Express News:
2025-04-22@06:01:48 GMT

ہندوستان کا ابھرتا شاعر، نور الحسن نورؔ

اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT

پاکستان اورہندوستان دنیا میں دو ایسے بڑے ملک ہیں جن میں نہ صرف اُردو زبان کا چلن عام ہے بلکہ اِن دونوں ممالک میں اُردو ادبِ عالیہ بھی مسلسل و تواتر سے تخلیق پارہا ہے۔ بلامبالغہ ایسی شخصیات میں ایک نام ہندوستان فتح پورہسوہ سے تعلق رکھنے والے شاعر(جو آج کل ممبئی، مہاراشٹر، ہندوستان میں رہائش پذیر ہیں)، سید نور الحسن نورؔ کا بھی ہوگا جن کی حمد و نعت نگاری اور غزل گوئی کا ایک عالم ابھی سے گرویدہ ہے اور روز بہ روز اُن کے اچھے کلام کے سبب اُن کی شہرت میں اضافہ ہورہا ہے اور اُن کے قارئین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اِس کا ایک سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ اُن کے مجموعہ ہائے حمد و نعت اور غزل تسلسل و تواتر سے شایع ہو رہے ہیں اور وہ اُردو ادب سے تعلق رکھنے والے قارئین، شائقین، ناقدین اور مشاہیر کے ہاتھوں میں پہنچ رہے ہیں اور توجہ سے پڑھے جارہے ہیں، جس سے نور الحسن نورؔ کے کلام کی خوبیاں اُجاگر ہو رہی ہیں اور اُن کی شاعری کے اوصاف سامنے آرہے ہیں، جن کے باعث شاعرِ موصوف کا نام بحیثیت عبقری شاعر اُبھر رہا ہے اور اُردو ادب میں اُن کا مقام بن رہا ہے۔

نور الحسن نور کے اب تک مندرجہ ذیل شعری مجموعے عمدہ طباعت سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آچکے ہیں: شاخِ نوا (غزل)، برگِ سحر (غزل)، ساحلِ توجہ پر (غزل)، تحرک (غزل)، تفرید (غزل)، لمحوں کا سفر (غزل)، سبز حروف (غزل)، دستِ منظر (غزل)، روزن  (غزل)، سورج نکلا ہے (ہائیکو)، سخن زارِ غزلیات (غزل)، رباعیاتِ نور (رباعی)، میزابِ سخن (انتخابِ غزل)

نور الحسن نورؔ کی شاعری تخلیقی جوہر سے مزین ہے۔ وہ ایک بڑے شاعر کے روپ میں اُبھر رہے ہیں، جو شعری اُصولوں اور روایتوں کے امین بھی ہیں اور دینی و دنیاوی علوم سے آشنا بھی۔ وہ شعر وسخن کا مکمل ادراک رکھنے والے مفکر بھی ہیں اور عالمی ادب سے باخبر بھی ہیں۔

وہ اُردو کے سیکولر مزاج کے حامل بھی ہیں اور اُس کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کی نمایاں علامات کے علمبردار بھی۔ آسمانِ ادب کے اِس روشن ستارے پر ہندوستان میں بھی لکھا گیا ہے جس کا ثبوت ہمیں اُن کے شعری مجموعوں پر لکھے گئے پیش لفظ اور دیباچوں سے ملتا ہے۔

معروف شاعر و ادیب، شاعر علی شاعرؔ نے اُن کی غزلیہ شاعری پر ’’سکہ رائج الوقت شاعری ‘‘ کے عنوان سے ایک تنقیدی کتاب لکھی ہے جس میں اُن کے پانچ شعری مجموعے ’’شاخِ نوا، برگِ سحر، ساحلِ توجہ پر، تحرک اور ’’تفرید‘‘ پر تنقید شامل ہے۔

اِس کتاب کے مطالعے ہی سے میںنے نور الحسن نور کی شعری خوبیوںکو جانا ہے اور اب اُن کے عنقریب شایع ہونے والے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ کا مسودہ ملا تو اُن کے کلام سے مزید متاثر ہوا اور لکھنے کی طرف طبیعت مائل ہوئی۔

نور الحسن نورؔ کے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ میں شامل غزلیات پڑھنے کے بعد میں یہ بات پورے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ غزل ونعت کی آیندہ مسافت و پرداخت اور سمت و اُفتاد کے تعین میں نور الحسن نورؔ کا بڑا حصہ ہوگا اور اُن کے سرمایۂ سخن اُردو ادبِ عالیہ قرار پائے گا جو اُن کے ملک ہندوستان کے لیے خصوصاً اور تمام اُردو کی نئی بستیوں کے لیے عموماً باعثِ فخر ہوگا۔ نور الحسن نورؔ کے تازہ شعری مجموعے ’’روزن‘‘ سے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

اسرار کھل رہے ہیں دیارِ جمال کے

روزن کھلا ہُوا ہے حریمِ خیال کا

…٭…

تاجر اُسی کو روشنیوں کا کہا گیا

جس نے کوئی چراغ جلایا نہیں کبھی

…٭…

رواں ہوں گے تو رُکنے کے نہیں ہیں

چھپے ہیں آبشار اِس چشمِ نم میں

…٭…

فرشتے ششدر و حیراں ہیں دیکھ کر عظمت

ملی ہیں خاک کے پتلے کو شہرتیں کیا کیا

…٭…

آج ساقی کے لیے ہے بڑی مشکل درپیش

جس کو دیکھو وہی کہتا ہے اِدھر سے پہلے

نور الحسن نورؔ کی شاعری میں خارجی اور داخلی دونوں رویے نظر آتے ہیں۔ داخلی طور پر وہ تحلیلِ نفسی کے اثر میں ہیں اور خارجی طور پر وہ سماجی اور معاشی نظریات کو قبول کرتے ہیں اور شعرکو زندگی کی تنقید خیال کرتے ہیں جس کی روشنی میں وہ زندگی اور اُس کے نشیب و فراز کو اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری میں انسانیت کی جو تصویر پیش کرتے ہیں اُس میں رنج و الم اور درد و کرب ایک مسلسل غم زدگی کی کیفیت میں ہے جو قارئین کو متاثرکیے بغیر نہیں رہنے دیتی۔ اُن کے یہاں ایسے تجربات کثرت سے پائے جاتے ہیں جن میں تینوں زمانے ماضی، حال اور مستقبل کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔

اُن کی شاعری میں روایتی تصورات کے پیکر میں جدید اندازِ خیال کے پیکر نظر آتے ہیں اور اجتماعی لاشعور کی تصویریں بھی ملتی ہیں۔ اُن کو ہونے والے تجربات کو اُن کی شاعری سے جانا جاسکتا ہے اور اُن کے عمیق مشاہدات کو بھی اُن کے کلام سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اُن کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور وارداتوں کا سایہ بھی اُن کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ نور الحسن نورؔ کی غزل گوئی کی انفرادیت نے اُن کو اُن کے ہم عصر شعرائے اُردو میں معتبر کر رکھا ہے اور اُنہوں نے اُن شعراء کی موجودگی میں اپنی آوازبھی اونچی، الگ اور بلند آہنگ رکھی ہے۔

اُن کے تابناک اُسلوب نے اُنہیں اُردو شاعری میں یہ رتبہ اور اُردو سخن دانوںمیں اعتبار بخشا ہے۔ اِن تمام باتوں کا ثبوت ناقدین او رمشاہیرِ اُردو ادب کو اُن کے تازہ شعری مجموعہ ’’روزن‘‘ میں مل جائے گا۔ ’’روزن‘‘ سے چند اشعار مزید پیشِ خدمت ہیں تاکہ قارئین اُن کی شاعری سے بھی حظ اُٹھاتے رہیں:

ہم ترے عشق کو دے دیں گے کوئی شکل نئی

تیرے جذبات کی تحقیر نہ ہونے دیں گے

…٭…

معلوم ہے مجھے نہ یقیں آئے گا اُسے

رکھ دوں اگر میں قدموں پہ سر بھی اُتار کے

…٭…

حق کے اعلان میں یہ جان جو جاتی ہے تو جائے

کیوں کہ چپ رہنے سے ظالم کی مدد ہوتی ہے

…٭…

ایسے رکھوالوں سے گلشن کو بچا کر رکھنا

جن سے شاخوں پہ گلِ تر نہیں دیکھے جاتے

…٭…

میں نے لفظوں کی نزاکت کو پڑھا ہے برسوں

اہلِ فن اِس لیے فنکار سمجھتے ہیں مجھے

 اُن کی شاعری میں عاشق انتہائی خود دار اور معشوق دل نواز ہے۔ اُن کی شاعری میں معاملاتِ حسن و عشق زمانۂ قدیم والے نہیں بلکہ اُنہوں نے معاملاتِ حسن و عشق کو بھی فی زمانہ دستورِ عشق اور نازِ حسن سے ہم آہنگ کیا ہے۔

شاعر علی شاعرؔ کی تنقیدی کتاب ’’ سکہ رائج الوقت شاعری‘‘ (جو نور الحسن نورؔ کی غزلیہ شاعری کا احاطہ کرتی ہے) سے پاکستان کے تمام شعرائے اُردو اُن سے اور اُن کی شاعری سے اچھی طرح واقف ہوگئے ہیں، مگر اُن کی شاعری کی کتابیں پاکستان میں دستیاب نہیں ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ شاعرِ موصوف اِس طرف بھی توجہ دیں اور اگر علیحدہ علیحدہ مجموعوں کے پاکستانی ایڈیشن شایع نہ کراسکیں تو تین تین مجموعوں کو ایک ایک جلد میں شامل کرکے کلیاتِ اوّل، دوم اور سوم شایع کرا کے منصہ شہود پر لاسکتے ہیں جن سے اُن کا تمام غزلیہ کلام یکجا بھی ہوتا رہے گا اور پاکستان میں عام قارئین کی دسترس میں آتا بھی رہے گا۔

نور الحسن نورؔ کی نظر نہ صرف اپنے ماحول، معاشرے، ملکی حالات پر ہیں بلکہ وہ بہ نظرِ غائر عالمی ادب کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ خصوصی طور پر جو دنیا کی نئی بستیوں میں اُردو غزل اور حمد و نعت لکھی جا رہی ہے، وہ تمام اُن کے مطالعے میں ہے۔

وہ اکیسویں صدی کے ابتدائی چوبیس برسوں میں برپا ہونے والے مختلف سیاسی، سماجی، اقتصادی، عمرانی، تعلیمی، معاشی اور ادبی انقلابات کے چشم دید گواہ بھی ہیں اور اُس کے شاہد بھی۔ میں اگر یہ لکھوں تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ شاعری کی صورت میں اپنے دورکی تاریخ لکھ رہے ہیں اور اپنے عصر کے حالات و واقعات مرتب کر رہے ہیں۔ وہ آنے والی نسل کو اپنے زمانے کی تاریخ بھی دے جائیں گے اور اُردو ادب کا وقیع سرمایہ بھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ا ن کی شاعری میں نور الحسن نور بھی ہیں اور ہونے والے تازہ شعری ہیں اور ا ہے اور ا رہے ہیں اور ا ن یہ بھی

پڑھیں:

حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کی طرف سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کو شاندار خراج عقیدت

مقررین کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی روحانی و فکری طاقت بخشی اور انہیں غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کا حوصلہ دیا۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے زیراہتمام اسلام آباد میں شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی برسی کے موقع پر ایک دعائیہ مجلس کا اہتمام کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق حریت رہنما سید یوسف نسیم کی زیر قیادت دعائیہ مجلس کے مقررین نے علامہ اقبال کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جگایا بلکہ ان کے دلوں میں حریت، خودی اور بیداری کی وہ شمع روشن کی جو آج بھی ان کی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی روحانی و فکری طاقت بخشی اور انہیں غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کا حوصلہ دیا۔ مقررین نے کہا کہ کشمیری عوام علامہ اقبال کے افکار سے گہری نسبت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری نے ہمیشہ کشمیر کے نہتے اور مظلوم عوام کو صبر و استقامت اور جدوجہد کا پیغام دیا ہے۔ حریت رہنمائوں نے اس موقع پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی، قانونی اور بنیادی حق خودارادیت دلوانے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائیں تاکہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔ دعائیہ مجلس کے آخر میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے درجات کی بلندی، شہدائے کشمیر، کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے استحکام کے لیے دعا کی گئی اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ کشمیری اپنی جدوجہد آزادی کو اقبال کے خوابوں کی تعبیر بناتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔دعائیہ مجلس میں حریت رہنما محمود احمد ساغر، ایڈوکیٹ پرویز احمد، مشتاق احمد بٹ، سید فیض نقشبندی، میڈم شمیم شال، شیخ عبدالمتین، دائود خان، جاوید بٹ، میاں مظفر، سید گلشن، نذیر احمد کرنائی، عدیل مشتاق، عبدالمجید لون، محمد اشرف ڈار اور دیگر نے شرکت کی۔

متعلقہ مضامین

  • حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کی طرف سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کو شاندار خراج عقیدت
  • علامہ اقبال شاعر ہی نہیں اہل بصیرت رہنما بھی تھے‘وزیرِ اعظم شہبازشریف
  • شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ  کا یوم وفات آج منایا جا ئے گا 
  • علامہ اقبال شاعر ہی نہیں اہل بصیرت رہنما بھی تھے: وزیرِ اعظم
  • علامہ اقبال شاعر ہی نہیں اہل بصیرت رہنما بھی تھے: وزیرِ اعظم شہباز شریف
  • ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی 87 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف کا شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے یوم وفات پر پیغام
  • شاعر مشرق، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی آج 87 ویں برسی
  • شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا آج 87 واں یوم وفات
  • علامہ اقبال کی لاہور میں ہاسٹل لائف، رہائش گاہیں اور شاعری