شخصیت سازی میں تعلیمی اداروں کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
ہر بچے کی شخصیت سازی میں اُس کے اسکول کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کا درجہ حاصل ہے لیکن جدید دور کے بچے عمومی طور پر ماں کی گود والی درسگاہ سے محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی بچہ بڑے ہو کرکیسا انسان بنے گا، اس بات کا تعین دراصل اُس کے تعلیمی ادارے کا معیارکرتا ہے۔
معاشرے کو مہذب بنانا اور وہاں بسنے والے افراد کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا ایک مکتب کا اولین فرض ہے لیکن پیسہ فرائض کو بھلانے کی طاقت باخوبی رکھتا ہے۔ تعلیم فراہم کرنا ایک مقدس فعل ہے مگر علم کی سودے بازی ہرگز قابلِ قبول عمل تصور نہیں کی جاسکتی ہے۔
ایک ماں کی نظر میں جس طرح اُس کے تمام بچے برابر ہوتے ہیں، بالکل ویسے ہی استاد کے لیے بھی اُس کے سارے طالبِعلم برابر ہونے چاہیئیں،کیونکہ کسی بھی استاد کی جانب سے طالب علموں کے درمیان بھید بھاؤکی کوئی گنجائش نہیں نکلتی ہے۔
دورِ حاضر میں تقریباً تمام اسکولوں کا ایک خاص چلن بن چکا ہے کہ اپنے ادارے کے ذہین بچوں پر خاص توجہ مرکوزکرنا اور اوسط درجے والے طالبِ علموں کو اپنے دستِ شفقت سے محروم رکھنا۔
یہ سارا کھیل دراصل نمبروں کا ہے، چھوٹی جماعتوں سے ہی تیز ذہن رکھنے والے طلبا وطالبات کی ایک فوج اس مقصد سے تیارکی جا رہی ہوتی ہے کہ وہ وقت آنے پر بورڈ کے امتحانات میں شاندار نمبروں سے کامیابی حاصل کر کے اپنے اسکول کو شہر کا بہترین تعلیمی ادارہ ہونے کا اعزاز دلوانے میں اہم کردار ادا کریں گے، جس کو بھرپور طریقے سے استعمال کر کے ہمارے معاشرے کے اُن والدین کی توجہ اپنے ادارے کی جانب مبذول کروائی جاسکے جو اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کافی فکرمند ہیں۔
جب والدین کسی تعلیمی ادارے کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہونگے تو اُن کا بچہ ظاہر ہے اُسی ادارے کا حصہ بنے گا اور پھر وہ بچہ اپنے ہمراہ کئی اور بچے لے کر آئے گا جس کے باعث اُس اسکول کی چاندنی ہو جائے گی اور اسکول کے مالکان پر پیسوں کی بارش۔ عقل و فہم کے حوالے سے مالا مال طالب علموں پر استاد کی تھوڑی توجہ بھی بہت کا کام کرتی ہے جب کہ اصل توجہ کی ضرورت کمزور ذہن والے بچوں کو ہوتی ہے مگر بڑوں کی لالچ نے بچوں کے ذہنوں کو چھوٹی عمر سے ہی برتری اور کمتری کے احساس سے متعارف کروا دیا ہے۔
استاد کی شخصیت اُس کے شاگرد کے لیے مثالی ہوتی ہے اور جب وہی مثالی شخصیت اپنے مخصوص طالب علموں پر فریفتہ ہوگی تو خاص توجہ پانے والے طالبِ علم خود کو اعلیٰ تصورکرنے لگیں گے جب کہ نظر انداز ہونے والے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں گے اور یہ بات دونوں طرح کے بچوں کی تربیت کے عمل کو بری طرح متاثرکرنے کے لیے کافی ہے۔
آج کی دنیا جہاں بیشمار مسائل سے دوچار ہے، وہیں ذہنی بیماریوں کا وار بھی انسانوں پر تیزی سے جاری و ساری ہے۔ ہم یہ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ زمانہ حال بہت سارے حوالوں سے انسان کی ذہنی نشوونما کو متاثر کررہا ہے مگر ساتھ ہم اُن عوامل کو دیکھنے سے کیوں قاصر ہیں جو ہمارے ذہنوں پر مسلسل بوجھ بڑھا رہے ہیں۔
انسان کے اندر ذہنی الجھنوں کے بیج اُس کے بچپن کے ناقابلِ فراموش واقعات و حادثات پیدا کرتے ہیں جو اُس کے جسم میں عمرکے ساتھ ساتھ بیج سے پودے اور پودے سے تناور درخت کی شکل اختیارکرلیتا ہے۔ کسی فرد کی انجانے میں کی جانے والی معمولی حرکت سامنے والے کے لیے کتنی بڑی اذیت ثابت ہو رہی ہوتی ہے، اس کا علم شاید ہی اُس فرد کو ہوتا ہو مگر سامنے والے کا کرب اُس کی زندگی میں آنے والی خوشیوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وجہ باآسانی بن سکتا ہے۔
تعلیم کا ذکر ہمیشہ تربیت کے ہمراہ ہوتا ہے کیونکہ ایک کے بغیر دوسرا بالکل ادھورا سمجھا جاتا ہے، موجودہ دورکی تعلیم ہر لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں جدید اور بہترین ہے مگر تربیت کا اس میں شدید فقدان پایا جاتا ہے جو اس کی شان کو گھٹا کر بے مول کردیتا ہے۔ یہ کوئی پچھلی صدی کی بات نہیں ہے جب درسگاہیں اپنے طالبِ علموں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ اُنھیں معاشرے میں اٹھنے، بیٹھنے اور بول چال کے آداب سکھانے کے علاؤہ ہنرمند بھی بناتی تھیں۔
آج کے ماڈرن والدین اپنے بچوں کو بااخلاق بنانے کی ذمے داری مہنگے اور اعلیٰ معیار والے اسکولوں پر لگا کر خود بری الزمہ ہو جاتے ہیں اور اسکول والوں کی نظر میں بچے کا با ادب ہونا ثانوی حیثیت رکھتا ہے اُن کو مطلب صرف اپنے ادارے میں زیرِ تعلیم بچوں کے قابلِ تحسین رزلٹ اور زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے مختلف طریقے ایجاد کرنے سے ہے۔ بچہ اگر اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ رہا ہو اور فرفر انگریزی بول رہا ہو تو پھر وہ تمیز دار ہو یا بدتمیز اُس کے والدین اور اسکول کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے مگر معاشرے کو اُس کی تربیت سے بے انتہا فرق پڑتا ہے۔
بچپن میں سیکھی ہوئی اچھی، بری باتیں انسان کی شخصیت کے مثبت یا منفی ہونے پر مختص ہوتی ہیں۔ وقت رہتے اگر بچوں کو سیدھی راہ نہ دکھائی جائے اور اُن کو اچھے، برے کی پہچان نہ کروائی جائے تو اس کا خمیازہ صرف ایک فرد یا گھرانے کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔
آج کل ہم اپنے اردگرد جس طرح پڑھے، لکھے گھرانوں کے ہونہار سپوتوں کو عجیب و غریب قسم کی کوئی مخلوق بنتے دیکھ رہے ہیں اُس کی واحد وجہ تربیت کے بغیر تعلیم کا حصول ہے۔ کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کا دار و مدار اُس کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر مبنی ہوتا ہے۔ جس قوم کی درسگاہیں بِنا تفریق اپنا کام سچی لگن سے انجام دیں گی وہاں کے معاشروں کی باگ ڈور تعلیم و تربیت کی چاشنی سے تیار نوجوان نسل کے ہاتھوں میں ہوگی جو کہ دنیا کے ہر کونے میں لازوال ترقی کی شرط تصور کی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طالب علم ہوتا ہے ہوتی ہے ہے مگر کے لیے
پڑھیں:
آئی ایس او کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے اسرائیل کیخلاف احتجاجی ریلی
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے آئی ایس او کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ غزہ و فلسطین میں بہتا ہوا بے گناہ مسلمانوں کا خون، چیخیں مارتی ماں، معصوم بچوں کی لاشیں اور تباہ شدہ گھروں کے یہ سب صرف ایک خطے کا المیہ نہیں بلکہ یہ پوری مسلم امہ کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے زیراہتمام ملتان پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا، جس میں غزہ میں جاری حالیہ جارحیت، او آئی سی قرارداد اور شراکہ تنظیم اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی گئی، فلسطینی شہداء، بچے، مردوں اور خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی گئی، شرکاء ریلی سے صوبائی رہنماء حسن رضا اور ضلعی صدر علی مصدق نے کہا کہ غزہ و فلسطین میں بہتا ہوا بے گناہ مسلمانوں کا خون، چیخیں مارتی ماں، معصوم بچوں کی لاشیں اور تباہ شدہ گھروں کے یہ سب صرف ایک خطے کا المیہ نہیں بلکہ یہ پوری مسلم امہ کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے، ہر دن ایک قیامت ہے، جو فلسطینی مسلمانوں پر ٹوٹتی ہے اور ہر رات ایک اندھیرا ہے، جو ہماری بے حسی کو مزید عیاں کرتا ہے، لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ منظر وہ نہیں، جو غزہ میں ہے بلکہ وہ خاموشی ہے، جو مسلم و عرب حکمرانوں کے محلات میں گونج رہی ہے، وہ زبانیں جو کبھی اسلام کے دفاع کی بات کرتی تھیں، آج سامراجی طاقتوں کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں۔
رہنمائوں نے کہا کہ وہ ہاتھ جو مظلوم کی مدد کیلئے اٹھنے چاہیئے تھے، آج صرف کاروباری معاہدوں پر دستخط کرنے کیلئے حرکت میں آتے ہیں، قرآن ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے، اللہ کو ظالموں کے اعمال سے غافل نہ سمجھو، غزہ کی مائیں اپنے بچوں کو کفن پہنا کر دفنا رہی ہیں اور تم چمکتی میزوں پر بیٹھ کر سودے طے کر رہے ہو، تمہاری فوجیں اپنے ہی عوام کو دبانے میں مصروف ہیں، لیکن فلسطین کیلئے ایک قدم نہیں اٹھتا، جان لو وقت قریب ہے، جب یہ خاموشی تمہارے لیے وبال بنے گی، جب زمین کانپے گی اور اللہ کا قہر تم پر نازل ہوگا، یہ وقت ہے جاگنے کا، ابھی بھی وقت ہے کہ اپنے دلوں کو جھنجھوڑو، ظلم کے خلاف کھڑے ہو جاو، مظلوم کا ساتھ دو، ورنہ وہ دن دور نہیں، جب تاریخ تمہیں رسوائے زمانہ قرار دے گی۔