افغانستان کیخلاف قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں کواڈ انجری کا شکار ہونے کے بعد آسٹریلوی ٹاپ آرڈر بلے باز میتھیو شارٹ شاید چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے سیمی فائنل کے لیے آسٹریلوی اسکواڈ سے باہر ہوجائیں۔

چیمپیئنز ٹرافی کے سیمی فائنل کے لیے آسٹریلیا کو اپنے ٹاپ آرڈر میں ردوبدل کرنے کا امکان ہے جس سے کواڈ انجری سے دوچار میتھیو شارٹ کے ٹیم سے باہر ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

29 سالہ میتھیو شارٹ افغانستان کی اننگز میں دیر سے انجری کا شکار ہوئے اور اگرچہ انہوں نے ٹریوس ہیڈ کے ساتھ بیٹنگ کا آغاز کیا تاہم وہ وکٹوں کے درمیان دوڑتے ہوئے مشکل میں نظر آئے اور بڑی حد تک باؤنڈری مارنے کی کوشش تک محدود رہے۔

وہ 15 گیندوں پر 20 رنز بنانے میں کامیاب ہو گئے جو مڈ آن پر کیچ ہونے سے پہلے 4.

3 اوورز میں 44 رنز کا مفید اوپننگ اسٹینڈ بن گیا تھا لیکن کپتان اسٹیون سمتھ نے اعتراف کیا کہ وقت میتھیو شارٹ کی طرفداری نہیں کررہا تھا۔

مزید پڑھیں:

میچ کے بعد پریزنٹیشن میں آسٹریلوی کپتان کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ وہ جدوجہد کر رہے ہوں گے۔ ’مجھے لگتا ہے جیسا کہ ہم نے آج دیکھا کہ وہ اچھی طرح سے حرکت نہیں کررہے تھے، مجھے لگتا ہے کہ شاید میچوں کے درمیان ان کے لیے صحت یابی بہت جلد تصور کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیون سمتھ افغانستان ٹاپ آرڈر چیمپیئنز ٹرافی سیمی فائنل کپتان کواڈ انجری میتھیو شارٹ

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیون سمتھ افغانستان ٹاپ آرڈر چیمپیئنز ٹرافی سیمی فائنل کپتان کواڈ انجری میتھیو شارٹ میتھیو شارٹ سیمی فائنل ا سٹریلوی کے لیے

پڑھیں:

امریکی پالیسی میں صرف چین خطرہ ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی پالیسی میں صرف چین خطرہ ؟چند دن قبل امریکا کی جن عالمی امریکی پالیسی کا اعلان کیا گیا جس میں امریکا نے روس، مشرقِ، ایران کو امریکا کے لیے خطرہ نہیں بتایا لیکن چین نمبر ون خطر ہ قراقر دے لیکن ساتھ یہ اعلان کیا کہ امریکا چین سے تجارت کرتا رہے گا۔ نئی امریکی پالیسی کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اب دنیا کا چوہدری بننے سے دستبردار ہو رہا ہے چاہے ٹرمپ جنوب مشرقی ایشیا سے وسطی افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک امن معاہدوں کا سہرا اپنے سر کیوں نہ باندھتے رہیں۔
اے ایف پی کے مطابق وینزویلا پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بحری بیڑے یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ کو تعینات کیا ہے لیکن ساتھ اس جے صدر سے مذاکرات بھی جارہ رکھا اور یہ بھی اعلان کیا اس سلسلے امریکا جلد کو ئی فیصلہ نہیں کر گا

ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسے بچے کی طرح خوش دکھائی دے رہے تھے جس نے اپنے ہم عمر سے کھلونا چھین لیا ہو۔ وہ فخر سے کہہ رہے تھے کہ یہ ’اب تک کی سب سے بڑی‘ کارروائی تھی۔ مگر بدقسمتی سے یہاں ’کھلونا‘ نہیں بلکہ ایک بحری آئل ٹینکر تھا جسے امریکی فوجی آپریشن میں روک کر قبضے میں لیا گیا۔
یہ ایک ایسی کارروائی تھی جسے مغربی دنیا کے بڑے حصے نے سمندری قزاقی قرار دیا ہے۔لیکن اس پالیسی فرانس اور برطانیہ سے اوجھل نہیں ہے اسی لیے دونوں ممالک چین سے دوستی پر توجہ مرکو ز کر رہے ہیں۔
امریکی اٹارنی جنرل کے مطابق یہ ٹینکر امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل تھا کیونکہ وہ ’غیر قانونی تیل کی اسمگلنگ کے ایسے نیٹ ورک کا حصہ تھا جو غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرتا ہے۔
بظاہر یہ ٹینکر وینزویلا سے کیوبا جا رہا تھا لیکن یہ واضح نہیں کہ اصل ہدف ایندھن کی کمی کا شکار کیوبا تھا، سیاسی طور پر مشکل صورت حال کا سامنا کرنے والا وینزویلا، یا پھر وہ ٹینکر خود۔ ممکن ہے کہ تینوں میں سے کوئی بھی ہدف ٹرمپ انتظامیہ کے لیے قابل قبول ہو۔

یہ ابھی واضح نہیں کہ امریکہ وینزویلا پر اپنے اثر و رسوخ کو کہاں تک بڑھائے گا۔ وہ پہلے ہی یہ دعویٰ کر کے کہ جہاز منشیات لے جا رہے تھے، بحیرہ کیریبین میں درجنوں کشتیاں ڈبو چکا ہے اور وینزویلا کی فضائی حدود بھی ’بند‘ قرار دے چکا ہے۔ آخری اور سب سے سخت اقدام دباؤ یا طاقت کے ذریعے صدر نکولس مادورو کو ہٹانا ہو سکتا ہے، جنہیں امریکہ ایک جعلی انتخاب کے ذریعے حاصل کی گئی ناجائز حکومت کا سربراہ سمجھتا ہے۔
امریکی صدر اور اس کے یورپی اتحادی دریا مختلف کناروں پر نظر آرہے جن کا ملاپ نہ ممکن ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکی عوام اس طرح کی کارروائی کے حق میں نہیں اور اگلے برس وسط مدتی انتخابات سے پہلے اگر کوئی آپریشن ناکام ہوا تو یہ ٹرمپ اور رپبلکن پارٹی کے لیے مادورو کو چھوڑ دینے سے کہیں بڑا سیاسی نقصان بن سکتا ہے۔ وینزویلا کے خلاف امریکی اقدامات ٹرمپ کی دوسری مدت کی خارجہ پالیسی کا پہلا عملی مظاہرہ سمجھے جا رہے ہیں جیسا کہ گزشتہ ہفتے شائع ہونے والی امریکی قومی سلامتی حکمت عملی میں بیان کیا گیا ہے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں یورپ میں اس دستاویز پر سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دی گئی کہ امریکی نقطہ نظر کے مطابق پورا یورپی براعظم ایک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکالا گیا کہ یورپ کو اپنی سیکورٹی خود سنبھالنی چاہیے کیونکہ اب امریکہ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایسی بات ہے جو امریکہ پہلے بھی کہتا رہا ہے لیکن اب اس دعوے میں زیادہ سختی اور جلدی بازی دکھائی دیتی ہے۔ اسی لیے یہ تشویش بھی پھیلی ہے کہ امریکہ یورپ کو چھوڑنے والا ہے اور یوکرین اس کا پہلا قدم ہو سکتا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے کا یہ بیان کہ ’ہم، یورپ روس کا اگلا ہدف ہیں‘ یورپی دفاعی حلقوں کی اسی گھبراہٹ کی ترجمانی کرتا ہے۔

تاہم زیادہ توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ اس حکمت عملی نے امریکہ کے اپنے مستقبل کی سیکورٹی پالیسی کو کس طرح بیان کیا ہے۔ اس میں وہ سوچ پہلی بار واضح طور پر ایک پالیسی کی شکل میں سامنے آئی ہے جو کافی عرصے سے اشاروں میں نظر آ رہی تھی۔
یہ بات ثابت کر تی ہے کہ امریکہ اب دنیا کا چوہدری بننے سے دستبردار ہو رہا ہے، چاہے ٹرمپ جنوب مشرقی ایشیا سے وسطی افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک امن معاہدوں کا سہرا اپنے سر کیوں نہ باندھتے رہیں۔ اب امریکہ صرف اپنی سیکورٹی اور اپنے مغربی نصف کر ارض کو ترجیح دے گا، گویا یہ 1823 کی مونرو ڈاکٹرائن کا 21ویں صدی کا ورژن ہو۔
ٹرمپ جن امن معاہدوں کا ذکر بار بار کرتے ہیں، انہیں یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ امریکی’باقیات‘ کو سمیٹ کر دنیا سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔ یہی وجہ شاید یوکرین کی جنگ ختم کروانے کی ان کی جلدبازی اور مشرق وسطیٰ میں باقی کام نمٹانے کی خواہش کی بھی وضاحت کرتی ہے۔ مجموعی پیغام واضح ہے اور وہ یہ کہ’ امریکہ کہہ رہا ہے، ہم جا رہے ہیں۔‘

اس نئی اعلان شدہ پالیسی کے تحت امریکہ کی پوری توجہ اپنے ہی براعظم تک محدود ہو جائے گی، جو یہ بھی بتاتا ہے کہ ٹرمپ نے دوسری مدت کے آغاز میں گرین لینڈ اور پناما کا ذکر کیوں کیا اور اس وقت وینزویلا کیوں نشانے پر ہے۔یہ سمجھ لینا بھی سہل نہیں کہ یہ پالیسی صرف ٹرمپ تک محدود رہے گی اور ان کے جانے کے ساتھ ختم ہو جائے گی۔حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ماضی میں بھی لاطینی امریکہ میں کئی بار مداخلت کی ہے جیسے نکاراگوا، ایل سلواڈور، چلی اور کیوبا کو ابھی بھولنا جلد بازی ہو گی۔ برطانیہ کو تو خاص طور پر یاد ہو گا کہ فاک لینڈز کی جنگ میں امریکہ کو ساتھ ملانے کے لیے کتنی جدوجہد کرنا پڑی تھی اور پھر ایک امریکی فوجی مداخلت براہ راست برطانوی ملکیت والے گرینیڈا جزیرے میں بھی ہوئی۔

لہٰذا ممکن ہے کہ امریکہ اب کسی نئی راہ پر نہیں بلکہ اپنی پرانی راہ پر واپس لوٹ رہا ہو جہاں اس کی خارجہ پالیسی کا محور صرف اپنا نصف کرہ ہے، نہ کہ پوری دنیا۔
یہ بات اپنی جگہ ٹھیک اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ نئی ’نیم کرہ ارض والی طاقت‘ استعمال کرنا کوئی آسان کھیل ہو گا۔ امریکہ کو ایک ابھرتے ہوئے برازیل سے کیسے نمٹنا ہو گا؟ ایک سخت موقف رکھنے والے کینیڈا کا کیا کریں گے؟ چین بحر الکاحل میں اپنے اثر و رسوخ کی کیا حد مقرر کرے گا؟
صرف ایک نصف کرہ بھی امریکیوں کو امن میں یا اگر وہ مناسب سمجھیں، جنگ میں مصروف رکھنے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ ہر کام اتنا آسان جتنا سمجھا جاتا ہے ۔

قاضی جاوید گلزار

متعلقہ مضامین

  • بیانیہ
  • منی بجٹ نہیں لا رہے، شارٹ فال گڈ گورننس سے کور کرینگے: وزیر خزانہ
  • امریکی پالیسی میں صرف چین خطرہ ؟
  • میں نہیں ہم
  • کہانی لکھنا بچوں کا کھیل نہیں؛ بشریٰ انصاری اور نادیہ خان کے درمیان شو میں گرما گرم بحث
  • عرب کپ، فلسطین کوارٹر فائنل میں جگہ نہ بناسکا، سعودی عرب نے آخری لمحات میں کامیابی حاصل کرلی
  • شارٹ فال: ریونیو اقدامات کئے‘ اخراجات روک دینگے‘ آئی ایم ایف کو یقین دہانی
  • بے روز گاری اور پاکستان کی خوش قسمتی
  • ٹی 20 ولڈکپ کے ٹکٹوں کی فروخت کیلئے جاری پوسٹر میں پاکستانی کپتان کی تصویر غائب، شائقین برہم
  • سہیل آفریدی کا سخت ردعمل: ’فیض حمید کی سزا ادارے کا کام—اصل کھیل تو بانی PTI کو مائنس کرنے کا ہے