Daily Ausaf:
2025-04-22@07:19:26 GMT

بے ہنر صاحبان اختیار

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

اسلام آباد کی بارش اپنے اندر ایک رومانوی پہلو رکھتی ہے ،زاہد خشک بھی اس موسم میں سڑکیں ناپنے نکلنے کی ضد کرتے ہیں ، صاف نکھراموسم ، کھل کھلاتے پودے ، مٹی کی سوندھی خوشبو ، اجلا آسمان اور ہموار سڑکوں پر پانی کی طرح بہتی ٹریفک اور اسی روانی سے ذہنوں میں امڈتے پر لطف مضامین کے اشارے ،مگر ناس ہو ان بے ہنر صاحبان اختیار کا کہ ان کی نالائقی، کم فہمی اور کج روی نے یہ واحد عیاشی بھی نہ صرف چھین لی بلکہ بارش کے رومان پرور موسم کو مہنگائی کی طرح سوہان روح بنا ڈالا ۔ حیرت یہ ہے کہ اک شخص جو عوامی مزاج سے نا آشنا، شہروں اور معاشرت کے شعور سے بے بہرہ ، سیاست میں اجنبی ، انتظامی مہارت سے تہی دست امور سلطنت کی نزاکتوں کے علم سے عاری ہے، مگر اسے زمام کار تھمادی گئی اسلام آباد جیسے نازک اندام اور رومانوی مزاج شہر کی جو ملک کی شان ہے،دنیا میں ہماری شان ہے،جو دنیا کے خوبصورت دارالحکومتوں سے ایک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے ۔ جاتے فروری کی بارش ملک بھر کے عوام کی دعائوں کا الوہی جواب تھی ۔ جس پرہر ایک جملہ شکر بجا لایا ، مگر افسوس کہ انتظامی صلاحیتوں سے بیر رکھنے والی انتظامیہ نے ایساپھوہڑ پن دکھایاکہ یہ دن اسلام آباد شہریوں کی یا دداشت میں اک عذاب بن کر محفوظ ہوگیا ۔ معمولی سی بارش ، اس جیسی بارشیں اس شہر میں کبھی معمول ہوا کرتی تھی ، مگر اس بار اس معمولی بارش کو بھی بد انتظامی اور بے تدبیری سے اسلام آبادیوں کے لئے اک عذاب میں بدل ڈالا گیا ، یہ ناقابل معافی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کی سکیورٹی اور غیر ملکی مہمان کے پروٹو کول کی وجہ سے ٹریفک کا اژدھام پیدا ہوا ، جس نے شہر کو رات گئے تک مفلوج کردیا ، لیکن سوال یہ ہے کہ شہر اقتدار میں سکیورٹی پہلی بار دی جا رہی تھی یا کوئی غیر ملکی مہمان پہلی بار آیا تھا ، یا پروٹوکول اور روٹ کا معاملہ پپلی بار درپیش تھا ؟ اس شہر کی تو پہچان ہی یہ ہے ، اس شہر کا معمول ہی یہ ہے کہ ہر روز کوئی غیر ملکی مہمان رونق افروز ہوتا ہے ، ہر وقت شہر کے کسی نہ کسی حصے میں سکیورٹی کوریڈور بنایا جاتا ہے ۔ اس شہر کی شناخت ہی یہ ہے کہ حکمرانوں ،پروٹوکول اور سکیورٹی کا شہر، دنیا بھر کے سفارتی حلقے اس شہرکےحسن انتظام اورسکیورٹی سینس کی تعریف کرتےتھےمگر گزشتہ روز ؟؟ توبہ ۔ ایسی بد انتظامی ، ایسی بدنظمی ۔۔ ایسا توفتنہ انتشار کی یلغار کے وقت بھی نہ ہواتھا ، بچیاں یونیورسٹیوں سےچاربجے نکلیں اور شب 10 بجے تک سڑکوں پرخوار ہوتی رہیں ، ان کی والدین پر کیا گزری ہوگی ، یہ بچیاں ٹریفک کے اس اژدھام میں اجنبی کیب ڈرائیورز کی موجودگی میں کس اذیت اور ہراسانی سے گزری ہوں گی ؟ وہ خواتین حضرات جو دفاتر سےنکلے اور رات تک گھر نہ پہنچے ،ایک کولیگ کے گھر سے اطلاع آئی کی پانی گھر میں داخل ہوگیا ، گھر میں تنہا بیٹی کے باربار فون کرنے کےباوجود اسے سڑکوں پر خواری برداشت کرناپڑی اور رات گئے تک گھر پہنچنے کی نوبت نہ آئی ، یہ کوئی ایک معاملہ نہیں ، سڑکیں بھری پڑی تھیں ۔ حد تو یہ کہ ہر طرح کے حالات میں ٹریفک کو رواں رکھنے والی پولیس بھی سڑکوں سے غائب تھی ۔ سڑک بلاک کرنے اور راستہ روکنے میں جلدی کرنے والی پولیس سڑک کھولنے اور ٹریفک بحال کرنے کے وقت کہاں غائب تھی ۔ کوئی نہیں جانتا ؟ اسلام آباد کا انتظام وفاق کی ذمہ داری ہے ، وزیرداخلہ دیکھتے ہیں ، مگر وہ کہاں تھے؟ شائد کہ انہیں اس بات کا اب تک احساس ہی نہ ہو کہ ان کی بد تدبیری سے شہر پر کیا بیتی ؟ جس غیر ملکی مہمان کو خوش کرنا مقصود تھا ، کیا اس کا سفارتخانہ اس صورتحال سے بےخبر ہے، وہ بتائے گا نہیں کہ اس شہر پر کیا بیتی ؟ شرم کی بات یہ ہے کہ وہی سفارتی مجلسیں جہاں اس شہر کی خوبصورتی اور حسن انتظام کے چرچے تھے ، انہی محافل میں جمعرات کی شب پاکستان کا تمسخر اڑایا جا رہا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک شخص اتنا بےہنر ہے کہ جس کام میں ہاتھ ڈالے ، اسے تمسخر بنا ڈالے ، وہ اقتدار کے لئے اس قدر لازم کیوں ہوگیا ؟ ان صاحب کی بے تدبیری میں کوئی شک باقی ہے کہ کرکٹ کا جنازہ نکال دیا گیا ، سکیورٹی کا ملک بھر میں بیڑا غرق ہے ، اب اسلام آباد رہ گیا تھا ، اسے بھی بے تدبیری اور بد انتظامی کا شاہکار بنا ڈالا گیا ۔ کوئی سیاسی ذہن کا مالک ہوتا ، کسی کو عوام کی جوابدہی کا خوف ہوتا تو جس وقت اسلام آباد کے شہری سڑکوں پرخوار تھے ، وہ خود بھی سڑکوں پر ہوتا ، کوئی اور ملک ہوتا تو اس انتظامی کا ذمہ دار اب تک مستعفی ہو چکا ہوتا ، یا کم ازکم شہریوں سے معافی ضرور مانگ لیتا ۔
کسی نے کہا تھا کہ زندگی دوسروں کے عیبوں کے پیچھے چھپ کر نہیں گزاری جا سکتی ، اپنے اندر بھی کوئی ہنر پیدا کرنا پڑتا ہے ، سوال یہ ہے کہ اس طرح کے بے ہنر اقتدار پرست اگر حسن انتظام سیکھ نہیں سکتے تو الگ کیوں نہیں ہوجاتے ، پہلے اس شہر کو فتنہ انتشار نے تباہ کیا ، اب وزیر بےتدبیر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ، جناب وزیر اعظم اور ارباب بست وکشاد اس شہر پر رحم کریں، کم ازکم وزیر بدل لیں یا جن شعبوں کو موصوف کے دست ہنر سے سزا دی جاچکی ان کی سزا معاف کرکے کسی دوسرے کے سپرد کردیا جائے ، تاکہ بحالی کے اقدامات ممکن ہو سکیں ۔ بہر حال اسلام آباد کی بارش کے رومانس کا جو ستیاناس کیا گیا ہے ، اس کا مداوا تو ممکن نہیں ، لیکن نظیر اکبر آبادی کی طویل نظم برسات کے کچھ اشعار شائد زخموں پر مرہم کا کام کرسکیں ۔ ویسے اس بد انتظامی سے پہلے ہماری اسلام آباد کی برساتیں ایسی ہی دل کش اور روح پرور ہوا کرتی تھیں ۔ بقول نظیر اکبر آبادی ۔
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
مارے ہیں موج ڈابر دریا ڈونڈ رہے ہیں
مور و پپہیے کوئل کیا کیا رمنڈ رہے ہیں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: غیر ملکی مہمان اسلام ا باد کی بہاریں سڑکوں پر یہ ہے کہ کیا کیا رہے ہیں شہر کی

پڑھیں:

ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 

اسلام آباد (وقائع نگار) اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جمعہ کو درخواست دائر کی تھی اب آئے ہیں کہ وہ درخواست فکس کیوں نہیں ہوئی۔ اس کو ڈائری نمبر لگ گیا ہے، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے حوالے سے پہلے دائر درخواستیں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سنیں، عدالت کے آرڈر کے بعد ہماری ملاقاتیں باقاعدہ ہوتی تھیں، کوئی زمین و آسمان اوپر نیچے نہیں ہوا اور بانی پی ٹی آئی سے وکلاء، فیملی اور سیاسی لیڈران کی ملاقاتیں باقاعدہ ہوتی تھیں، بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی، شاہ محمود قریشی اور دیگر سب سیاسی قیدی ہیں، ہم صرف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں، کوئی فورس نہیں کہ راکٹ لانچر، یا ایف 16 سے حملہ کریں، دو دن پہلے ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور قیادت موجود تھی۔ چیف جسٹس کے پاس پیش ہونا چاہا مگر وہ شاید جمعہ کی وجہ سے چلے گئے تھے۔ مجھ پر بسکٹ چوری تک کے کیس لگائے گئے ہیں، ہہم ریاست کا حصہ ہیں اور جو تعریف یہ لوگ کرتے ہیں ریاست کی وہ یکسر مختلف ہے، عقل کے اندھوں سے کہتا ہوں کہ آئین کا مطالعہ کر لیں، ریاست کیا ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • اسلام آباد میں غزہ ملین مارچ ‘ امریکہ قاتل ‘ پاکستان میں حماس کا دفتر کھولاجائے ہفتہ کو ملک گیر ہٹرتال : حافظ نعیم
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • ایم کیو ایم سندھ کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی: فاروق ستار 
  • لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، جنید اکبر
  • نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
  • نیا واٹس ایپ فراڈ: تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے فون ہیک اور بینک اکاؤنٹ خالی ہونے کی حقیقت کیا؟
  • جنس تبدیلی؛ اب کرکٹ میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں، والد کے الفاظ تھے
  • جو کہتے ہیں کوئی ڈیل ہورہی ہے انکی عقل چلی گئی ہے: اعظم سواتی