Express News:
2025-04-22@07:07:03 GMT

پاک افغان چوکی تنازع اور تجارت

اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT

گزشتہ سال مارچ میں ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ صورت حال کے باعث افغان تاجر تجارت کے لیے ایران اور وسط ایشیا کے متبادل راستے اختیار کر رہے ہیں۔ کئی افغان تاجروں نے بتایا کہ پاکستان اور افغان حکومت کی جانب سے تجارت اور سیکیورٹی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں کمی لے کر آیا ہے اور بہت سے تاجر اب متبادل راستے اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف بھارت، افغانستان کے مابین تجارتی مالیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تجارتی اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ افغانستان اب بہت سی اشیا مثلاً پھل اور ڈرائی فروٹس وغیرہ بھارت کو برآمد کرنے میں ترجیح دے رہے ہیں اور بھارت بھی اپنی ایکسپورٹ برائے افغانستان بڑھانے میں دلچسپی لے رہا ہے اور بھارت کی ایکسپورٹ برائے افغانستان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

1958 کے ایک ایکٹ کے تحت دنیا کے ان ممالک کے لیے ایک سہولت پر عمل درآمد کرنے میں پابندی کا کہا تھا وہ ممالک جوکہ لینڈ لاک ہیں۔ وہ اپنے پڑوسی ممالک جن کے پاس بندرگاہیں ہیں ان سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 1965 میں افغانستان کے ساتھ ٹریڈ ایگریمنٹ ہوا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1965 کی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ میں افغانستان نے بھارت کی حمایت کی تھی۔ 2010 میں جب افغانستان میں حامد کرزئی کی حکومت تھی تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی مسائل کے حل کے لیے پاک افغان ٹریڈ منظر عام پر آیا۔

بھارت کے ساتھ افغانستان کی تجارت کی صورت حال یہ ہے کہ افغانستان سے سامان تجارت سے لدے ہوئے ٹرک واہگہ بارڈر پر جاتے ہیں اور وہاں پر ٹرک کا سامان بھارتی ٹرکوں میں لاد کر افغانی ٹرک واپس خالی آ جاتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی تجارتی ماحول میں زبردست خرابی لے کر آیا جس کے منفی اثرات دونوں ممالک کے تاجروں، ٹرک ڈرائیورز، ٹرالرز والے، مقامی تاجر، باغات کے مالکان، ایکسپورٹرز اور امپورٹرز تو ہر طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طورخم بارڈر چوتھے روز بھی بند رہا کیونکہ حکام کے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں، بارڈر کی بندش کے ساتھ بڑے پیمانے پر مزدوری کرنے والے دونوں ممالک کے درمیان آنے جانے والے مسافر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ حال ہی میں سرحدی چوکی تنازع بڑی شدت سے ابھر کر جب سامنے آیا اور طورخم بارڈر کو بند کر دیا گیا۔ اس موقع پر ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ روزانہ 600 سے 700 ٹرک اور 5 سے 6 ہزار لوگ کراسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے انتہائی سخت رویوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

اب امریکی صدر کے ایگزیکٹیو آرڈر کے باعث بھی تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں، کیونکہ اب امریکا نے اپنے ان ہزاروں افغان شہریوں کو جوکہ 2001 سے امریکا کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے اور ان لوگوں کو امریکا میں پناہ دینے کی منظوری بھی دی گئی تھی، ان کی اکثریت افغانستان میں خطرہ محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ اب صدر ٹرمپ کے ایک آرڈر سے ان لوگوں کی امریکی واپسی خطرے میں پڑگئی ہے۔

ایسے موقع پر پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ان پناہ گزینوں کے امریکا منتقلی کے باعث بات چیت کے لیے تیار ہے، اگر امریکا کی جانب سے ان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کیا جائے گا تو ان کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ ان کو افغانستان بھیجا جائے گا، اب بھلا بتائیے اس وقت کی حکومت نے ان لوگوں کو کیوں پناہ دی تھی اور اتنے عرصے گزرنے کے باوجود ان لوگوں کو امریکا واپس نہیں بھجوایا جاسکا۔ پاکستان نے امریکا سے مذاکرات کرنے ہیں تو پہلے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ زور و شور سے اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی تھی لیکن حتمی نتیجے کے حصول ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور پاکستان واپس پہنچنے تک پاکستان کو اپنی تگ و دو زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو ترجیح دی جائے اس کے ساتھ ان پناہ گزینوں کے بارے میں بات کی جائے۔اس وقت پاک افغان تجارت شدید خطرے سے دوچار ہے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اگر معاملات میں تھوڑی بہت بہتری لے کر آئے ہیں اور پاکستان اپنی بہترین سفارت کاری کے ذریعے تجارتی تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں افغان تاجر دوبارہ اپنی ایکسپورٹ اور امپورٹ کے لیے پاکستان کو ترجیح دیں گے۔

اب بات یہ ہے کہ معاملات بہتری کی جانب مڑ سکتے ہیں، اگرچہ افغان تاجر دیگر راستوں کا انتخاب کر چکے ہیں لیکن جس طرح کی سہولت پاکستان میں تھی وہ میسر نہ آسکے گی۔ اول ان تاجروں کے کارندے جوکہ پاکستانی حکام اور یہاں کے تاجروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں وہ اردو سے بخوبی واقف ہیں اور دونوں ممالک کے تاجروں کے درمیان تجارت انگریزوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے ایک دوسرے سے خوب واقف بھی ہیں باآسانی ایک دوسرے سے گفتگو بھی کر سکتے ہیں اور بعض کے انتہائی قریبی تعلقات بھی ہیں۔

البتہ ان تمام باتوں میں طالبان کی طرف سے ہٹ دھرمی، سختی اور کئی باتیں اب شامل ہوگئی ہیں۔ اب یہ مسائل کیسے حل ہوں کہ پاکستان کے تاجروں کو اور دیگر متعلقہ افراد کی روزی کو جس طرح نقصان کا سامنا ہے اسی طرح افغانستان کے تاجر اور وہاں کے مزدور عام شہری سب اس سے متاثر ہیں۔ لہٰذا ان مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لے کر مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے۔ افغانستان کے ساتھ بہت سے دیرینہ اختلافات کے باوجود افغانستان کے لیے ہماری برآمدات کا حجم بھی زیادہ ہے اور پڑوسی ملک بھی ہے اور افغان تاجر پاکستان سے ہی تجارت کرنے میں زیادہ آسانی محسوس کرتے ہیں اور پاکستانی تاجر بھی لہٰذا درمیانی راستہ حکومت کو بھی نکالنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے افغانستان میں افغانستان کے اور پاکستان کہ پاکستان افغان تاجر کے تاجروں کے درمیان سکتے ہیں ان لوگوں کے تاجر رہے ہیں کے باعث ہیں اور کے ساتھ کی جانب کے لیے ہے اور

پڑھیں:

اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کا اہم دورہ کیا ،دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال اور تحفظات
تھے ،افغانستان کی حدود سے جو دہشت گردی ہورہی تھی اس پر حکومت پاکستان کے تحفظات تھے،اس سارے معاملے میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ، اسحاق ڈار کا کابل جانااور وہاں افغان قیادت کے ساتھ ملاقاتیںکرنا اور اس میں جو اعلانات کئے گئے وہ بڑے حوصلہ افزا اور خوش آئند ہیں ، اس میں سب سے بڑا اعلان جوکیا گیا وہ یہ کہ دہشت گردی کے لئے دونوں ممالک اپنی سرزمین کسی کو استعمال نہیںکرنے دیںگے ،پھر افغانستان سے تجارتی سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے افغان حکومت کے مطالبے پر کہ بینک گارنٹی کے ساتھ ساتھ انشورنس گارنٹی قابل قبول ہوگی ، اس کے علاوہ وفودکے تبادلے ہونے ہیں،افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے،افغان شہریوں کی پاکستان کے اندر جائیدادیں وہ جب پاکستان چھوڑ کر جائیں گے تو جائیداد فروخت کرنے کی اجازت ہوگی ،سازوسامان بھی ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی اور انہیں عزت واحترام کیساتھ بھیجا جائیگا،اس دورے کا مقصد اگر دیکھا جائے تو اس میں پاکستان کے لئے سب سے بڑے دو مسائل تھے ایک دہشت گردی اور دوسرا افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے واپسی یقینی بنانا تھا، دہشت گردی کے تناظر میں جو اعلان کیا گیا ہے وہ بڑا خوش آئند ہے ، پہلے بھی افغانستان کی جانب سے اعلانات کئے گئے لیکن عملاً کوئی اقدامات نہیںکئے گئے ،ٹی ٹی پی کے ساتھ 2021میں جو معاہدہ ہوا اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں دہشتگرد تنظیم کے عہدیدار پاکستان آئے اوروہ منظم ہوگئے اور دہشت گردی بڑھتی گئی اور حالیہ عرصے میں دہشت گردی میں 60فیصد اضافہ ہوا،پاکستان کو دہشت گردی کا سب سے بڑا سامنا افغانستان کے اندر سے ہے، پھر بلوچستان کی جو صورتحال ہے، بی ایل اے کو بھارت کی حمایت حاصل ہے اور افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف دہشتگردی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔اگر اب افغان حکومت پاکستان کی شکایات دور نہیں کرتی تو یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تجارت کے شعبے میں ان کے مطالبات من وعن پورے کئے جائیں۔کہا جارہا ہے کہ افغان وزیر خارجہ جلد پاکستان کے دورے پر آئیں گے ، اس دورے کے تناظر میں بھی دیکھا جائے توگفت وشنید بڑی اچھی بات ہے اور اس سارے معاملے میں پیشرفت کرانے میں افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان کے رابطے کام آئے ہیں،ایک اور بھی رپورٹ آئی ہے کہ افغانستان کے اندر سے خطرناک اسلحہ جو امریکی فوج چھوڑ کر گئی وہ بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگا ہوا ہے ،اس میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کم ہو ، اگر افغانستان ہمارے ساتھ حقیقی معنوں میں تعاون کرتا ہے اوردہشت گردی پر قابو پالیا گیا تو پاکستان کے اندر بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے ۔لاہور کی سیشن عدالت میں ایک اہم کیس زیر سماعت ہے ،شہبازشریف کی جانب سے عمران خان کے خلاف دس ارب ہرجانے کا کیس، اپریل 2017 میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک جلسے کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ انہیں پاناما لیکس کے معاملے پر خاموش رہنے اور مؤقف سے دستبردار ہونے کے بدلے میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے 10 ارب روپے کی پیشکش کی گئی۔اس الزام کے جواب میں شہباز شریف نے جولائی 2017 میں لاہور کی سیشن عدالت میں عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا۔دعوے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شہباز شریف، جو اس وقت وزیراعظم نواز شریف کے بھائی اور خود پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، ایک معزز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی عوامی خدمات کی وجہ سے انہیں قومی و بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اس سے قبل بھی شہباز شریف نے عمران خان کو ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا جس میں جاوید صادق کو مبینہ فرنٹ مین قرار دے کر اربوں روپے کمانے کے الزام پر معافی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عمران خان نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کردہ ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ اگر وہ اور اُن کی جماعت پاناما لیکس پر خاموش ہو جائیں تو حکمران جماعت اُنہیں خاموش کرانے کے لیے بڑی مالی پیشکش کر سکتی ہے اور اس دعوے کی مثال کے طور پر انہوں نے 10 ارب روپے کی آفر کا ذکر کیا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • 3387 مزید غیر قانونی افغان باشندے باحفاظت افغانستان روانہ
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش ہے، افغان وزیر خارجہ
  • وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی افغان وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے ملاقات، سیکیورٹی اور تجارت پر گفتگو