وسیم اکرم الزامات پر یووراج سنگھ کے والد کیخلاف پھٹ پڑے
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
سابق بھارتی کرکٹر اور یوراج سنگھ کے والد یوگراج سنگھ نے پاکستان کے چیمپئینز ٹرافی سے باہر ہونے پر بیان جاری کیا تھا کہ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ایک سال کے دورانیے میں بہترین ٹیم بنا کر دکھاؤں گا۔
انہوں نے پاکستان سابق کھلاڑیوں سے سوال کیا کہ وسیم اکرم اور شعیب اختر جیسے سابق پاکستانی کرکٹ اسٹارز موجودہ ٹیم کی کوچنگ کرکے ان کی مدد کیوں نہیں کررہی۔
بھارتی میڈیا ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق بھارت میں کرکٹ اکیڈمی چلانے والے یوگراج سنگھ نے اپنے ایک بیان میں ناصرف پاکستان کرکٹ ٹیم کی طرف داری کی ہے بلکہ ٹیم پر تنقید کرنے والے سابق پاکستانی کرکٹرز کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ وسیم اکرم کو چاہیے کہ وہ کمنٹری اور تجزیہ چھوڑ کر اپنے ملک جائیں اور ان کھلاڑیوں کے لیے کیمپ لگائیں، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ کتنے لوگ (سابق پاکستانی کھلاڑی) پاکستان ٹیم کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ورلڈکپ جیت سکے، اگر نہ ہو تو استعفیٰ دے دیں۔
اب اس پر پاکستان کے سابق فاسٹ بولر وسیم اکرم نے یوراج سنگھ کو جواب دیا ہے۔
وسیم اکرم نے اسپورٹس چینل پر شو کے دوران کہا، “لوگ اکثر مجھ پر تنقید کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں صرف باتیں کرتا ہوں اور کچھ نہیں۔ جب میں پاکستان کے کوچز کو دیکھتا ہوں، جیسے وقار، جنہیں کوچنگ کے بعد متعدد بار برطرف کیا گیا ہے، میں نے دیکھا ہے کہ ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
وسیم اکرم نے یوگراج سنگھ کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں مفت میں ٹیم کی مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن اس کے ساتھ آنے والی مصیبت سے نمٹنا نہیں چاہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں 58 سال کی عمر میں کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔
”میں پاکستان کرکٹ کی مدد کرنا چاہتا ہوں، آپ کو مجھے پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے، میں مفت میں دستیاب ہوں، اگر آپ کیمپ لگائیں اور مجھے وہاں چاہیں تو میں آؤں گا، اگر آپ کو مجھے کسی بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے کھلاڑیوں کے ساتھ وقت گزارنے کی ضرورت ہے تو میں ایسا کروں گا، لیکن میں اب 58 سال کا ہوں، اور اس عمر میں آپ کی توہین برداشت نہیں کروں گا۔“ انہوں نے کہا کہ میں اپنی عمر میں تناؤ سے گزار سکتا ہوں۔
یاد رہے کہ پہلے نیوزی لینڈ اور پھر بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنے کے بعد چیمپئنز ٹرافی کا میزبان پاکستان ایونٹ سے ہی باہر ہو چکا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وسیم اکرم کہ میں ٹیم کی کی مدد
پڑھیں:
Rich Dad -- Poor Dad
وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘ والد ٹھیکیدار تھا‘ جنرل ایوب خان کے دور میں ملک میں ترقیاتی کام شروع ہوئے‘ سڑکیں بنیں‘ ڈیم بننے لگے اور بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھنے لگیں‘ والد نے اس دور کا بھرپور فائدہ اٹھایا‘ اس نے منگلا ڈیم سے مٹی نکالنے کا ٹھیکہ لیا‘ پھر سندھ میں اسکولوں کی عمارتیں بنانے اور آخر میں بلوچستان میں ہیلتھ یونٹس کی تعمیر کا کام سنبھال لیا‘ یہ کام، کام نہیں تھے‘ یہ سونے کی کانیں تھیں‘ والد ان کانوں کا جتنا سونا سمیٹ سکتا تھا اس نے سمیٹ لیا‘ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔
اس نے جو کمایا پراپرٹی میں لگا دیا‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی خوب کیا‘ لڑکے ایچی سن میں پڑھے اور لڑکیوں نے کانونٹ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کی‘ والد نے بچوں کو دنیا کی ہر نعمت فراہم کی‘ یہ لوگ اس وقت ذاتی گاڑیوں پر اسکول اور کالج جاتے تھے جب نوے فیصد پاکستانی تانگوں پر سفر کرتے تھے‘ دنیا میں دولت 80 فیصد لوگوں کو خراب کر دیتی ہے‘ یہ لوگ شراب‘ شباب کباب اور جوئے کے عادی ہو جاتے ہیں یا پھر نمود ونمائش کے ذریعے اللہ کے دیے رزق کو آگ لگانے لگتے ہیں لیکن ان کا والد مختلف انسان تھا‘ دولت نے اسے خراب نہیں کیا‘ وہ آخری سانس تک سادہ اور شریف آدمی رہا‘ پانچ وقت کا نمازی‘ زندگی میں تین حج اور دس عمرے اور سگریٹ تک کو منہ سے نہیں لگایا‘ بچے بھی بہت اچھے تھے۔
یہ پانچوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے چنانچہ خاندان کی زندگی میں ہر طرف امن ہی امن‘ سکون ہی سکون اور خوش حالی ہی خوش حالی تھی لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘ حالات نے پلٹا کھایا‘ خاندان ٹوٹا اور پانچوں بہن بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے‘ ان پانچوں کی باقی زندگی عدالتوں‘ کچہریوں اورو کیلوں کے دفتروں میں دھکے کھاتے گزری‘ کیوں؟ ہم اس کیوں کی طرف آنے سے پہلے اس واقعے کی طرف جائیں گے جو اس خوشحال فیملی کو بکھیرنے کی وجہ بنا‘ ان کا والد 1972ء میں اچانک فوت ہو گیا۔
والد کی تدفین کے بعد جائیداد کے کاغذات اکٹھے کیے گئے‘ پتہ چلا والد نے کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور ڈھاکہ میں کروڑوں روپے کی کمرشل پراپرٹی چھوڑی‘ فیصل آباد کے مضافات میں زرعی زمین بھی تھی اور ملتان میں دو فیکٹریاں بھی۔ جائیداد کی تقسیم پہلا تنازع تھا جس نے ان بہن بھائیوں کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جنھیں ایک دوسرے کو دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی‘ یہ تنازع بڑھتے بڑھتے دشمنی بن گیا‘ پانچوں بہن بھائی جائیداد میں حصے کے لیے عدالتوں میں گئے اور پھر اس کے بعد واپس نہ آئے‘ جائیداد کی دشمنی اب تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہے‘ اب کزن ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں‘ یہ لوگ بھی نہ جانے کب تک لڑتے رہیں گے۔
آپ یقینا ان پانچ بہن بھائیوں کو لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم کہیں گے لیکن میں ان کو مظلوم اور بے گناہ سمجھتا ہوں‘ کیوں؟ کیونکہ میری نظر میں یہ لوگ لالچی‘ مطلبی‘ کوتاہ فہم اور ظالم نہیں ہیں‘ ان کا والد تھا‘ وہ ایک ایسا ظالم اور لالچی شخص تھا جو دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی اولاد کے لیے فساد کی بے شمار جڑیں چھوڑ گیا‘ یہ والد کی چھوڑی ہوئی وہ زمین‘ جائیداد‘ ملیں اور رقم تھی جس نے 53 برسوں تک بچوں کو اکٹھے نہیں بیٹھنے دیا‘ جس نے انھیں ایک دوسرے کی خوشیوں اور غمیوں میں بھی جمع نہیں ہونے دیا اور جس نے بہن کو بہن اور بھائی کو بھائی نہیں رہنے دیا چنانچہ آپ فیصلہ کیجیے‘ ظالم اور لالچی کون تھا‘ بچے یا والد؟ آپ جتنا غور کریں گے۔
آپ بھی اتنا ہی والد کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیں گے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا یہ صرف ایک خاندان یا چند لوگوں کی داستان ہے؟ جی نہیں‘ آپ دائیں بائیں دیکھیں‘ آپ کو اپنے ہر طرف ایسے ہزاروں خاندان نظر آئیں گے جن کے والدین اپنے بچوں کے لیے عمر بھر خوشحالی جمع کرتے رہے‘ جو زندگی بھر اپنی آل اولاد کے لیے دولت کے انبار لگاتے رہے لیکن جوں ہی ان کی آنکھ بند ہوئی‘ ان کی وہ اولاد ان کے جنازے میں ہی لڑ پڑی جس کی خوشحال اور مطمئن زندگی کے لیے وہ تنکا تنکا جمع کرتے رہے تھے‘ ان کی اولاد پھر کبھی اکٹھی نہ بیٹھ سکی۔
بچے عمر بھر وکیلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے رہے اور جب بچوں کا آخری وقت آیا تو ان کی کوئی بہن‘ بھائی‘ بھتیجا اور بھانجا ان کا منہ دیکھنے کے لیے نہیں آیا چنانچہ پھر ظالم کون ہوا‘ والد یا اولاد؟ آپ ان کے مقابلے میں اب ان لوگوں کو دیکھئے‘ جو اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں چھوڑ کر جاتے‘ یہ لوگ زندگی میں جتنا کماتے رہے‘ اتنا کھاتے رہے‘ کرائے کے چھوٹے مکانوں میں زندگی گزاری‘ گھر بنایا تو وہ بھی تنگ اور چھوٹا تھا‘ ایک آدھ گاڑی خریدی اور کپڑے اور جوتے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن بچوں کی تربیت‘ تعلیم اور صحت پر بے انتہا توجہ دی‘ اپنی اولاد کو خود اسکول چھوڑ کر آئے‘ ان کے لیے کتابیں خریدیں‘ ان کے ساتھ میدانوں میں دوڑ لگائی‘ کرکٹ کھیلی‘ ہاکی اور فٹ بال سے لطف لیا‘ قہقہے لگائے‘ لطیفے سنائے اور باربی کیو کیا۔
یہ لوگ جب یہ مشکل اور غریب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کی اولاد کے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں تھی جسے یہ آپس میں تقسیم کرتے اور اس تقسیم کے دوران کوئی تنازع پیدا ہوتا چنانچہ اولاد نہ صرف والدین کے انتقال کے بعد بھی ایک دوسرے سے ملتی رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی محبت میں اضافہ بھی ہوتا گیا‘ آپ کبھی ملک میں ’’کزن میرجز‘‘ پر بھی تحقیق کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ’’کزن میرج‘‘ کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے دادا اور نانا ترکے میں زمین جائیداد چھوڑ کر نہیں جاتے‘ والدین نے کیونکہ دولت نہیں چھوڑی ہوتی چنانچہ بچے آپس میں ملتے رہتے ہیں اورجب ان کی اولاد جوان ہوتی ہے تو بھائی بھائی سے رشتہ مانگ لیتا ہے اور بہن اپنی بیٹی بھتیجے سے بیاہ دیتی ہے اور یوں محبت اور رشتے آگے بڑھتے جاتے ہیں جبکہ آپ ان کے مقابلے میں امیر خاندان کے بچوں کو اپنے کزنز کے گلے کاٹتے دیکھیں گے‘ یہ غریب اور امیر خاندانوں کی زندگی کا ایک پہلو ہے‘ آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔
میں نے زندگی میں غریب والدین کے زیادہ تر بچوں کو ترقی کرتے دیکھا‘ آپ بھی سروے کریں‘ آپ بھی زندگی کے مختلف شعبوں کے کامیاب لوگوں کا بیک گراؤنڈ دیکھیں‘ آپ کو اسی فیصد کامیاب لوگوں کا بچپن غربت اور عسرت میں لتھڑا دکھائی دے گا‘ والد غریب تھا‘ وہ لوہا کوٹتا تھا‘ وہ موچی‘ کسان‘ سیلز مین یا فیکٹری مزدور تھا‘ وہ کلرک یا سیکشن آفیسر تھا‘ وہ مزارع تھا یا پھر وہ معمولی دکاندار تھا لیکن بیٹا سیٹھ بن گیا‘ مل مالک‘ اعلیٰ افسر‘ جرنیل‘ سائنس دان یا اداکار ہو گیا‘ آپ یہ ڈیٹا جمع کریں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ آپ وجہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔
غربت میں دس ہزار خرابیاں اور ایک لاکھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن اس میں ایک ایسی حیران کن خوبی ہوتی ہے جو دنیا کی کسی دوسری چیز میں نہیں پائی جاتی‘ غربت دنیا کا سب سے بڑا طعنہ ہے‘ یہ طعنہ انسان کے اندر غربت کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دیتا ہے اور انسان سینہ ٹھونک کر اس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے‘ یہ غربت سے لڑ پڑتا ہے اور ہمیشہ کامیاب ہو جاتا ہے‘ میں غریب والدین کے کامیاب بچوں سے ہمیشہ عرض کرتا ہوں‘ آپ اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے غریب والد کا شکریہ ادا کریں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کی یہ ساری کامیابی آپ کے والد کی غربت کا رد عمل ہے‘ آپ کو آپ کے ناکام اورغریب والد نے کامیاب اور امیر بنایا‘ آپ اگر بچپن میں غربت اور ناکامی نہ دیکھتے تو آپ کے دل میں کبھی ناکامی اور غربت کے خلاف اتنی نفرت پیدا نہ ہوتی اور آپ کے دل میں اگر یہ نفرت سر نہ اٹھاتی تو آپ کبھی کامیاب نہ ہوتے‘ میں اسی طرح سخت ماں باپ کے کامیاب بچوں سے بھی عرض کرتا ہوں‘ آپ اپنے والدین کی سختی کا شکریہ ادا کریں۔
وہ اگر آپ پر سختی نہ کرتے تو آپ شاید گھر سے نہ بھاگتے‘ آپ شاید کتابوں‘ اسپورٹس اور کاروبار میں پناہ نہ لیتے اور شاید آپ میں حالات کے خلاف لڑنے کا اتنا حوصلہ پیدا نہ ہوتا‘ یہ حوصلہ‘ سختی کا مقابلہ کرنے کی یہ ہمت آپ کی کامیابی کا اصل گُر ہے اور آپ نے یہ گُر اپنے والدین کی سختی‘ ظلم اور منفی رویوں سے کشید کیا‘ وہ اگر نرم نہ ہوتے تو آپ اس وقت کامیابی کی آخری سیڑھی کی بجائے میاں چنوں میں بوریاں جھاڑ رہے ہوتے یا پھر آپ نے لاڑکانہ میں آلو چھولے کی ریڑھی لگائی ہوتی‘ یہ آپ کے والدین کی سختی تھی جس نے آپ کو زندگی کے نئے میدان تلاش کرنے پر مجبور کیا‘ یہ سختی تتلی کے انڈے کا وہ باریک سوراخ ثابت ہوئی جس سے نکلنے کی کوشش میں قدرت تتلی کے جسم پر خوبصورت پر اگا دیتی ہے‘ انڈے کا سوراخ جتنا چھوٹا ہوتا ہے‘ تتلی کے پر اتنے ہی خوبصورت اور لمبے ہوتے ہیں اور یہ سوراخ جتنا بڑا ہوتا ہے۔
تتلی کے مرنے کے چانس بھی اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں‘ زندگی میں اگر سختی‘ غربت اور مسائل نہ ہوں تو شاید دنیا میں کوئی ایڈیسن‘ آئن سٹائن‘ نیوٹن‘ شیکسپیئر‘ مائیکل اینجلو‘ مارک زکر برگ اور بل گیٹس پیدا نہ ہو‘ دنیا کے زیادہ تر کامیاب لوگ سختی اور غربت کی پیداوار ہوتے ہیں‘ یہ مشکلات کے کوکون سے نکلتے ہیں چنانچہ آپ اگر امیر ہیں تو آپ جان لیں آپ کی جائیداد آپ کے بعد آپ کے بچوں کو اکٹھا نہیں بیٹھنے دے گی اور آپ اگر غریب ہیں تو آپ ہرگز ہرگز شرمندہ نہ ہوں‘ آپ کی یہ غربت آپ کے بچوں کی کامیابی کا ذریعہ بنے گی اور یہ ان کو ایک دوسرے سے جوڑے بھی رکھے گی‘ غریب باپ امیر باپ کے مقابلے میں ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔