں سے صرف دو کھلاڑی یعنی بابر اعظم اور شاہین شاہ کے علاوہ تمام کھلاڑی نئے تھے حتیٰ کہ کپتان محمد رضوان بھی نووارد ہیں۔ نئے کھلاڑیوں نے ابھی تک کرکٹ کے کسی اہم ایونٹ یعنی ورلڈ کپ، ٹی 20 یا چیمپئنز ٹرافی میں حصہ نہیں لیا ہے۔
جب چیمپئنز ٹرافی کے پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ سے شکست کھا گئی تھی تو بی بی سی کے ایک مبصر نے کہا تھا اسٹیڈیمز بنانے کے جنون میں اسٹیڈیمز تو جیسے تیسے بن گئے مگر اس تگ و دو میں منتظمین ٹیم کا بنانا بھول گئے جس کا نتیجہ آج آگیا۔
پاکستان اس بار چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہوگیا ہے مگر ہمیشہ ہی ایسی صورت حال نہیں رہے گی بشرطیکہ ٹیم پر بھرپور توجہ مرکوزکی جائے۔ بہرحال اس وقت تو مایوس کن صورت حال ہے اور پوری قوم مایوسی کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے مگر اسے آگے ضرور خوشیاں دیکھنا نصیب ہوں گی۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کھلاڑیوں کا سلیکشن درست نہیں ہوا؟ تو کہا جا رہا ہے کہ سلیکٹرز کی جانب سے سراسر غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ حال ہی میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا ان کی جگہ نئے کھلاڑیوں کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔
خوش دل کسی طرح بھی صائم ایوب کا متبادل نہیں تھا ۔ اس نے ہی شبھمن گل کا کیچ ڈراپ کرکے ٹیم کے ہارنے کی بنیاد رکھ دی تھی، پھر سعود شکیل نے بھی شریاس آیئرکا کیچ چھوڑ کر ٹیم کو مزید مایوس کیا۔ اگر یہ دونوں کیچ پکڑ لیے جاتے تو شاید میچ کا رخ تبدیل ہو سکتا تھا اور اگر پاکستان نہ بھی فاتح ہوتا تو کم سے کم بھارت آسانی سے میچ نہ جیت پاتا مگر اسے کیا کہا جائے کہ نہ تو پاکستان کی بالنگ ہی چل سکی اور نہ ہی بیٹنگ کوئی کارنامہ انجام دے سکی۔
پاکستان کے سب سے قابل اعتماد بالر شاہین آفریدی نے بہت ہی مایوس کن بالنگ کی، انھوں نے 74 رن دے کر دو کھلاڑی آؤٹ کیے۔ بلے بازوں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ میچ کی کل 300 بالز میں سے انھوں نے صرف 147 کو کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ بلے بازوں کے بارے میں کئی مبصر کہہ رہے ہیں کہ وہ ایسے ڈر ڈر کرکھیل رہے تھے جیسے پچ میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں، حتیٰ کہ بابر اعظم جیسا منجھا ہوا کھلاڑی اتنی احتیاط سے کھیل رہا تھا کہ رن بنیں نہ بنیں کہیں وہ آؤٹ نہ ہو جائے ورنہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ تنقید کا نشانہ نہ بن جائے گا۔
اسے اوپنر بھیج کر بھی اچھا نہیں کیا گیا۔ ٹیم کی کارکردگی پر تو پہلے ہی سوال اٹھائے جا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ٹیم کا جیتنا مشکل ہے۔ گزشتہ چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم کے کپتان سرفراز جیسے کتنے ہی کھلاڑی ابھی کرکٹ کھیل سکتے ہیں مگر جلد ہی فارغ کر دیا گیا ۔
ٹیم کے سلیکشن میں تو غلطی کی ہی گئی ادھر کوچنگ بھی اطمینان بخش نہیں رہی۔ کھلاڑیوں میں مستقل مزاجی اور پروفیشنل ازم کا فقدان تھا۔ امریکا کے ساتھ میچ ہارنے کے بعد ہی انتظامیہ کو ٹیم کی خراب کارکردگی پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت تھی۔
بھارتی عوام سے کہیں زیادہ بھارتی حکومت پاکستان کے ہارنے سے بہت خوش ہے۔ پہلے تو اس نے سر توڑ کوشش کی تھی کہ پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی منعقد ہی نہ ہونے پائے۔ اس میں تو اسے ضرور شکست ہوئی مگر اب پاکستانی ٹیم کے میچ سے ہی باہر ہونے پر انھیں بہت سکون ملا ہوگا تاہم وہ ابھی بھی چین سے نہیں بیٹھے ہیں وہ پاکستان میں ہونے والے باقی میچوں کو بھی دبئی منتقل کرانے کی سازش کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں بھارتی چینلز پر زور و شور سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ ہے اور کسی بھی وقت دہشت گرد کھلاڑیوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اب بتائیے کہ بھارت کی انتہا پسند حکومت پاکستان دشمنی میں کتنی آگے نکل چکی ہے اور ہم اس سے تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے بھارت کو بھی اس نظریے سے دیکھا جا رہا ہے کہ تم دوستی کرو یا دشمنی، ہمیں تم سے پیار ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حکمران امریکا اور اسرائیل سے خائف، ہمیں متحد ہونا پڑے گا، حافظ نعیم الرحمٰن
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ حکمران امریکا اور اسرائیل سے خوف کھاتے ہیں، مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے، اسرائیلی وحشت روکنے کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔
اسلام آباد میں غزہ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی خدمت کرکے عزت حاصل کرسکتے ہیں تو یاد رکھیں امریکا کسی کا بھی نہیں ہے، وہ صرف دہشت گردوں کو سپورٹ کرتا ہے اور ہم سب اس کا نشانہ ہیں۔
انہوں نےکہا کہ امریکا مسلمانوں اور انسانوں کا قاتل ہے، امریکا کے نوجوان خود اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات فلسطین کی حمایت میں احتجاج کررہے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے، یہ عربوں اور فلسطینیوں کی سرزمین ہے جس پر یہودی جبراً مسلط کردیے گئے ہیں، مغربی کنارے میں بھی انہوں نے ایک لاکھ لوگ بے گھر کیے گئے ہیں، قبضے کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں ہمیں روکنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں متحد ہونا پڑے گا، عالم اسلام کو بھی جگانا پڑے گا، اور باضمیر ممالک جو اس وقت اسرائیل کے خلاف ہیں انہیں اکٹھا کرنا پڑے گا، کوئی اور یہ کام کرے نہ کرے، پاکستان کو یہ کام کرنا ہوگا، لوگ پاکستان کی طرف بہت امید سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے اسرائیل کو مغرب اور استعمال کی ناجائز اولاد قرار دیا تھا، اور اعلان کردیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔
حافط نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمران امریکا سے خوف کھاتے ہیں، اسرائیل سے ڈرتے ہیں، اس لیے انہوں نے اسلام آباد بند کیا ہے، مگر ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ہیں، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے، اسرائیلی وحشت روکنے کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا، یہ سیاسی نعرے بازی نہیں ہمارے ایمان کا معاملہ ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے حکمرانوں ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ظالم حکمرانوں نے تباہی پھیر دی ہے اور ملک بھر میں مسائل اس وجہ سے مظلوموں کی طاقت تقسیم کردی گئی ہے، ہمیں بلوچ، پنجابی، سندھی، پختونوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں متحد ہوکر ان ظالموں اور جابروں اور امریکا کے غلاموں کو تقسیم کرنا ہوگا، پھر کسی کا حق نہیں مارا جائے گا، میں ملک بھر کے عوام سے کہتا ہوں کہ متحد ہوجاؤ اور ان ظالموں سے اپنا حق حاصل کرو۔
خطاب کے آخر میں حافظ نعیم الرحمٰن نے عوام سے 26 اپریل کی ہڑتال کو کامیاب بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ 27 اپریل کو اگلے لائحہ کا اعلان کیا جائے گا۔